میں اُستاد کیوں نہ بنوں؟

میر حسین
     کیا آپ جانتے ہیں کہ دنیا کا مسرت ترین ملک finland ہے؟ جی ہاں رقبہ اور آبادی کے لحاظ سے یہ ملک چھوٹا ضرور ہے لیکن یہاں کے لوگ دنیا کے دوسرے ممالک کی بنسبت بہت خوش اور مطمئن ہے۔ finland دنیا کے ممالک میں وہ ملک ہے جہاں استاد کہ پیشہ کو دوسرے ترقی یافتہ ممالک کے برعکس بہت زیادہ عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اس ملک کی خوشحالی کے پس منظر میں تعلیم کا اہم کردار ہے۔ یہاں کے عوام کو یقین ہے کہ تعمیر و ترقی کا اصل راز تعلیم و تربیت میں منحصر ہے اور صحیح تعلیم و تربیت کے پیچھے بہترین اور تجربہ کار اساتذہ کا کردار نمایاں ہوتا ہے۔ دیگر مختلف ترقی یافتہ ممالک جیسے چین، جنوبی کوریا وغیرہ میں بھی معلمی کے پیشے کو عزت اور وقار کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ لیکن بہت سارے ملکوں میں اس پیشے کو حقارت کی نظر سے دیکھکر معلم کو مجبور اور حقیر جانا جاتا ہے۔ اقوام عالم میں جو قوم استاد جیسے عظیم المرتبت کام کرنے اور عہدہ کو سنبھالنے والے کو کمتر سمجھے وہ قوم کچل کر مسل دی جاتی ہے۔ وہ قوم ترقی کے منازل طے کرنے میں نہ صرف ناکام رہتی ہے بلکہ تنزلی کا شکار ہو کر ابدی رسوائی کو دعوت دیتی ہے۔

       اسلام کی نگاہ میں معلّمی اور معلم کو عظیم اور اعلی پیشہ اور ذمہ داری کے بہ طور پیش کیا گیا ہے۔ سورہ جمعہ کی دوسری آیت میں واضح اعلان کیا گیا ہے کہ استاد کا پیشہ پیغمبری کا پیشہ ہے۔ جسطرح رسول اللہؐ کو لوگوں کے نفوس کو پاکیزہ بنانے اور حکمت کی تعلیم دینے کے لیے مبعوث کیا گیا ہے ،اُسی طرح استاد کے کام کو مشخص کیا گیا ہے۔ معلم کو تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کے پہلو کو شاگردوں کے اندر اُجاگر کرنے کی ذمہ داری ہے۔ معلمین جہاں متوجہ ہوں کہ اُن کا کام نہ صرف عظیم ہے بلکہ سنگین بھی ہے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے ہاتھوں طلبہ و طالبات نہیں بلکہ ایک نسل پروان چڑھ رہی ہے۔ اُن کی غلطی نسلوں کی بربادی کا ضامن بن سکتی ہے۔ اُستاد جہاں ایک طرف تعلیم و تربیت سے ہزاروں انسانوں، قوموں اور بستیوں میں نور کے پھیلاؤ کا باعث بن سکتا ہے وہی اپنے غلط اور غیر اخلاقی تدریسی عمل سے ہزارہا انسانوں اور بستیوں کے اُجڑنے کی علت بھی ثابت ہوسکتا ہے۔

لہٰذا عزیز دوستو! اس میدان کے چناؤ سے پہلے خوب سوچ بچار کرو۔ پہلے اپنے ذہن کو تیار کرو، اپنے وجود کو قربانی کا ذائقہ چکھا دو، خود میں ڈوب کر خودی کا معترف ہو جاؤ، خود کے نفس کی تزکیہ کرو کیونکہ اس عظیم کام میں آپ کی تعلیم سے زیادہ آپ کی تربیت اور کردار کا اثر بچوں میں منتقل ہو جاتا ہے۔ اس عظیم میدان کو چننے سے پہلے ایک بار ضرور سوچو کہ آپ  ایک قوم کو تعمیر کرنے جا رہے ہیں۔ آپ کوئی بھی مضمون کیوں نہ پڑھاتے ہوں لیکن آپ صرف اپنے مضمون سے منسلک نہیں رہ سکتے۔ آپ کوہر فن مولا ہونا چاہیے کیونکہ آپ نے قوم کے لئے مستقبل تعمیر کرنا ہوتا ہے۔

