نئے سال کا کلینڈر

ہمارے ملک میں موجود کوئی بھی ایسا ذی ہوش فرد نہیں ہوگا،جو سال 2021 کی ہولناکیوں سے واقف نہیں ؟ اندھا ،بینا بھی اس کی کسک اور ٹیس کو محسوس کررہاہےکہ اس سال کے شدید چوٹ اور گہرے زخموں سے پورا ملک متاثرہوااور اسکی معیشت تباہ و برباد ہوکر رہ گئی ہے۔ عوام وخواص بُرے حال میں ہیں۔منافر طاقتوں کی بد اعمالیوں اورصاحب ِارباب و اقتدارکی بعض کوتاہ اندیشیوں کے نتیجے میں ہمارا پیارا ملک بدحال ہوکر رہ گیا ہے۔اس پسِ منظر میںاگر سال2021کوآزمائشوںاور فتنوں کا سال کہا جائے تو بالکل بے جا نہ ہوگا۔ بلکہ ارباب اقتدار کی منفی سیاست اور فرقہ پرستوں کی نحوستوں اوربداعمالیوںکی وجہ سے بھی ملک میںعوام کی پریشانیوں میں حد درجہ اضافہ ہوا ہے، اس لئے اگراِسے نحوست کا سال کہاجائے توبُرا نہیں ہوگا۔ اپنے اس پیارے ملک میںہمیںایسی تباہی و بربادی کی مثال کسی دور میں نہیں ملتی ہے۔ ماضی کی مسلم  اور غیر مسلم حکمرانی میں تو لوگ یکجہتی اور یگانگت کے ساتھ رہے ہیںاور اسکی شاندار دلیلیں بھی موجودہیں، مگراب موجودہ دور کی سیاست نے ملک کو پستی کے دہانے پر لا کھڑا کر دیا ہے ۔اس لحاظ سے اگر اس سال کو تباہ کن اور غلط کارستانیوں والا سال کہا جائے تو مبالغہ نہیں ہوگا بلکہ مناسب اور موزوں ہوگا۔ موجودہ دورِ حکمرانی میںحکومت کےاعلیٰ عہدیداروں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہی شرپسند عناصر نے اپنا سر اٹھایا ہے اور انہوں نےحکومت کاناجائز فائدہ اٹھایا ہے۔ اُن کی طرف سےکمزوروں پرجس طرح کی ظلم و زیادتی ہوئی ہے اور مظلوموںکوجانی و مالی نقصان پہنچاہے،وہ سب اللہ کوہی معلوم ہے۔ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف نفرت و عداوت کی جو آگ بھڑکائی گئی،اُس سے پورے ملک کی خوشگوار فضا متاثر ہوکر رہ گئی ہے۔ اِسی دور ِاقتدار میں کچھ ایسے قوانین کو متعارف کرایا گیا ہے،جن کے نفاذسے ملک کے دستور اورآئین پر حلف سے کھلواڑکیا گیا ہے۔جہاں ہندوستان اور مسلمان کو جبر وزیادتیوں کے پنجے میں لے کر بڑے جرم کا ارتکاب کیاگیاہے،وہاں جمہوریت کے تانے بانے کو بکھیرنے کی ناپاک کوششیں کی جارہی ہیں۔ ہندوراشٹریہ ہی نہیں بلکہ اسکے پس پردہ برہمن راشٹریہ بنانے کی کھلے عام باتیں کی جارہی ہیںاوراس کے لئےپورے ملک میں ہندو مسلم منافرت کا جو بیج بویاجارہا ہے، پروپیگنڈے کیے جارہے ہیںاورتسلسل کے ساتھ جال پھیلایا جارہا ہے، نفرت و عداوت کی دیواریں کھڑی کی جارہی ہیں، منافرت کا بازار گرم کرکےمنووادی سسٹم کو دھیرے دھیرے ملک میں نافذ کیا جارہا ہے،جس کے لئے اب تک کتنے بے قصور مسلمانوں کا ناحق خون بہایا گیا ہےجبکہ تا حال مسلمانوں کو بدستور نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری ہے۔قانون کی پاسداری نہیں ہورہی ہےبلکہ قانون کا مذاق اُڑایا جارہا ہے۔ دن دہاڑے دھاندلی کی جارہی ہے، حق کو ناحق اور مسجد کو مندر بتایا جارہا ہے، حق پرستوں کے خلاف مقدمات درج کیے جارہے ہیں، سچ بولنے والوں کے منہ پر تالا لگایا جارہا ہے۔ طاقتوروں نے کمزوروں کے حقوق کودبانے کی ہر ممکن کوشش شروع کردی ہے بلکہ انسانی حقوق کی کھلے عام پامالیاں بھی ہورہی ہیں۔ آزادیٔ رائے پر شکنجہ کسا جارہا ہے ، مسلمانوں کی شریعت سے چھیڑ خوانی ہورہی ہے، حتیٰ کہ طلاق اور شادی کی عمر کی فیصلے کے معاملے میں حکومت نے جس ہٹ دھرمی سے کام لیاہے، وہ بالکل نامناسب ہے۔اب تو ہمارے ملک میں مدارس ومساجد کے احترام کو بھی نیلام کیا جارہا ہے،جانچ اور انکوائری کے بہانے پولیس وہاں شرارت کررہی ہے،اخلاق و کردار اورتعلیم وتربیت کے اداروں پر شکنجہ کسنے کی پریکٹس ہورہی ہے اورہری کے دوار پرابلیس کی مجلس شوریٰ میں قہقہے لگارہی ہے۔ جب کہ اس صورت حال سے ملک پستی کی طرف بڑھتا جارہا ہے ۔بظاہرپولیس انتظامیہ اپنی اصلی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کررہی ہے بلکہ ماحول خراب کرنے والوںکی ہی مدد کرتی نظر آرہی ہے۔اگرچہ کورونا وبا کے دوران تبلیغی جماعت اور دعوت و تبلیغ کے نظام پر تلوار لٹکائی گئی،مگر سب کچھ جھوٹا ثابت ہونے کے باوجود اب مدارس و مکاتب کوبند کرنے کی تیاری ہورہی ہے۔ ایک طرف دیر و حرم کو مقفل کردینے کی پلاننگ ہورہی ہے، تعلیم و تربیت کے کارخانے کو کھوکھلا کردینے کی کوشش ہورہی ہےتو دوسری طرف سستے داموں میں شراب کی سربراہی کرنے کی خوشخبری سنائی جارہی ہے،عجب بات ہےکہ تعلیمی ادارے جن سے آدمی تیار ہوتے ہیں انکوپروان چڑھانے کے بجائے بندکرانے کی کوششوں ، حکمرانوں کے عجیب و غریب فیصلوں اور پالیسیوں سے عوام کا اعتمادبالکل متزلزل ہو گیاہے۔ لاک ڈاؤن، کورونا وبا اور اب اومیکرون کے پھیلتے ہوئے بھی اچھی حکمرانی کرنے کے بجائے انسانوں پر ظلم و ستم ڈھانے کی تیاری ہورہی ہے۔اُدھر آرٹیکل 370 ہٹانے کے بعد بھی کشمیریوں کی حق تلفی ہورہی ہے۔شرپسندوں کو کھلی چھوٹ فراہم کی جارہی ہے اور آج بھی وہاں کے حالات جوں کے توںنظر آرہے ہیں۔
یہ سب کام 2021 میں موجودہ مرکزی سرکار کی ناک کے نیچے انجام دیئے گئےاور ہنوزانسانی قدروںاور انسانیت کے اصولوںکی پاسداری نہیںہورہی ہے۔لوگوں کے کاروبار کو تہس نہس کیا جارہا ہے ،ستم بالائے ستم یہ کہ مظلوم کو ظالم کے طور پر پیش کیا جارہا ہے اور ظالموں کی پیٹھ کو تھپتھپائی جارہی ہے جس کے نتیجہ میں مظالم کوبڑھاوا مل رہا ہے۔کئی فساد و جھڑپ  کے واقعات میں پولیس کو اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے دیکھا جاتا ہے حتیٰ کہ وہ طلبا و طالبات پر بھی بے جا ستم ڈھاتی ہے۔اُن کے ڈنڈوں سے کسی کا سرپھٹے ، کسی کا پیرٹوٹےیا کسی کی پیٹ کٹےیا کسی کی آنکھ ضائع ہوجائے،اس کی اُن کو کوئی پرواہ نہیں،بظاہر کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہے۔بے دردی اور بے رحمی کے ایسے کئی واقعات دیکھنے میں آتے ہیں جو بے جا اور ناحق  ہوتے ہیں۔