شاہد اب تین سال کاہوچکا تھا ، مگراُسکی ماں پروین اُس سے دودھ چھڑانے میں کسی طرح کامیاب نہ ہوسکی تھی۔ اُس نے لاکھ کوشش کی کہ شاہد اُس کادودھ پینا چھوڑ دے تاکہ وہ یکسوئی کے ساتھ محنت مزدوری کرسکے جوکہ اُس کاروزمرہ کامعمول تھا۔ پروین نے اپنی چھاتیوں پرکونین کی ٹکیاں پیس کرلگائیں۔کبھی ہینگ گھول کر لگایا اورکبھی گوند اور کبھی کالا اون چپکاتی مگرشاہد کادودہ نہیں چھوٹا ۔ کبھی کبھاروہ اپنے بیٹے سے مخاطب ہوکر کہتی ……………… ’’بیٹاشاہد!!! اب تو۔توماشاء اللہ تین سال کاہوچکا ہے ۔خداکے لئے اب تومیری خلاصی کرتین سال تک کون بچہ ماں کادودھ پیتاہے ۔ دودھ پلانے کے علاوہ بھی تومجھے اورکام ہیں ۔اگر میں ہروقت تمہیں گود میں لئے دودھ پلاتی رہوں گی تومحنت مزدوری کون کریگا…………. اورمزدوری نہیں کروں گی توپھرکھائیں گے کیا؟؟‘‘
ایک شام جب پروین کام پرسے بہت تھکی ماندی گھرلوٹ آئیں تواس نے جی میں ٹھان لی کہ چاہے کچھ بھی ہو آج کے بعدوہ شاہد کودودھ نہیں پلائے گی ۔شاہد نے بھی دودھ پینے کیلئے کافی ضدکی مگر پروین نے بالکل دودھ نہیں پلایا۔ آخرکار روتے روتے شاہد سوگیا ۔رات کوپروین نے محسوس کیا کہ بچے کاماتھاتپ رہا ہے۔اس نے سوچا کہ شائد رونے کی وجہ سے اُس کاماتھاگرم ہواہو۔ صبح سویرے پروین حسبِ معمول جاگی مگرشاہدابھی تک سویاہواتھا ۔ اُس کے جگانے پربھی وہ نہ جاگا تواُس نے دیکھا کہ شاہد بالکل بے ہوش پڑا ہواہے۔ اُس کی گردن اکڑگئی ہے۔پروین نے بچے کوجلدی سے گودمیں اٹھایااورڈاکٹرکے پاس لے گئی ۔ڈاکٹرنے معائنہ کرنے کے بعد بتایاکہ بچے کوسرسام ہوگیاہے اوریہ خطرناک صورت اختیارکرگیاہے ۔خداہی اپنافضل کرے ورنہ ایسے مریض کابچنا محال ہے ۔ پروین یہ سُن کرپریشان ہواُٹھی۔ تھوڑی دیرمیں شاہد کی سانس تیز ہونے لگی ۔ نبض مدہم پڑگئی۔ چہرے پرمردنی سی چھانے لگی ۔ پروین کویقین ہی نہیں آرہاہے کہ اُس کے لخت جگرکی حالت اتنی جلدی خراب ہوسکتی ہے۔وہ اُس کی لمحہ بہ لمحہ بگڑتی حالت دیکھ کر زاروقطار رونے لگی ، چھاتی پٹنے لگی ۔ اُس نے اپنے سرکے بال نوچ ڈالے ۔روتے روتے اُس کابہت بُراحال ہوگیا ۔وہ جیسے پاگل ہوگئی تھی ۔ پھراُس نے یکبار گی شاہد کی بے حس وحرکت جسم کواپنے سینے سے لگایااورنیم پاگل پن کی حالت میں وہ اُس کے منہ میں اپنے چھاتیوں سے لگاکر دُودھ پلانے لگی۔ شاہدنے نہ آنکھیں اورنہ ہی مُنہ کھول کردودھ پیا۔
………..پروین ہذیانی حالت میں اشکبارآنکھیں لئے کہہ رہی تھی……….. بیٹاشاہد!!!لے دودھ پی لے ۔جی بھرکردودھ پی لے…….. میں تُجھے اورتین سال تک دودھ پلائوں گی ۔……. کھول آنکھیں۔ ………….. مُنہ کھول۔لے دودھ پی لے ‘‘ مگرشاہدنے نہ دودھ پیناتھانہ پیا … اُس کی روح توقفس عنصری سے کب کی پروازکرچکی تھی اورپروین اُسی ہذیانی حالت میں اپنی دودھ بھری چھاتیاں ہاتھ میں لیکررہ گئی بالکل اکیلی…… تن تنہا ۔ اُسے محسوس ہونے لگا کہ چاروں طرف سے تنہائی کے آسیب خوفناک چہرے لئے اپنے نوکیلے پنجے گاڑنے کے لئے اُس کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ وہ اکیلی ہے ،باکل اکیلی ، اُس کے پاس کوئی بھی نہیں ہے ۔شاہدبھی نہیں ۔ وہ خوددُورجاچکااوراُسے اُسی ویران اورتنہائی کی شاہراہ پر ڈال گیاہے جس کوختم کرنے کے لئے وہ چارسال قبل ایک اجنبی کے ساتھ نکل پڑی تھی جس نے شاہدکی صورت میں اُسے کھلونادے کرکہیں اورکی راہ لی تھی ۔ میں تنہاجی نہیں سکتی تمہیں معلوم تھابیٹے میری عادت بدلنے تک تومیراساتھ دے دیتا۔
رابطہ؛موبائل نمبر ۔8825051001