میرے خوابوں کا ہندوستان افکارِ باپو

موہن داس کرم چند گاندھی 
 یہ مضمون گاندھی جی کی تصنیف ’’انڈیا آف مائی ڈریمز‘‘(راج پال اینڈ سنز )سے ماخوذ ہے۔ آج گاندھی جینتی ہے۔ انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے اس سے بہتر اور کیا ہو سکتا ہے کہ ہم یہ جانیں کہ گاندھی جی کیسے ہندوستان کا خواب دیکھتے تھے۔ اور یہ بھی سوچیں کہ کیا  آج کا ہندوستان واقعی گاندھی جی کے خوابوں کاہندوستان ہے؟ گاندھی جی کے اس یادگار اور اہم اہم مضمون(انڈیا آف مائی ڈریمز) کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے۔(ترجمہ : سید کاشف)
ہندوستان کی ایک ایک شے مجھے دلکش لگتی ہے۔اس کے پاس وہ سب کچھ ہے جس کی جستجو ایک بلند نظر انسان کو ہوتی ہے۔ ہندوستان موج مستی کا سرائے نہیں، خدمت کی سر زمین ہے۔
ہندوستان اس کرہ ارض کے ان چند ممالک میں سے ایک ہے جنہوں نے اپنی قدیم روایات کو زندہ رکھا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان  (روایات)کے ساتھ ساتھ چند برائیاں اور توہم پرستی بھی چلتی آئی ہیں۔ لیکن اچھی بات یہ ہے کہ ہندوستان ان برائیوں سے خود کو پاک رکھنے میں  ہمیشہ کامیاب رہا ہے۔
میں یہ مانتا ہوں کہ ہندوستان کا جو مشن ہے وہ دسرے ممالک سے با لکل مختلف ہے۔پوری دنیا میں ہندوستان کو مذہب کے حوالے سے ایک طرح کی بالا دستی حاصل ہے۔ جس درجہ کی روحانیت ہندوستان کی مٹی میں پیوست ہے، اس لحاظ سے پوری دنیا میں اس کا کوئی ثانی نہیں۔ ہندوستان نے نا مساعد حالات کا مقابلہ فولادی ہتھیاروں سے نہیں بلکہ خدا دادصلاحیتوں سے کیا ہے، اور آج بھی وہ ایسا کر سکتا ہے۔
 دوسرے ممالک نے ظالموں اور جابروں کا ساتھ دیا ہے۔ یورپ میں جاری خوفناک جنگ اس حقیقت کو بیان کرنے کے لئے کافی ہے۔ ہندوستان اپنی خدا داد صلاحیت سے ہر مشکل کا حل ڈھونڈ سکتا ہے۔تاریخ میں ایسی ڈھیروں مثالیں موجود ہیں جب بڑا سے بڑا ظالم بھی روحانی قوت کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوا ہے۔ شاعروں نے ان کہانیوں کو اپنے اشعار میں سمیٹا ہے۔ قصہ گو نے بھی ان واقعات کو خوب بیان کیا ہے۔
اگر ہندوستان بھی ہتھیار بند ہو جاتا ہے تو ظاہر ہے اسے بھی فتح حاصل ہوگی۔ مگر یہ یاد رہے کہ یہ فتح عارضی ہوگی۔ اگر ہندوستان ایسا کر تا ہے تو یہ میرے دل سے اتر جائے گا۔ میں ہندوستان کا علم بردار ہوں۔ میرا سب کچھ اسی کا ہے۔
میرا کامل یقین ہے کہ ہندوستان  پوری دنیا کے لیے مشعل راہ بن کر ابھرے گا۔اسے یورپ کی اندھی تقلید نہیں کرنی ہے۔ اگر ہندوستان تشدد کے نظریہ کو قبول کر لیتا ہے، تو یہ میرے لئے آزمائش کی گھڑی ہوگی۔ میرا مذہب کسی جغرا فیائی حدود کا محتاج نہیں ہے۔ اگرمیرا یہ یقین مستحکم ہے، تویہی یقین ہندوستان سے میری محبت کو دو بالا کردیگا۔ میری پوری زندگی ہندوستان کی خدمت (عدم تشدد کے مذہب ذریعے)کے لئے وقف ہے۔جس دن ہندوستان تشدد میں یقین کا اعلان کردیگا، میں ہندوستان چھوڑدینے کو ترجیح دوں گا (اگر میں زندہ رہا )۔ تب ہندوستان پر مجھے کوئی فخر نہیں ہوگا۔ میری حب الوطنی میرے مذہب کی تابع ہے۔ میں ہندوستان کو اپنے گلے سے ایسے لگائے پھرتا ہوں جیسے ایک دودھ پیتا بچہ اپنی ماں کی چھاتی سے لپٹا رہتا ہے۔ مجھے ایسا لگتا ہے ہندوستان مجھے ایک روحانی خوراک عطا کرتا رہتا ہے۔ میری تمام آرزوؤں کا خواب ہندوستان کی آغوش میں ہی شرمندہ تعبیر ہوتا ہے۔ اس اعتقاد کی غیر موجودگی میں مجھے ایسا محسوس ہوگا کہ میں یتیم ہو گیا ہوں۔ میں یہ امید کھو بیٹھوں گا کہ مجھے پھر کبھی کوئی سرپرست نصیب ہو پائے گا۔
میری یہ خواہش ہے کہ ہندوستان خوب پھولے پھلے، اسے مکمل آزادی نصیب بھی ہو اور طاقت بھی حاصل کر پائے، تا کہ یہ پوری دنیا کے بہبود کے لئے اپنی خدمات انجام دے سکے۔ ہندوستان کی آزادی سے پوری دنیا  میں ایسا انقلاب پیدا ہو جس سے امن اور جنگ کے معنی    بدل  جائیں۔