ایسی ستم ظریفیاں بھی ہوتی رہیں،جن سے انسانیت شرمسار ہوجاتی ہے۔گویا ابلیس کو بھی مات دی جاتی ہے۔ حکمرانوں کی بے حسی اس حد تک آگے بڑھ گئی کہ ان کے کانوں پر جُوں تک نہیں رینگتی اور مظلوموں پر ظلم و ستم کا سلسلہ بند ہونے کے بجائےدن بہ دن دراز ہوتا جارہا ہے۔ اب تو ہری کی دوار سے قتل ِ عام کی دھمکیاں بھی گونج رہی ہیں۔اس صورت ِ حال کو روکنے یا دو فریقوں میں صلح کرانے کی ذمہ داریاں کیا ارباب اقتدار کی نہیں ہے۔یہ ایک اہم سوال بنا ہوا ہے؟اس معاملے پر حکمرانوں کی مسلسل خاموشی سےملک میں انار کی اور عدم استحکام کو بڑھاوا مل رہا ہے۔ شائداسی لیے خدائے واحد نے پوری دنیا بشمول ملکِ ہندوستان کوآزمائشوں اور مصیبتوں میں گرفتار کردیا ہے اور وہی دنیا بھر کےسارے مظلوموں کو ظالموں سے نجات دلانے کا قدرت والا بھی ہے۔
ہر طرف سے یہی آواز سنائی دے رہی ہے کہ سال2021 میں ملک کی موجودہ مرکزی حکومت کی پالیسیوں اور حکمرانوں کی نا اہلی نے ملک کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے، شرپسندوں کی کارستانیاں خود ان کے لئے سبق آموز بن گئی۔ اُن کی وجہ سے ملک کومختلف بیماریوں اور آفتوں بالخصوص کرونا وائرس اور اب اومیکروں نے آدبوچا ہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے اچھے اچھوں کی حالت تباہ ہوکر رہ گئی، کاروبار ٹھپ پڑے ہیں، ملک کی معیشت تباہ و برباد ہوکر رہ گئی ہے، ملک اقتصادی طور پرکمزورہوتا چلاجارہاہے اور غریب لوگوں کے لئے زندہ رہنا انتہائی مشکل بن چکا ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ستم رسیدوںکی آہ وبکا نے ساری دنیا کو بڑی آزمائشوں میں مبتلا کردیاہے۔ خدا نے ظلم کے خلاف آواز بلند نہ کرنے والوں کو بھی پکڑ لیاہے، کتنے اعلیٰ اور ادنیٰ درجے کے لوگ اس مرض میں مبتلا ہوکر ہمیشہ کیلئے موت کی نیند سو گئے۔کروڑوں انسانوں کا جانی و مالی نقصان ہو گیا۔بلا شبہ جب خائے تعالیٰ انسانوں کے کرتوتوں پر ناراض ہوجاتا ہے تو وہ سزا کے طورپراپنا عذاب و قہرانسانوں پرڈال دیتا ہےاور اس میںوہ اچھےبُرے کی تمیز نہیں کرتا ہے۔ وہ سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ سچ یہی ہے کہ خدا کا قانون ہی ہمیشہ غالب رہا ہے اور ہمیشہ غالب رہنے والا ہے، ظلم و زیادتی اور نفرت و عداوت کوخدا کبھی پسندنہیں کرتا۔ ظلم وزیادتی کیساتھ کبھی کوئی حکومت کامیاب نہیں رہتی ہے۔ویسےحکومت ہمیشہ رہنے والی چیز نہیں ہوتی ہے، آج جن کی حکومت ہے ،کل کسی اور کی ہوسکتی ہے۔اللہ تعالیٰ اگر آج کسی بُرےانسان کو اقتدار پر بٹھاتا ہے تو کل کسی اچھےو انصاف پسندانسان کوحکومت عطا کرتا ہے۔ جو خود اچھے ہونگے اور عوام وخواص کیساتھ بھی اچھا معاملہ وبرتاؤ کرینگے،اللہ انہیں کبھی نا اُمید نہیں کرتاکیونکہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ 
