ماہ جیٹھ سے قبل ہی سورج کی تپش سے بچنے کی خاطر سارے مینڈک زیر زمین چلے جاتے ہیں اور وہاں اپنا عارضی مسکن بنالیتے ہیں ۔ جب مانسون کی پہلی بارش ہوتی ہے سارے مینڈک زیر زمین سے نکل پڑتے ہیں۔مانسون کی آمد کی خوشی میں تال ،تلیا ، تالاب میں اچھلتے کودتے ٹرٹر اتے پھرتے ہیں۔مینڈک کا ساتھ جھینگر خوب نبھاتا ہے۔ ان دونوں کی صدائیں ایک ساتھ مل کر ناگوار آوازیں فضاؤں میں گونجتی رہتی ہیں جو سمع خراشی کا سبب ہی نہیں بنتی ہیں بلکہ جب تک صبح نہ ہوجائے ناگوار ی کے احساس تلے رات جاگتی آنکھوں سے بسر کرنا پڑتی ہے لیکن مینڈک اور جھینگر ہماری الجھن اور طبعیت کے تکدر سے بے نیاز بے ہنگم ہنگامہ برپا کررہے ہوتے ہیں۔ بھلے ہی ہماری رات کی نیند غارت ہوجائے ساری رات ہم بستر پر کروٹیں بدلتے ہوئے اس مخلوق کے خلق کرنے کے فوائد اور نقصانات کا تجزیہ کرتے ہوئے ساری رات گزار دیں۔
اگر آپ کا تعلق گاؤں سے ہے تو آپ نے زندگی میں ایک آدھ رات ایسی ضرور گزاری ہوگی؟ سوئے اتفاق گھر کے سامنے تال تلیا ، پوکھر ، نہر موجود ہے تو پھر آپ کو ایسی بیزار کن رات کا سامنا ہر سال کرنا پڑا ہوگا۔اتفاق سے میرا گھر تالاب کنارے ہے اور میں ان گنت ایسی راتیں گزارچکی ہوں۔
میں نے یہ تمہید اس تناظر میں باندھی کہ ان دنوں ہماری میڈیا میں 'ٹرٹر'کی صداؤں کا شورو غوغا ہے۔سیاسی بساط پر برساتی مینڈک زیر زمین سے نکل پڑے ہیں چونکہ عوام کی آنکھوں سے ہونے والی موسلادھار بارش نے مینڈک کو زیر زمین سے نکلنے پر مجبور کردیا ہے تو یہ وجد میں آکر خوشیاں منارہے ہیں۔یہ خوشیاں ہماری سیاست کی نظام کا ایک حصہ بن کر رہ گئی ہیں !آپ بخوبی سمجھ گئے ہوں گے میں کس کی بات کررہی ہوں!؟۔
جی ہاں! ٹی وی چینل پر ہونے والے مباحثے کی روایت نے ہماری سیاست کے رویے کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ وہاں اہم موضوع یعنی کہ عوام کے مفاد سے قطع نظر کر تے ہوئے لایعنی بے مقصد موضوعات پر مباحثے کروائے جاتے ہیں !یوں تو اس سلسلے کی ابتدا پچھلے دس بارہ برسوںسے شروع ہوئی ہے لیکن پچھلے سات سال سے جو سلسلہ نہایت کروفر سے شروع کیا گیا تھا، ابھی وہ عروج کے مداراج طے کررہاہےجس کی ایک مثال یہ کہ سوشانت سنگھ کی موت خود کشی نہیں قتل ہے ۔ میرے خیال سے یہ ایک مثال کافی ہوگی ! ناظرین کے درمیان میں منفی فکر، دقیانوسی خیالات تقسیم کیے جارہے ہیں۔ کبھی پھٹی جینس کے متعلق مباحثہ کروایا جاتا ہے تو کبھی گوبر تھراپی اور گئو متر پر ۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم جدید دور میں نہیں قدیم بھارت کی روایات میں کھو کر رہ گئے ہیں یا پھر حکومت نواز میڈیا دانستہ اور منظم طور پر ایسا نہیں کررہی تو پھر یوگ گرو بابا رام دیو " ڈاکٹر ٹر ٹر "کا مذاق اڑاتے ہوئے پراچین بھارت میں پائے جانے والے کنویں کے مینڈک کی مانند نہیں ٹرٹرارہے ہوتے؟؟ ڈاکٹر کا مذاق اڑاتے ہوئے خود مذاق نہیں بن گئے ؟۔