مجھے اس بات کا اعتراف کرنے میںکوئی جھجک نہیں کہ مغرب میں ڈھیروں ایسی چیزیں ہیں، جنہیں ہم اپنا سکتے ہیں۔ ان میں ہمارا فائدہ ہے۔ تعلیم پر کسی بھی نسل یا کسی ایک بر اعظم کی اجارہ داری نہیں ہے۔ میں جب مغربی تہذیب کی مخالفت کرتا ہوں تو میرا اشارہ اندھی تقلید کی طرف ہوتا ہے۔ میں اس مفروضہ کا مخالف ہوں کہ ایشیا ئی اتنے پسماندہ ہیں کہ انہیں مغرب سے آئی ہوئی ہر چیز کی نقل کر لینے میں کو ئی مضائقہ نہیں ہو نا چا ہئے۔اس بات پر میراکامل یقین ہے کہ اگر ہندوستان گوں ناگوں مصائب کا سامنا اور اپنی تہذیب پر ہر طرح کی یلغار کا مقابلہ کرنے میں صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتا ہے، تویہ ایک دن پوری دنیا کے لئے ترقی (اصل معنوں میں) اور امن کے حوالے سے ضرورمشعل راہ بن کر ابھرے گا۔
ہندوستان کی قسمت مغرب کے جنگ و جدل میں نہیں ٹکی ہے۔ ہندوستان امن اور شانتی کا گہوارہ ہے۔ لیکن ہندوستان پر خطرہ ضرور منڈ لا  رہا ہے۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ اس کی روح مجروح ہو جا ئے۔ ایسا ہو نا بہت تکلیف دہ ہو گا۔ لہٰذا ہندوستان کو تھک ہار کر یہ ہر گز نہیں کہنا چاہئے کہ ’’میں مغرب کے حملوں سے نہیں بچ سکتا‘‘۔ اسے مزاحمت ضرور کرنی چاہئے—اپنے لئے بھی اور پوری دنیا کے لئے بھی۔
یورپ کی تہذیب وہاں کے باشندوں کوضرورراس آتی  ہوگی۔ لیکن اگر اسے ہندوستان میں نقل کرنے کے کوشش کی گئی تو یہ ہمارے لئے مہلک ثابت ہوگا۔ میں یہ ہر گز نہیں کہ رہا ہوں کہ یورپ کی اچھی چیزوں کوہمیں نہیں اپنانا چاہیے، اسی طرح جیسے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یو رپ کے باشندوں کو ان برائیوں کو نہیں ترک کرنا چاہئے جو ان میں سرایت کر گئی ہے۔ مادی آسائش کے پیچھے بھاگنا نقصان رساں ہے۔ یوروپین خود ایک دن اسے تسلیم کریں گے۔
یورپین جن آسائشوں کے غلام بن چکے ہیں ان کے بوجھ تلے دب کر تباہ نہیں ہو نا چاہتے، تو انہیں اپنی طرز زندگی میں لازماًتبدیلی لانی ہوگی۔ممکن ہے میں غلط ہوں، لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ ‘گولڈن فلیس’کے پیچھے بھاگنا ہندوستان کے لئے بہر صورت مہلک ہی ہوگا۔ یورپ کے ہی ایک فلاسفر کے قول کو اپنے سینے میں سمو لیجئے— ’سادہ زندگی اور اعلیٰ سوچ‘۔ آج یقینی طور پر کڑوروں لوگ اعلیٰ معیار کی زندگی نہیں جی پا رہے ہیں۔اور ہم جیسے کچھ لوگ جو عوام کی بہتری کے خواہاں ہونے کا دعوی کرتے ہیں، وہ بھی خطرہ مول لے رہے ہیں اور  بہتر معیار زندگی کے پیچھے بھاگ رہے ہیں، نتیجتاً بلندنگاہی کہیں پیچھے چھوٹ رہی ہے۔میں ایک ایسے آئین کے لئے تگ و دو کروں گا جو ہندوستان کو کسی بھی اجنبی کی سرپرستی اور غلامی سے نجات دلا پائے۔ ایک ایسا ہندوستان وجود میں آئے جہاں غریب سے غریب انسان بھی یہ سوچے کہ یہ ملک اس کا ہے اور یہاں اس کی آواز کو برابر کی اہمیت حاصل ہے۔ ایک ایسا ہندوستان جہاں اعلیٰ اور ادنی طبقے کا کوئی تصور ہی نہ ہو۔ ایسا ملک جہاں ہر مذہب کے لوگ امن اور بھائی چارہ کے ساتھ رہ سکیں۔ ایسا ہندوستان جہاں چھوا چھوت کی کوئی جگہ نہ ہو، جہاں نشہ کرنے کا کوئی تصور نہ ہو۔ خواتین کو مردوں کے برابر حقوق حاصل ہوں۔
چونکہ ہم دنیا کے تمام ملکوں کے ساتھ دوستانہ رشتہ قائم کریں گے اور نہ تو  ہم کسی کا استحصال کریں گے اور نہ خود کو استحصال کا شکار ہونے دیں گے، لہٰذا ہمارے پاس برائے نام ایک چھوٹی سی فوج ہوگی۔ہر وہ کام جو کڑوروں بے زبان انسانوں کے مفاد میں ہوگا، وہ کیا جائے گا، اور اس میں ملکی اور غیر ملکی کا فرق روا نہیں رکھا جائے گا۔نجی طور پر میں اس فرق (ملکی اورغیر ملکی) سے نفرت کرتا ہوں۔ یہی ہے میرے خوابوں کا ہندوستان۔ میں اس سے کم پر اکتفا نہیں کر سکتا۔(بشکریہ دی وائر اردو)
(مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)