میرامسیحا

دھیرے دھیرے سیڑھیاں اُ ترتے ہوئے وہ صدر دروازے کی طرف لپکی۔دروازے کا پٹ کھول کر ایک دم سے اسکے ساتھ ٹیک لگا بیٹھی ۔اتنے زیادہ ڈگ بھرنے سے اس کی سانس جو پھولنے لگی تھی، کچھ دیر تک آنکھیں موندے یونہی کھڑی رہی۔عشرتؔجسمانی طور پر بہت مضمحل ہوچکی تھی ۔اس کا گول بھرا بھرا چہرہ‘گورے بھرے بھرے ہاتھ اوربڑی بڑی آنکھیں۔وہ خوبصورتی۔۔۔۔جیسے سچ مچ آسمان سے چاند اتار کر زمین پر رکھ دیا گیا ہو۔مگراب سب کچھ داستان پارینہ ہوچکا تھا۔اب انگ انگ کی حالت بدل چکی تھی چند لمحے سستانے کے بعداس نے راستے پر دور تک نظریں دوڑائیںاور کوئی نقل و حرکت نہ دیکھ کرسوچنے لگی۔
’’یہ راستہ اس قدر سنسان کیوں پڑا ہے دن میں جیسے الّو بولنے لگے ہیں۔یہ سب لوگ کہاں گئے ہیںاور۔۔وہ۔۔وہ کب آئے گا۔ میں نے مسیج بھیج کراس کو اطلاع تو دی تھی اور بلڈ گروپ کے بارے میں بھی بتایا تھا۔پھر اس نے اتنی دیر کیوں لگائی کہیں وہ بے مروت تو نہیں ہوا ہے۔نہیں۔۔نہیں۔‘‘خود ہی نفی میں سر ہلا دیتی ہے پھر اپنی سوچ کے دائرے کو وسیع کرتے ہوئے بڑبڑانے لگتی ہے۔
’’ اس کے بارے میں ایسا سوچناکفر ہے وہ میرے لئے اپنی جان بھی دے سکتا ہے۔شاید اس کو میرا مسیج نہیں ملا ہوگا۔ورنہ ممکن نہیں ہے کہ اتنی تاخیر کرتا۔ یا اللہ اس کو صحیح سلامت رکھنا۔‘‘ادھر اُدھر تاک جھانک کرنے کے بعدوہ مایوس ہو کرواپس مڑتی ہے تو اپنے ابو کو سامنے پاکربے ساختہ بول اُٹھتی ہے۔
’’ابو وہ نہیں آیا۔‘‘’’کون‘‘وہ ایکدم سے چپ ہو جاتی ہے اور آنسوں اس کے اندر کی کیفیت کی ترجمانی کرتے ہوئے دریا کی مانندگالوں کے اُوپر سے رواں ہوجاتے ہیں۔’’چپ ہوجائو میری بچی‘تم پہلی جیسی ہوجائوگی۔‘‘عشرت ؔاندر کی جانب آتے ہوئے ایک مرجھائے ہوئے پھول کو توڑ کرکہتی ہے۔’’ابو میری مثال اس مرجھائے ہوئے پھول کی مانند ہے۔ کیا یہ پھر سے ہرا بھرا ہوسکتا ہے ؟ نہیں نا۔ توپھر کیوں مجھے جھوٹی تسلی دیتے ہو۔لیکن ابو میں حوصلہ نہیں ہاری ہوں ۔میں بہت دیر تک جیوں گی۔‘‘اور اپنے ابو کا دل رکھنے کے لئے ہنس بھی دیتی ہے اور ہنستے ہنستے اس کے آنسوں نکل آتے ہیں۔ اور اس کا ابو اس کے آنسوں پونچھتے ہوئے کہتا ہے۔’’میری بچی دنیا امید پر قائم ہے تمہاری دنیا سنور جائے گی ۔دیکھنا۔ہم تمہیں تنہا نہیں چھوڑیں گے۔اندر چلو۔‘‘اور وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اُسے اندر کمرے میں لے جاتا ہے۔ عشرت ایک اسکول میںبطور ٹیچر کام کرتی تھی۔ ایک روز جب وہ اسکول سے گھر لوٹی تو اس کا چہرہ مرجھایا ہوا لگ رہا تھا۔ سیڑھیاں چڑھتے ہی وہ قے کرنے لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کی طبیعت بگڑ گئی تھی۔ گھر بھر میں کھلبلی سی مچ گئی اور آناََفانََااس کو اسپتال پہنچایا گیاتھا۔