ملک کی ساری صورت ِحال کے پیش نظر اب موجودہ حکومت اور ارباب اقتدار کو ہوش کے ناخن لینا چاہیے، کیونکہ لاک ڈاؤن اور احتیاطی تدابیرکسی مرض کی  ٹھوس دوا نہیں ہے، اصل دوا تو گناہوں سے اجتناب، غرور وتکبر سے گریز، ظلم و زیادتی سے پرہیز ہے۔ دوائی کا ایجاد تو ایک انسانی تخلیق ہے، مرض اور شفا دونوں اللہ رب العزت کے ہاتھ میں ہے جو پوری انسانیت کا بھی خالق ہے اور تمام امراض اسقام کا بھی، اوروہی شفا بھی پہونچانے والا ہے۔ وزیر اعظم کے اس بیان سے کہ''2020 صحت کے چیلنجوں کا سال تھا، 2021 صحت کا حل نکالنے کا سال ہوگا'' لیکن ہوا کیا سب کو معلوم ہے۔کیونکہ جب انسان کا مالک ہی ناراض ہے ،اور اُسے راضی کرنے کی کوشش ہی نہیں ہورہی ہے تو آخر ہوگا کیا؟ اس زمین پر موجود ہر فردِ بشر کے لئے لازم ہے کہ وہ عدل و انصاف کو اپنا مزاج بنائے، اپنے ماضی کا احتساب کرے، اورماضی کی غلطیوںسے عبرت حاصل کرےاور مستقبل کو سنوارنے کی کوشش کرے۔بصورت ِ دیگر انسان ایک مصیبت سے نکل کر دوسری مصیبت میں گرفتار ہوتا رہے گا۔
بغور دیکھا جائےتوکسی بھی طرح کا جبر واستبداد ،ظلم وزیادتی اور حق تلفی و ناانصافی کورونا اور اومیکرون سے زیادہ خطرناک اور بھیانک مرض اور بیماری ہے،اور ساتھ ہی  بڑا گناہ بھی۔ جس طرح جسمانی بیماریوں سے بچنے کے لئے اس کا علاج و معالجہ اور احتیاطی تدابیر ضروری ہیں، ٹھیک اُسی طرح ذہن ودماغ اورنفس وضمیر کی بیماریوں،شرارتوں ،خباثتوں اور غلط کاریوں سے مکمل احتیاط و اجتناب بھی ہمارے لئے نہایت لازمی اور ضروری ہیں۔اسکے لیے علاج توبہ و استغفار کی کثرت ہے، کیونکہ پوری دنیا اللہ کی مخلوق ہے ، اُس کا یہ ایک کنبہ ہے، سب کو ایک خدا کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ اس لئے اسکی پرستش کی جائے۔اس کے احکامات کی تعمیل کی جائے، اورادیان کے جھگڑوں اور جھمیلوں سے نکل کر عدل و انصاف میں پناہ لی جائے، اسی میںپوری انسانیت کیلئے خیرخواہی ہے۔ ورنہ ہمارے جرائم،کارستانیاں و مظالم پوری انسانیت کی تباہی و بربادی کا ذریعہ بن جاتے ہیں اور قیامت میں بھی سوائے پچھتاوے کے کچھ اورہاتھ آنے والانہیں ہے۔ اس سے قبل ہر فرد وبشر کو اپنے گریبان کو جھانکنا چاہیے اور اپنی جفاؤں سے توبہ اور استغفار کرتے ہوئے اپنے خالق و رازق کا خیال کرنا چاہیے تاکہ سال 2022 میں اللہ ہمیں ہزاروں آفتوں بشمول کورونا وائرس ،اومیکرون اور دیگر عذاب و عتاب سے کلی طور پر نجات مل پائے ۔یہی ہمارے لئے سال نو کی بڑی خوشخبری ہوگی اور ہمارے لئے عدل وانصاف کاکلینڈر ثابت ہوگا،اسکی صبح ہمارے لیے نوید ثابت ہو،باہمی محبت پیدا کرنے کا سال ثابت ہو،اسکے لیے ہمارے پاس جو کچھ بھی سبیل بن سکے، اس سے بڑا فائدہ اٹھانا چاہیے اورخدا کو راضی کرنے کی ہر ممکن فکر کرنی چاہئے۔ اللہ ہمیںآفتوں سے چھٹکارا دے ،ظلم و زیادتی سے پورے ملک کو پاک کر دے اورنئے سال کے سورج کو ہمارے لیے نئی صبح و امنگ کیساتھ طلوع فرمادے۔
(عربی لیکچرار،مولانا آزاد اردو یونیورسٹی ،
حیدر آباد،موبائل نمبر۔8801589585)