میوہ صنعت کا بچائو زبانی جمع خرچ سے کچھ نہیں ہوگا

پہلے مسلسل ژالہ بار ی ،بارشوں اور اس کے بعد اب مسلسل خشک سالی کی وجہ سے کشمیر کی میوہ صنعت اس سال بھی شدید خسارے سے دوچار ہے کیونکہ جہاں ژالہ باری اور بارشوںسے 30فیصد میوہ پہلے ہی تباہ ہوگیا تھا وہیں اب درختوںپر موجود 50سے60مال نہ صرف سائز میں چھوٹا ہے بلکہ اس کی رنگت بھی خشک سالی کی وجہ سے متاثرہوچکی ہے ۔اس با ر یہ تو اچھا ہوا تھا کہ چیف سیکریٹری سے میوہ بردار ٹرکوں کو قومی شاہراہ پر ترجیحی بنیادوںپر نکالنے کی ہدایت دی تھی جس پر عمل بھی ہورہا ہے اور میوہ ٹریفک بلا خلل چل رہاہے تاہم جب باغات میں ہی میوہ کو اتنا زیادہ نقصان ہوا ہو تو پھر شاہراہ کی ہمہ وقت بحالی سے میوہ کسانوںکو کچھ زیادہ فائدہ ملنے والا نہیں ہے ۔یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ وزیراعظم فصل بیمہ یوجنا سکیم ہونے کے باوجود کشمیر کے میوہ باغات ابھی تک اس سکیم کے دائرے میں نہیں لائے جاچکے ہیں جبکہ جموں کے باسمتی چاول کے علاقے اس سکیم سے مستفید ہورہے ہیں۔محکمہ کی اس منطق پر رونے کو جی کررہا ہے کہ پہلے فصل بیمہ یوجنا کے دائرے میں محکمہ زراعت کو لایا جارہا ہے اور اس کے بعد محکمہ باغبانی اور دیگر شعبوں کو اس میں لایا جائے گا۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہاں اب بھی زرعی سیکٹر بڑا ہے یا باغبانی سیکٹر ۔حکام کو یہ معلوم ہونا چاہئے تھا کہ باغبانی سیکٹر سے وابستہ کسان مسلسل پچھلے کئی برسوںسے نقصانات اٹھا رہے ہیں اور اب انکی کمر ٹوٹ چکی ہے ۔حالت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اب میوہ کسان اپنی باغاتی اراضی اونے پونے داموں بیچ رہے ہیں تاکہ قرضوں کی بھرپائی کرسکیں جو انہوںنے ان میوہ باغات کے عوض اٹھائے تھے ۔عملی طور پر میوہ کسان اب ڈپریشن اور دیگر ذہنی و قلبی امراض کا شکار ہوچکے ہیں کیونکہ اب انہیں اچھے دن دیکھے کئے برس ہوچکے ہیں۔بلکہ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ کسانوںکو خود کشی کی نوبت آن پہنچی ہے کیونکہ وہ انہیں اس چکر سے نکلنے کی کوئی راہ نظر ہی نہیں آرہی ہے ۔آگاہ اور بیداری کیمپوں کا انعقاد کرکے اپنی ذمہ داریوں سے پلو جھاڑنا آسان ہے لیکن اپنی منصبی ذمہ داریوںسے عہدہ برآ ہونا مشکل کام ہے ۔ظاہر ہے کہ محکمہ باغبانی صرف کسانوں کی آگاہی کیلئے ہی نہیں بنا ہے بلکہ اس محکمہ کا کام میوہ کسانوں کے مفادات کا تحفظ بھی یقینی بنانا ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ محکمہ اس میں مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے ۔نہ محکمہ اپنے میوہ کسان بھائیوںکو فصل بیمہ سکیم کے دائرے میں تاحال لاسکا ہے اور نہ ہی ان کے نقصانات کی بھرپائی آج تک کرسکا ہے ۔ایک زمانہ تھا جب راحت کاری کے ایک اقدام کے طور باغبانوںکا سی گریڈ میوہ خریدنے کیلئے مارکیٹ انٹر ونشن سکیم متعارف کرائی گئی تھی اور کسانوںکا سی گریڈ میوہ خریدا گیاتھاتاہم اب دو تین برسوں سے یہ سکیم بھی ختم کی گئی ہے ۔ تیسرے در جے کامال سرکار خرید کر نہ صرف اس کو بیرون ریاستوں میں جوس فیکٹروں کیلئے بھیج سکتی تھی بلکہ اس سے کسانوں کے نقصان کی بھرپائی بھی ہو سکتی تھی لیکن ایسا نہیں ہو رہا ہے ۔ گوکہ ہماچل میں یہ سکیم چل رہی ہے لیکن یہاں اس کے برعکس ہورہا ہے اور اب میوہ باغات مالکان کو اپنا سی گریڈ میوہ ندی نالوںکے کناروں،باغات ،سڑک کے کناروں اور بنجر زمینوں میں پھینکنا پڑرہاہے جو بیشتر اوقات پھر اُس علاقہ میںعفونت کا باعث بھی بن جاتا ہے حالانکہ اس میوہ کو سرکار جوس بنانے کیلئے استعمال کرسکتی تھی۔یہ معاندانہ رویہ قطعی کشمیر کی میوہ صنعت کیلئے اچھا نہیں ہے بلکہ اس کے تباہ کن نتائج نکل سکتے ہیں۔حکومت کو چاہئے کہ وہ زبانی جمع خرچ سے کام لینے کی بجائے کشمیر کی میوہ صنعت کو بچانے کیلئے عملی اقدامات کرے ۔ امریکی میوہ کے 50کنٹینر یومیہ دسمبر سے ملک کے ساحلوںپر آنے والے ہیں ،اُس صورتحال میں کشمیر کے میوہ کا کیا حال ہوگا،سمجھ سے بالاتر نہیںہے ۔مسابقت کی اس دوڑ میں اگر کشمیر کی میوہ صنعت بچانی ہے تو عملی اور ٹھوس اقدامات کرناہونگے جس کیلئے نہ صرف ہنگامی بنیادوںپر بیمہ پالیسی کے دائرے میں سبھی میوہ باغات کو لانا ہوگا بلکہ مارکیٹ انٹر ونشن سکیم بھی فوری طور بحال کرنا ہوگی ۔اس کے علاوہ میوہ صنعت کو باضابطہ صنعت کا درجہ دیکر اس کیلئے صنعتی مراعات بھی دینا ہونگے تاکہ کشمیر کے میوہ کی شان ِ رفتہ بحال ہوسکے ورنہ وہ دور نہیںجب میوہ باغات پر آریاں چلیں گی اور لوگ میوہ صنعت کو ہی خیر باد کہیں گے جو کوئی اچھا شگون قرار نہیںدیاجاسکتاہے۔