میرا محسن

 ڈاکٹر ہارون محکمہ صحت میں بطور بلاک میڈیکل آفیسر (BMO)کام کر رہے ہیں۔ روز آفس جانا اور پھر FIELD VISIT کر کے اپنے بلاک کے مختلف دیہات میں جاکر وہاں طبی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانا ان کا معمول ہے-چونکہ وہ خود بھی اسی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں اسی لیے یہاں ہر جگہ لوگ اُنہیں پہچانتے ہیں اور اُن کی عزت افزائی کرتے ہیں- ملازمین کے ساتھ نرم رویہ ان کی ایک اچھی خوبی ہے مگر کام کے معاملے میں وہ کبھی سمجھوتہ نہیں کرتے۔
وہ ایک متوسط خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور ایک درمیانہ زندگی گزارتے ہیں۔
نہ ٹھاٹھ نہ بھاٹھ اورنہ افسری بلکہ ایک سرکاری نوکر کی طرح اپنے فرائض انجام دیتے ہیں اور اپنے سب ماتحت ڈاکٹروں اور نیم طبی عملے کو بھی اس بات کی تلقین کرتے رہتے ہیں-
ان کے دفتر میں عام لوگوں کا تانتا بندھا رہتا ہے- کسی کو صحت کارڈ بنانا ہو یا کسی کو ڈس ایبلٹی سرٹیفکیٹ کے لیے ان کی مہر لگانی ہو- کسی کو اولڈ ایج پنشن کے لیے ان کے دستخط چاہیں ہو یا کسی کو ڈرائیونگ لائسنس کے لئے فٹنس ٹیسٹ-وہ کبھی کسی کو مایوس نہیں کرتے  اور نہ ان کو کبھی غصہ آتا ہے-
آج دوپہر کا کھانا کھا کر وہ آفس میں اپنے ملازمین کے ساتھ تبادلہ خیال کر رہے تھے کہ ایک سفید داڑھی والے بزرگ نے دروازے پر آواز لگائی۔ 
"کیا میں اندر آ سکتا ہوں"
" آئے محترم آئے" بی ایم او صاحب نے مشفقانہ انداز میں جواب دیا-
اس بزرگ نے بی ایم او صاحب کو کچھ کاغذات دیئے جن پر انہیں دستخط کرنا مطلوب تھا۔ یہ کاغذات صحت سکیم کے متعلق تھے جس کے تحت سرکار ہر گھرانے کو ایک سال میں پانچ لاکھ روپے تک کی طبی امداد فراہم کرتی ہیں۔
بہرحال بی ایم او صاحب جونہی کاغذات پر دستخط کرنے لگے ان کی نظر اس بزرگ کے نام اور پتے پڑھی۔ حالانکہ شکل سے پہچان نہ سکے مگر نام پتے کو دیکھ کر بی ایم او صاحب پر ایک عجیب کیفیت طاری ہوئی۔
وہ یکایک کھڑے ہوئے اور اس بزرگ کو گلے  لگایا اور جذباتی ہوگئے- ملازم یہ منظر دیکھ کر دنگ رہ گئے۔بی ایم او صاحب نے اس بزرگ ،جس کا نام عبدالرحمن تھا اور جسے اب رحمان چاچا کہا جاتا تھا، کو کرسی پر بٹھایا اور اس سے خوب ساری باتیں کیں۔ اس کے بعد دونوں نے ملکر چائے نوش فرمائی اور گھنٹے بھر کے بعد اسے رخصت کیا۔ جب وہ نکلے تو بی ایم  او صاحب کی آنکھیں تر تھیں۔ وہ بزرگ دعائیں دیتا ہوا وہاں سے نکل پڑا۔
بی ام و صاحب کی یہ کیفیت دیکھ کر وہاں بیٹھے ان کے دوست ڈاکٹر رشید  نے ان سے اس بزرگ کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے کہا 
" رشید کیا بتاؤں اس انسان کے بارے میں یہ دراصل آج سے چالیس سال پہلے کی بات ہے جب میں محض 19 سال کا تھا۔ میں نے بارہویں کا امتحان میڈیکل میں پاس کیا تھا ۔
۔ہمارے گھر کی مالی حالت ابتر تھی۔