یہ غور طلب بات ہے کہ بابا رام دیو صرف ہندستانی ڈاکٹرز کا نہیں بلکہ پوری دنیا کے ایلوپیتھ ڈاکٹروں کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ یوگ گرو تو چلے تھے اپنے یوگ سے تمام امراض کا علاج کرنے ،پھر کیا وجہ رہی کہ انھوں نے آیورویدک کا سہارا لیا؟
محض چند برسوں میں اربوں کھربوں کی املاک کے مالک بن بیٹھے ! کسی بھی نئی چیز کی دریافت یا ایجاد کے بعد پہلے پہل صرف افادیت پر نظر مرکوز رہتی ہے، بعد استعمال ہی مفید اور مضر اثرات و نتائج بر آمد ہوتے ہیں۔ویسے ہی بابا رام دیو کے پروڈکٹ" پتنجلی"کے ساتھ بھی ہوا ۔2018ء/2019ء آتے آتے 'پتنجلی'کے غبارے کی ہوا نکلنا شروع ہوئی تو بابا رام دیو وید سے تاجر کی شکل میں نمودار ہوئے کورونا کی اس دوسری لہر میں بقول وزیر اعظم' اپدا میں اوسر '(مصیبت کی گھڑی میں مواقع ) تلاش کرنے لگے اور "کرولین" لے کر اپنے بھگتوں کے سامنے پرکٹ (نمودار) ہوئے۔جب بھگتوں نے' کرولین'سے زیادہ اعتبار ڈاکٹروں پر کیا،تب بابا رام دیو نے ایلوپیتھ ڈاکٹروں کا مذاق اڑانا شروع کیا اور منصوبے بند طریقے سے اپنا تیار شدہ لائحہ عمل عوام کے سامنے پیش کرنا چاہا، ایلوپیتھ علاج سائنسی تحقیقات کو' بکواس'ٹھہرانے لگے ۔ظاہر سی بات ہے جب کوئی صرف عقیدے کی بنیاد پر منطقی دلائل سے پرے باوقار ادارے اور ان اداروں کے ذمے داران کا اس طرح مذاق اڑانے لگے! اور ڈاکٹروں کو مینڈک اور ان کی کارکردگی کو 'ٹرٹر'سمجھ کر تحقیر پر آمادہ ہو تو پھر ان اداروں کا برا فروختہ ہونا لازم ہے لہٰذا انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن نے نہایت زور شور سے مخالفت کرنا شروع کی ، یہ نہایت عمدہ عمل تھا !چونکہ بابا رام دیو کے سر پر حکومت اور تمام سیاسی پارٹیوں کا ہاتھ ہے لہٰذا وہ یہ کہتے نظر آئے کہ'مجھے کسی کا باپ گرفتار نہیں کرسکتا !' ۔
خود اعتمادی سے لبریز چیلنج آئی ایم اے کو ایک طرح سے للکارنے جیسا عمل تھا لہٰذا 'ایم آئی اے 'بابا رام دیو کے مصلحت آمیز معافی سے مطمئن ہوتی نظر نہیں آئی اور اس نے بابا رام دیو کے خلاف ایف آئی آر درج کرڈالی۔تب وہ یہ دلائل پیش کرتے ہوئے نظر آئے کہ ایلو پیتھ علاج گر کافی اور شافی ہے تو پھر 1200ڈاکٹر کیوں وفات پاگئے؟۔یہی سوال گر ڈاکٹر بابا رام دیو سے کریں تو آپ کے دو معاون کیوں ہلاک ہوئے ؟ انھیں کرولین کی خوراک کیوں نہیں کھلائی ؟ آپ کے پاس کیا جواب ہے ؟۔