معلمی کا پیشہ پوری دنیا کی نظر میں مقدس اور عظیم ہے۔ اسلام استاد کی عظمت کو بارہا بیان کر رہا ہے۔ موجودہ دور میں اس پیشے سے وابستہ افراد کی کوئی کمی نہیں ہے۔ سرکاری ہو یا غیر سرکاری ہر سطح پر اساتذہ کی بھرمار ہے۔ پھر بھی عملی میدان میں سماج آئے روز اخلاقی، سیاسی، اقتصادی اور مذہبی لحاظ سے پستی کا شکار ہو رہا ہے۔ درس و تدریس کے عمل میں آجکل کوئی بھی قوم پیچھے نہیں ہے لیکن باوجود اسکے ہر قوم روزافزوں اقدارِ انسانیت کے لحاظ سے بدترین ہوتی جارہی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ قوم کے معمار تعمیری نہیں تخریبی کام میں اپنا کردار نبھا رہے ہیں۔جہاں معیار ِدرس و تدریس گراوٹ کا شکار ہے وہیں غیر معیاری معلمین کی بہتات نے نظامِ تعلیم کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا ہے۔ دور قدیم میں اساتذہ کی تعداد بہت کم ہوا کرتی تھی لیکن ان کا درسی معیار اُن کے خلوص پر مبنی تھا، اس لئے نتیجہ بھی خالص علم کی شکل میں برآمد ہوتا تھا۔ انہوں نے معلمی کو مقدس، نازک اور الہٰی ذمہ داری کو سمجھا تھا، اس لیے ان کے شاگردوں میں پاکیزگی، سلیقہ اور ذمہ داری کا احساس کوٹ کوٹ کر بھراہوتا تھا۔ انہوں نے اس عظیم پیشہ کو نوکری نہیں بلکہ زندگی سمجھا تھا اسلئے ان کے طالب حیات جاویدانی پاتے تھے۔ انہوں نے خود کو اُستاد کم اور طالب علم زیادہ سمجھا تھا، اسلئے اُنکے شاگرد منکسرالمزاج اور نرم دل ہوا کرتے تھے۔ وہ معلمی سے حاصل ہونے والی قلیل کمائی کو رحمتِ الہٰی اور حلال سمجھتے تھے، اس لئے اُن کے شاگرد حلال و حرام میں امتیاز کر پا رہے تھے۔

برعکس اس کے آج کے دور کے اساتذہ میں اکثر اوپر بیان کئے گئے شعاعوں میں کوئی خاطر خواہ نور کی کرن نظر نہیں آ رہی ہے۔ انقلاب اور جذبہ نو سے عاری دلوں کے مالک موجودہ دور کے اساتذہ نے اہداف تعلیم و علم کو کھو دیا، جس کا خمیازہ آئندہ دور کی پرستار موجودہ نسل کے شاگردوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ آپ اکثر طالب علموں سے سنو گے کہ آج کے معلمین اپنی پرواہ زیادہ جبکہ طلباء کی مستقبل کی پرواہ بہت کم کرتے ہیں جو قدیم معمار قوم میں قطعی نظر نہیں آتا تھا۔