ہماری صرف آٹھ کنال زمین تھی اور اسی سے تھوڑا بہت گزارہ ہوتا تھا ۔ہم تین بھائیوں اور چار بہنوں کی پڑایی  کا خرچہ بمشکل نکل آتا تھا۔ والد صاحب دن رات کو ایک کرنے میں لگے تھے کہ ہماری بہتر پرورش کر سکیں۔
اسی دوران میں نے پولیس میں کانسٹیبل کی پوسٹ کے لئے سے فارم داخل کیا۔ کچھ ہفتے بعد میں نے فیزکل ٹیسٹ پاس کیا۔ حالانکہ ان دنوں ایک کانسٹیبل کی تنخواہ بہت کم ہوتی تھی۔ مہینے کے دو سو روپے مل جاتے تھے مگر میں والد صاحب کا ہاتھ بٹانا چاہتا تھا۔
مجھے پڑھائی جاری رکھنے کا بھی انتہائی شوق تھا مگر مرتا کیا نہ کرتا۔
اسی دوران کچھ مہینے گزرنے کے بعد میرا جوائننگ آرڈر آگیا اور تین دن کے بعد میں آئی جی آفس جوائن کرنے پہنچا۔ اس دن اپنے گھر سے آئی جی آفس جانے کے لیے ہم صبح سویرے گاؤں کی بس میں بیٹھ گئے ۔اک عجب اداسی میرے دل کو چیر رہی تھی۔ والد صاحب، جو میرے ساتھ تھے، بھی بہت مایوس تھے۔
وہ مجھے ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے۔ اسی لیے میں نے دسویں جماعت پاس کرنے کے بعد میڈیکل سبجیکٹس کا انتخاب کیا تھا مگر بارہویں جماعت میں اچھے نمبرات لینے کے باوجود بھی میں اپنی پڑھائی کو جاری نہیں رکھ سکتا تھا۔
وہ سارے ارمان آج ٹوٹ رہے تھے۔ وہ خواب و لولے وہ ارادے مجھ سے ایک ہی سوال کر رہے تھے
" کہاں جا رہے ہو"
بہرحال میں چاہتے ہوئے بھی اپنی پڑھائی کو جاری نہیں رکھ سکتا تھا- میڈکل اینٹرنس کی تیاری  کے لئے مجھے اچھی کوچنگ درکار تھی۔ بڑی بڑی قیمتی کتابیں خریدنے کے لیے میرے پاس کوئی ذرائع نہ تھے۔ میں ان سب خوابوں اور امیدوں کو ایک پرچھائی کی طرح بھلانا چاہتا تھا۔
انہی سوچوں  میں ہم آئی جی آفس پہنچ گئے۔ پہلے وہاں کلرکل سیکشن میں مجھے اپنی سرٹیفیکیٹس دکھانی مطلوب تھیں۔
میری سرٹیفکیٹس دیکھ کر وہاں بیٹھا کلرک برہم ہو گیا اور میرے والد صاحب سے تند انداز میں کہنے لگا 
"اتنے اچھے طالب علم سے پڑھائی چھڑوا کر گھر چلانا چاہتے ہو۔ افسوس تمہاری سوچ پر۔ ارے دو سو روپیہ مہینے کے لئے کیوں اس کا کیریئر………."
ابھی وہ کہہ ہی رہا تھا کہ میرے والد صاحب  پھوٹ  پھوٹ کر روپڑے۔ میں بھی اپنے جذبات پر قابو نہ کر پاسکا۔ میرے والد صاحب نے اس کلرک سے میری سرٹیفکیٹس چھین لیں اور واپسی کی ٹھان لی۔
ہم ابھی آفس سے باہر ہی نکل رہے تھے کہ وہ کلرک ہمارے پیچھے پیچھے آیا اور ہم ایک چائے کی دکان پر ٹھہر گئے۔
وہ میرے والد سے کہنے لگا۔
"جناب ہمارے آفس میں آپ کو یہ صلاح دینے پر میری ڈانٹ ڈپٹ بھی ہو سکتی ہے مگر میری بات مان لو اور کچھ بھی کر کے اس لڑکے کو پڑھائو۔ بھلا اس زمانے میں بارہویں  جماعت میں کس کو پچتھر فی صد نمبرات آتے ہے وہ اور بھی میڈیکل میں ۔یہ لڑکا ضرور ڈاکٹر بنے گا ۔میں نہیں کہتا کہ پولیس کی نوکری بری ہے مگر اس ہونہار لڑکے کی پڑھائی روک کر اس کو پولیس میں کانسٹیبل بھرتی کرنا حماقت سے کم نہیں ہے۔ یہ لڑکا آگے جاکر کچھ بھی بن سکتا ہے"