یاد آتا ہے مجھے پچھلے سال اندھے عقیدے کی تقلید نے اس سال دوسری لہر کا خوفناک چہرہ دیکھا۔وزیر اعظم نے تھالی اور تالی بجوائی "گو کوروناگو" اپنی نوعیت کا منفرد منتر کا جاپ کروایالیکن نتیجہ کیا ہوا ؟اگر مستقل مزاجی کے ساتھ سب کو اعتماد میں لے کر کورونا سے لڑنے کا سائنسی طریقہ کار پر عمل درآمد کیا جاتا تو گنگا میں لاش نہیں تیر رہی ہوتی۔جب تھالی ، تالی بجانے سے کو رونا چلا گیا تھا اور آپ نے کورونا کو ہرائے جانے کا اعلان بھی کردیا تھا تو پھر ہندستان( نیویارک ٹائمز کے مطابق حکومت کے ذریعے بتائے گئے اعداد و شمار سے دس گناہ زیادہ اموات ہوئی ہیں)میں چار لاکھ نفوس زندگی کی بازی نہیں ہارتے اور پھر با با رام دیو اور ان جیسے بد عقائد نے "گئو متر پینے "اور "گوبر تھراپی " جیسے علاج تجویز کرڈالی! عقیدت مندوں نے یہ علاج بھی آزمایا اپنے گرو کے آدیش کا پالن(حکم کی تعمیل) کرتے ہوئے ۔وہ سب کورونا سے ٹھیک ہوگئے؟ نہیں صاحب گر ٹھیک ہوتے تو پھر گئو متر ، گائے کا گوبر پٹرول اور گیس سلینڈرسے زیادہ قیمت میں فروخت ہونے لگتا۔
'چندرما' منگل گرہ پر گھر بسانے کے ادھونک یگ(چاند اور مریخ پر گھر بسانے کے جدید عہد) میں جب اس طرح کی فکر پائی جائے لگے تو پھر خود کو ترقی یافتہ ہم کس زباں سے کہہ سکتے ہیں؟
ایک منتری جی نے کہہ دیا کہ گنگا میں اشنان کرنے سے کووڈ 19 نشٹ ہوجاتا ہے! اور منتری جی تو بھارت جیسے ملک میںجہاں پڑھے لکھے افرادبھی بد اعتقاد کو دھرم سمجھتے ہیں اس ملک میں عام جنتا آپ کو آدرش ہی نہیں بھگوان سمان کا درجہ دیتی رہی ہے۔ منتری جی! آپ کو یہ خیال نہیں گزرا کہ ہماری بد اعتقاد جنتا (عوام) قول و فعل پر آمنا صدقنا ایمان لے آئے گی! لہٰذا منتری جی کے اس جملے کو سچ مان کر ہزاروں جنتا نے گنگا میں ڈبکی لگائی اور کووڈ 19سے متاثر ہوئے ان میں سینکڑوں لوگ اپنی جان گنوابیٹھے! ہمارے وزراء عوام کی جان و مال کے رکھوالے ہوتے ہیں ناں؟۔
یہ کام تو ایک مسخرے کا ہے ، جو اپنے مسخرے سنا کر لوگوں کو محظوظ کرتا ہے لیکن کسی کی جان نہیں لیتا۔اور ہمارے وزراء اپنے غیر ذمے دار بیان اور نامناسب تدارک کے سبب عوام کی جان لینے کے قصوروار پائے جاتے ہیں لیکن افسوس اس امر کا کہ باوجود اس کے ان کا 'چرتر' سفید کرتا کی مانند دھویا دھولایا نظر آتا ہے !
غورو فکر کا مقام ہے کہ ہماری جمہوریت کا بنیادی ڈھانچہ کب ،کیسے اور کن ہاتھوں مسمار ہوا ؟کہ ہمیں خبر نہیں ہو ئی؟یا پھر ہمارا جمہوری نظام ہی ایسا کہ (ستا کا سکھ بھوگ) برسر اقتدار پارٹی اقتدار کا مزا لوٹ رہی ہوتی ہے ان کے راہنما خواہ جس نوعیت کے جرائم کے مرتکب ہوں ہزاروں لاکھوں عوام کی زندگی ہمارے راہنماؤں کے نامناسب رویہ غلط فیصلوں اور ان کی دانستہ نادانستہ غفلت کی وجہ سے ضائع ہوتی رہے لیکن ان سے باز پرس تو کجا سوال تک قائم نہیں کیا جاتا،ان پر کوئی حد قائم نہیں ہوتی،کسی قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔اگر شاذو نادر ہوا بھی تو اس وقت جب وہ برسر اقتدار نہیں رہے جس کی مثال لالو پرساد یادو اعظم خاں ،شہاب الدین وغیرہ وغیرہ ہیں۔ہے نا عجیب نظام؟؟
(ای میل۔