میں نہیں جانتا ،آدھا علم ہے

بعض صحابہ و تابعین سے اس طرح کے الفاظ مروی ہے کہ ’’ لا ادری نصف العلم‘‘ میں نہيں جانتا علم کا آدھا حصہ ہے۔امام مالک جلیل القدر محدث اور فقیہ تھے ،ایک شخص لمبا سفر کرکے امام مالک کے پاس آیا۔اس نے ایک مسئلہ پوچھا،امام مالک نے جواب دیا کہ میں اس کو بطریق احسن نہیں جانتا۔سائل نے کہا کہ میں لمبی مسافت طے کرکے اس مسئلہ کی خاطر یہاں آیا ہوں، جن لوگوں نے مجھ کو آپ کے پاس بھیجا ہے میں واپس جاکر ان کو کیا جواب دوں ؟امام مالک نے کہا،تم یہ کہہ دینا کہ امام مالک نے کہا ہے کہ میں اس کو نہیں جانتا۔ امام مالک رحمہ اللہ کے بارے یہ بھی آیا ہے کہ آپ سے 48 سوالات پوچھے گئے لیکن امام صاحب نے 32 سوالات کے بارے میں لا ادری میں نہیں جانتا کا اعتراف کیا ۔سوال کا جواب دینا کوئی سادہ بات نہیں، یہ ایک ذمہ داری ہوتی ہے، کسی بات کو جانچ پڑتال کرنے کے بعد ہی مکمل جانکاری حاصل کرکے آئندہ مستقبل کی خبر کریں بصورت دیگر اگر آپ نہیں جانتے تو نہ جاننے کا اعتراف کیجئے ۔ایک بار مفسر قرآن امین احسن اصلاحی صاحب اپنے شاگردوں کو سبق پڑا رہے تھے، شاگردوں کا مخالف سمت بورڈ ( Board ) پر ایک جملہ تحریر کیا ۔ شاگردوں سے کہا اس کا معنی بتاو ۔ ہر ایک شاگرد نے اپنے طور پر اس کا معنی بتانا چاہا، کسی نے کہا اس کا معنی یہ ہے ،کسی نے کہا شاید یہ معنی ہوگا وغیرہ ۔ کوئی ایسا طالب علم نہیں ملا جو یہ کہتا کہ میں نہیں جانتا۔ اس کے بعد استاد شاگردوں کی طرف متوجہ ہوا ۔ کہا عربی میں ایک مثل ہے ۔ ’’لا ادری نصف العلم‘‘ میں نہیں جانتا آدھا علم ہے ۔ یعنی کہ میں نہیں جانتا بھی جاننے کے برابر ہے، وہ اس لئے جب آپ اپنے نہ جاننے کو جانتےہیں، اس کے بعد ہی ممکن ہو جاتا کہ آپ جاننے کی کوشش کریں، سلف صالحین کا طریقہ یہ تھا جب وہ کسی مسئلہ کا جواب دیتے تھے، وہ اُس کو حرف آخر نہيں سمجھتے تھے، وہ اکثر جواب کے آخر میں کہہ دیتے تھے ، واللہ اعلم۔ یعنی اللہ ہی زیادہ جانتا ہے۔ یہ بھی علم کی بات ہے جو جس چیز کے بارے میں اگر جانتا بھی ہو تا،ہم اس کے متعلق کہہ دے اللہ زیادہ جانتا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔ جب آپ سے کوئی ایسا مسئلہ دریافت کیا جائے جسے آپ نہیں جانتے تو اس کے جواب سے راہ فرار اختیار کرو ۔ شاگردوں نے پوچھا ،وہ کیسے ؟تو فرمایا کہو اللہ بہتر جانتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں اگر ہم نہ جاننے کو ظاہر کریں گے، انفرادی اجتماعی دونوں صورتوں میں سماج میں ہماری عزت نہیں رہے گی، لوگ ہمیں علماء و دانشور ،صاحب مصنف و صاحب مسند فضيلت نہیں گردانیںگے، یہ ہماری اَنا ego کے خلاف بات ہوئی کہ کوئی ہم سے کسی مسئلے کے متعلق دریافت کرے اور ہم جواب نہ دے سکھیں۔ اپنی عزت نفس کو بچانے کے لیے کوئی جواب تراشنا یا اپنی خواہشات نفس سے جواب دینا درست نہیں، یہ ایک نفسیاتی بیماری ہے جسکو انانیت کہا جاسکتا ہے ۔یہ اپنی فرضی تسکین کے خاطر ایک بدترین بھوٹ ہے ۔ امام مالک فرماتے ہیں کسی شخص کو دینی سوال کا جواب دینے سے پہلے اپنے آپ کو جنت اور دوزخ پر پیش کرلینا چاہیے، پھر نجات کا راستہ معلوم کرکے اسے جواب دینا چاہیے ۔ یہ قدیم علماء کا حال تھا، اس کے برعکس آج کے لوگوں میں نہ جاننے کا ذرہ برابر بھی اعتراف کا مادہ نہیں ملے گا کیونکہ ان کا مزاج نہ جاننے کے بعد بھی جاننے کا ہے، وہ ہر سوال کا ضرور جواب دیتے ہیں، خواہ اس کے بارہ میں وہ ضروری واقفیت سے محروم ہی کیوں نہ ہوں۔نہ جاننے کا اعتراف کرنے سے آدمی کے اندر مثبت طرز فکر پیدا ہوتا ہے جو لوگ حقیقت کا اعتراف نہ کریں، وہ منفی نفسیات کا شکار ہو جاتے ہیں ۔
نہ جاننے کا اعتراف کرنا گویا اپنے انا سے اوپر اُٹھ کر دوسرے فریق کو جنجال سے مامون کرنا ہے، یہ صحیح راستے کی جانب رہبری و رہنمائی کرنا ہے، اچھے مستقبل کی خبر اور دانش مندانہ حکمت عملی ہے ۔ نا واقفیت کے باوجود بھی رپورٹ کرنا سراسر بدترین جھوٹ بددیانتی فریب اور مکر ہے، حتیٰ کہ جاننے کے باوجود بھی کسی سوال کا جواب دینے سے پہلے اجازت نامہ یا سند چنداں ضروری ہے ۔ مفتی کے ورع و تقوی کے بارے میں آیا کہ وہ سچا مسلمان ثقہ اور امانت دار ہو، فسق و فجور اور اس کے اسباب سے بچنے والا اور اخلاق ِرذیلہ سے اجتناب کرنے والا ہو اور علم کے تمام گوشوں سے آراستہ ہو، جو شخص ان اوصاف کا حامل نہ ہو اُس کا قطعاً یہ حق نہیں بنتا کہ وہ خواہ مخواہ غلط بیانی کرے ۔
 (رابطہ۔9906736886)