اس کلرک کی یہ باتیں میرے لیے بے حد حوصلہ بخش تھی اور میرے والد بھی ان کی باتوں کے اثر میں آگے۔اس کلارک سے تعارف کے بعد پتہ چلا کہ یہ ہمارے ہی علاقے سے تعلق رکھتا ہے اور اب شہر میں مقیم ہے۔ اس نے میرے والد صاحب کو اپنا لینڈ لائن نمبر تھما دیا ۔
ان دنوں ڈاکٹر بننا ایک خواب تھا۔ڈاکٹری پیشے کو خاصی شہرت حاصل تھی اور ڈاکٹر کو سماج میں سب سے زیادہ عزت و احترام کی نظروں سے دیکھا جاتا تھا۔
  بہرحال ہم گھر پہنچے اور میرے والد نے کہا کہ اُس نے اب یہ ٹھان لی کہ وہ مجھے پولیس میں بھرتی کرنے کے بجائے میڈکل اینٹرنس کوچنگ کے لیے بھیج دینگے۔
اس شام میرے والد نے مجھے بتایا
"بیٹا میں پہاڑ کے اس طرف والی دو کنال زمین بیچ کر آپ کی کوچنگ، کتابوں اور ہوسٹل وغیرہ کا انتظام کر دوں گا۔ تم بس بے فکر ہو کر پڑھائی میں لگ جاؤ"
میری آنکھیں نم پڑگئیں۔لیکن میں نے آنسوؤں کو بہنے نہ دیا اور والد صاحب کی بات پر اپنی رضامندی ظاہر کی اور مصمم ارادہ کر لیا  کہ تن من اور دھن سے کتابوں کا مطالعہ کرکے  اپنی منزل کو حاصل کرکے ہی دم لوں۔ کچھ روز بعد جب میں کوچنگ کے لئے شہر جا رہا تھا والد صاحب نے مجھے بلایا اور گاؤں کے مشرق میں واقع دھان کی زمینوں کی طرف لیا۔ وہاں ایک آدمی اپنے دو بیلوں سے زمین جوت رہا تھا۔ والد صاحب نے بتایا
"بیٹا اگر ان دو بیلوں کو جو اس ہل میں جکڑے ہوئے ہیں اپنی طاقت کا اندازہ ہو جائے تو یہ اس آدمی ،جو ہل کے پیچھے بیٹھ کر ان کو قابو کر رہا ہے اور جس کے اشارے پر یہ دونوں بیل ناچ رہے ہیں، کو گھسیٹ کر اپنے آپ کو اس چنگل سے آزاد کر سکتے ہیں مگر انہیں اپنی صلاحیتوں کی کوئی پہچان ہی نہیں۔ بس تم اپنی صلاحیتوں اور اپنے اندر بسے  potential  کو پہچان لو اور ڈاکٹر بن کے دکھاؤ"
اپنے والد کی دی ہوئی اس مثال نے مجھے اتنا اعتماد دیا کہ مجھے اپنی منزل قریب تر دکھائی دینے لگی۔
پھر کیا تھا۔ اگلے سال میں نے میڈکل اینٹرنس میں  اچھی رینک حاصل کرکے  میڈیکل کالج میں ایڈمیشن لیا۔
وہاں پہنچا تو کئی سارے راستے نکل آئے۔
وہاں پڑھائی کے خرچے کیلئے اسکالرشپ ملنے لگی۔ میرے والد صاحب کا خواب پورا ہوگیا اگرچہ اس نے اس خواب کو پورا کرنے کے لیے اپنی خواہشات کا گلا گھونٹ دیا مگر ماں باپ کی اصل دولت تو وہی ہوتی ہے کہ اگر ان کی اولاد زندگی میں کچھ اچھا کر سکے۔
والدین اپنی راحت اولاد کی راحت پر، اپنی خواہش اولاد کی خواہش پر  نثار کر دیتے ہیں اور والدین کا یہ ایثار اور قربانی بلا غرض اور بے لوث ہوتا ہے۔ میرے والد صاحب اس کی ایک زندہ مثال تھے۔
میرے دوست رشید یہ جو آج تم نے میری کیفیت دیکھی۔ اس سفید ریش بزرگ کے ساتھ میری اتنی ہمدردی اور جذباتی وابستگی دیکھی۔
یہ ضعیف سفید پوش بزرگ وہی کلرک ہے جس نے چالیس سال پہلے میرے والد کو صحیح راستہ دکھایا تھا ۔صحیح صلاح دی تھی۔
یہ میرا محسن ہے ۔ہاں سب سے بڑا محسن۔"
���
میڈیکل آفیسر بلاک شوپیان
موبائل نمبر؛ 6005636407