       اپنے معیار زندگی کو بڑھانے کے چکر میں آج کے اساتذہ نے علم کو بیچ دیا ہے۔ انہوں نے نور تعلیم کو خرید و فروخت کی صورت میں تبدیل کیا ہے۔ اسلئے ہم دیکھتے ہیں کہ عصر حاضر کے بچوں میں  نہ صرف استاد کی قربت اور ہمدردی میں خاطر خواہ کمی آئی ہے بلکہ آج کل کے شاگرد اُستاد کے اعتماد، خلوص نیت اور دیگر چیزوں کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ایسا اس لیے بھی ہوا کیونکہ معلمی اب ہر بے بس اور بے روزگار کی آخری اُمید ثابت ہورہی ہے۔ عصر حاضر کے تعلیمی اداروں میں درس و تدریس کے اقداراعلیٰ معیار میں نمایاں کمی نظر آرہی ہے کیونکہ تعلیم کے نور کو نوکری جیسے پست ہدف کے لئے قربان کر دیا گیا۔

 معلمی جیسے پیغمبرانہ پیشہ میں آنے سے پہلے خود کو سنوارنا بہت اہم ہے۔ خدا کے لئے اس میدان کو دل سے اختیار کرو ورنہ نہ کرو۔ معمولی تنخواہ اور وقت کی ضیاع کیلئے اس عظیم اور مقدس کام کو بد نام نہ کرو۔ پہلے اپنے نفس اور ضمیر کو بیدار کرو اور اسے سمجھاؤ کہ یہ ذمہ داری ہے نوکری نہیں، یہ ہدف ہے ذریعہ نہیں، یہ تعمیر ہے تخریب نہیں، یہ انسان سازی ہے انسان شکن نہیں، یہ اقدار الہٰی کی پاسبان ہے لوٹ مار نہیں، یہ امانت الٰہی ہے خیانت نہیں، یہ قوم کے مستقبل کو بنانا ہے بگاڑنا نہیں۔حیران کر دینے والی بات یہ ہے کہ جب اساتذہ اسکولوں میں بچوں سے ان کے مقصد کے بارے میں پوچھتے ہیں تو بچوں کا ردعمل اکثر ڈاکٹر، انجینئر یا دیگر شعبوں کے متعلق زیادہ جبکہ معلم بننے کا اشتیاق بہت کم نظر آتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ کہیں معمار قوم تعلیم کے ساتھ ساتھ بچوں کو اس پیشے کی نفرت کا جام تو نہیں پلاتا؟ کہیں استحصال کا شکار یہ استاد شاگردوں کو غیر شعوری طور پر اس بات کی تلقین تو نہیں کرتا کہ استاد بننے سے زندگی نہیں بنتی کیونکہ اس میں تنخواہ کی بہت کمی ہے؟ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بچے خود معلمیت کا حال دیکھ کر خون کے آنسو رونے پر مجبور ہوتے ہوں۔ مجبور نگاہ سے دیکھے جانے والے لاچار اساتذہ کے پیشے کو شاگرد اس لیے پسند نہیں کرتے!

☆ کیونکہ وہ اپنے سامنے مقدس پیشے کو خوشنما اساتذہ کے ہاتھوں مسمار ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ وہ محسوس کرتے ہیں کہ اب اس پیشہ کی نیت میں خلوص کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ معلمی تجارت پیشہ اور ذہن والے افراد کے ہاتھوں میں تجارت بنکے رہ گیا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اس میدان میں قربانیاں دے کر امیدوں کی دنیا سے مبرا رہنا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ استاد کا پیشہ مظلوم ترین پیشہ میں تبدیل کیا گیا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ انسانیت کے بیچ بونا اب معلمین کے بس کی بات نہیں۔  ضرورت اس بات کی ہے کہ استاد کے پیشے کے معیار کو دوبارہ بحال کیا جائے۔ ہر سطح پر صحیح افراد کی ضرورت ہے ورنہ وہ دن دور نہیں جب معلمینِ جہاں کے ہاتھوں جہاں ویران ہو جائے گا اور ہم خاموش تماشائی بننے کے علاوہ کچھ کر بھی نہیں سکتے ۔ہر قوم و ملت کو سمجھنا چاہیے کہ تعلیم اور معلم ہی قوم کو عروج کی راہیں دکھا سکتا ہے ۔ہر سطح پر تعلیمی معیار کے ساتھ ساتھ اساتذہ کے معیار کو بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔

[email protected]