پچھلے کئی سالوں سے ہمارےگاؤں اور مضافات میں مختلف لوگوں نے یہ دعویٰ پیش کیا کہ انہوں نے گاوں کے اطراف میں شیر دیکھا- حالانکہ شیر کی اصل رہایش گاہ یہاں سے اوپر جنگلوں میں ہوا کرتی ہے۔ مگر جنگلات کی بے دریغ کٹائی سے ان کو مجبور ہوکر بستیوں میں اترنا پڑتا ہے۔ بہرحال میں نے ایسے بہت سے قصے سنے ضرور ہیں مگر اپنی آ نکھوں سے کبھی کسی شیر کا دیدار نہ کیا۔
اگر دیکھا بھی تو وہ بھی سوشل میڈیا پر جب گزشتہ دنوں ہمسایہ گاؤں میں لوگوں نے شیر دیکھتے ہی وائڈلائف والوں کو خبر کی جو اسے پکڑنے میں کامیاب ہوئے- اسی طرح جب ایک سال پہلے میرے والد صاحب نے اپنے باغ میں شیر دیکھا اور شام کو آکے ہمیں یہ قصہ سنایا تو مجھے یقین ہو گیا کہ واقعی اس علاقے میں شیروں نے اپنا ڈھیرا جما ہی لیا ہے-
اس سے پہلے بھی میں نے لوگوں کو یہ دعوا کرتے ہوئے سنا مگر یقین کی کوئی صورت ہاتھ نہ آئی وہ اس لئے کہ لوگوں کا یہ معمول ہے کہ وہ بات کا بتنگڑ بناتے ہیں- گذشتہ برسوں میں شیر دیکھنے کے دعوے سے متعلق کہی ایک واقعات سننے کو ملے۔
میں نے ایک صاحب کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اس کی گاوں کے شمال میں ایک شیر کے ساتھ مڈبھیڑ ہوی اور اس لڑائی میں شیر لہولہان ہوکے بھاگ گیا۔
مگر دوسرے موقع پر اسی آدمی کو بلی جیسے معمولی جانور سے ڈرتے دیکھا- بہرحال زبان میں اگر ہڈی ہوتی تو بات کہنے میں مشقت ہوتی اور انسان بھی مسلسل جھوٹ بولنے سے پرہیز کرتا-
ایک اور صاحب مجھے ملے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے شیرنی اور اس کے تین بچوں کو اپنے آگے آگے چلتے دیکھا ۔گویا کہ وہ چاروں برفیلے موسم میں اس کے لئے راستہ ہموار کر رہے تھے۔
ایک صاحب نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اس نے جو ریشمی جیکٹ پہنا ہوا ہے۔ وہ اصل میں اس خونخوار شیر کی کھال سے بنا ہے جس کو اس نے ایک محاسبہ میں اپنے انجام کو پہنچایا تھا۔
ان سارے دعوئوں میں اگرچہ مبالغہ آرائی صاف جھلکتی تھی مگر پھر بھی نہ جانے کیوںیہ ساری باتیں سن کر میں بھی دل ہی دل میں یہ آرزو کرنے لگا کہ کاش میں بھی جنگل کے اس بادشاہ سے ملاقی ہو جاؤں۔ مجھے بھی یہ ر شک ہونے لگا کہ میں بھی شیر سے لڑ کر ان رستموں کی صف میں شامل ہوجاؤں جن کا نام رہتی دنیا تک امر رہے گا۔
ایک رات میں اسی راستے سے جہاں سے اکثر لوگوں نے شیر دیکھنے کی تصدیق کی تھی اپنی گاڑی میں سفر کر رہا تھا ۔گاڑی چلاتے چلاتے میں سوچ رہا تھا کہ کاش کوئی شیر نظر آئے۔ مجھے یقین تھا کہ ایسی صورت میں میں گاڑی سے اتر کر ان رستموں کی طرح شیر کو للکارونگا اور دلیرانہ انداز میں اس وحشی درندے کا مقابلہ کروں گا۔ میرے اندر شیر سے لڑنے کا ایک عظیم ولولہ ابھر رہا تھا۔ اس معرکہ آرائی کیلئے میرے جذبات عروج پر پہنچ چکے تھے۔
میں انہیں خیالات میں مگن تھا کہ تقریبا بیس میٹر کی دوری پر مجھے ایک جانور نظر آیا۔ ہٹا کٹا چار ٹانگوں والا جانور گاڑی کی طرف آ رہا تھا ۔حالانکہ اندھیرے میں بدن پر ریشمی کھال تو نہ دکھی مگر شیروں والی چال صاف نظر آرہی تھی۔
مگر جوں ہی میں نے یہ منظر دیکھا میری جان نکل گئی۔ سارا حوصلہ مٹی میں مل گیا اور مجھ پر رقت طاری ہوگئی۔ ہاتھ پاؤں کا نپنے لگے اور میری گاڑی بند ہوگئی۔ مجھے اپنی موت سامنے دکھائی دینے لگی ۔ میں نے The prey نامی فلم میں ایک شیر کو گاڑی کے اندر چھلانگ لگاتے ہوئے دیکھا تھا۔ مجھے شیر کی ان صلاحیتوں کا بخوبی اندازہ تھا۔
میرے سارے جذبات خاک آلودہ ہو گئے۔
جب گاڑی بند ہو گئی تو میں نے آنکھیں بند کر کے آیت الکر سی پڑھنی شروع کی۔ میں خدا سے دعا مانگنے لگا کہ یا الہی تو ہی آفت زدوں کا والی ہے میری جان بخش دے۔
میں شیر کے چلنے کی آواز سن رہا تھا اور خوف سے میری جان نکلی جا رہی تھی۔ جب آواز اور قریب آنے لگی تو میں سکتے میں آگیا۔میری دھڑکن ایسے بڑھنے لگی گویا کسی موٹر کے چلنے کی آواز ہو ۔ میں اپنی موت کو سامنے دیکھ ہی رہا تھا کہ اچانک سے کسی نے آواز لگائی ۔
"خیریت ہے کیوں رات گئے بیچ سڑک گاڑی بند کرکے بیٹھے ہو"
یہ آواز سنتے ہی میری جان میں جان آ گئی ۔ آنکھیں کھول کر دیکھتا ہوں کہ ایک شخص اپنی گائے کے پیچھے بھاگتا ہوا نظر آرہا ہے۔
مجھے اس بات کا بخوبی اندازہ ہوا کہ جس کو میں شیر سمجھ بیٹھا تھا, وہ اصل میں ایک دہقان کی گائی تھی جو کھیت سے بھاگ کر آ رہی تھی۔
میں نے پسینہ پونچھ کر خدا کا شکر بجا لایا- اور پھر دوبارہ شیر دیکھنے کی تمنا نہ کی۔
���
میڈکل افیسر شوپیان بلاک ،موبائل نمبر؛6005636407