پھر تشخیص کے بعدپتہ چلا کہ اس کے گردے سست رفتار سے کام کررہے ہیںکچھ عرصہ تک اس نے پابندی سے دوائی لے لی مگر افاقہ نہ ہواتو ڈاکٹروں نے صلاح مشورہ کرکے گردے بدلنے کے لئے کہا۔یہ سنتے ہی گھر میں صف ماتم بچھ گئی۔ سب حواس باختہ ہوگئے اوردہکتے انگاروں کی طرح اندر ہی اندرسلگنے لگے۔ ماں باپ جیسے بے جان بتوں کی طرح ہوگئے، دیکھتے ہی دیکھتے انکی پکی فصلوں پر جیسے اولے پڑ گئے ہوں۔ عشرت کے اسٹوڈنٹس پر جب یہ بات واشگاف ہوئی کہ ان کی ٹیچر بیما رہے توانھیں بہت دکھ ہوا۔جوق دو جوق اپنی ٹیچر کی خبر گیری کے لئے آئے اوراس کے ارد گرد بیٹھ کر معصومانہ اندازمیںدست بدعا ہوئے اور اللہ جل شانہ سے اپنی ٹیچر کے لئے لمبی عمر مانگتے رہے۔ تب سے ان کے گھرلوگوں کے آنے جانے کا تانتا بندھا رہااور سب عشرت کی صحت یابی کے لئے دعا کرتے رہے مگر گھر والوں کی سبھی تدبیریں ناکام ہوتے نظرآ ر ہی تھیں۔ عشرت اعلیٰ تعلیم یافتہ تھی۔ وہ ٹیسٹوں کی رپورٹ پڑھ کر جان چکی تھی کہ وہ ایک مہلک مرض میںمبتلاء ہوچکی ہے اور اس کی زندگی کی گاڑی رام بھروسے چل رہی ہے۔ وہ جب جب برآمدے میں بیٹھ کر اپنے ابو سے بات کرتی تووہ مطلق اس کو احساس نہیں ہونے دیتی کہ ا س کی بیٹی زیادہ  بیمار ہے۔ کبھی کبھی اپنی آستین اوپر کی طرف کھینچ کر بازو دکھا کرابو سے کہتی۔’’ابو میں بالکل ہٹی کٹی ہوں۔‘‘یہ باتیں اس کے ابو کو اندر ہی ا ندر سے دیمک کی طرح چاٹ رہی تھیںبمشکل اپنے آنسوںروکے رکھتاتھااوراس کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے کہتا۔’’ذرا دکھائو تو بازو۔اتنے موٹے موٹے بازو۔تم توپہلوان لگ رہی ہو۔‘‘پھر کچھ دیر کے لئے حپی سادھ کراند ر ہی اندر سوچتی رہتی۔’’میںکب تک ان خوبصورت نظاروں کو دیکھ سکوں گی۔پرندوں کے یہ سہانے گیت سن سکوں گی۔میری صحت تو دن بہ دن بگڑ تی ہی جارہی ہے۔‘‘اور ایک سرد آہ بھرتے ہوئے کہتی ہے’’اور ۔۔وہ۔۔۔وہ بھی تو نہیںآیا۔‘‘کون نہیں آیا بیٹی۔‘‘’’ابو میں تمہارا سب راز جان چکی ہوںمیں نے اس کے کئی خط پڑھ لئے ہیں۔وہ بہت پیارا ہے۔اور میں کئی بار اس سے مل چکی ہوں۔‘‘گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ دوائی کا اثر بھی پھیکاپڑتا لگ رہا تھا اور روز بہ روز حالت بگڑتی جارہی تھی اس دن وہ بستر پر لیٹی ٹکٹکی باندھے دروازے کی طرف دیکھ رہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی۔یہ کسی کے آنے کا وقت نہیں تھااس لئے سب چونک گئے ۔ عشرت بے ساختہ بول اُٹھی۔’’وہ آگیا۔‘‘اور بستر سے اٹھ کھڑi ہوئی۔دروازہ کھلا۔تو عشرت نے زور زور سے روتے ہوئے کہا۔’’اتنی دیر کہاں لگائی۔‘‘ایک خوب رونوجوان پھرتی سے آگے بڑھااور عشرت کو گلے سے لگا کرکچھ دیر تک بوسے دیتا رہا۔دونوں کی آنکھوں سے آنسوں رستے رہے عشرت کے آنسوں پونچھتے ہوئے وہ گویا ہوا۔’’یہ وقت مجھے اپنے ٹیسٹ کروانے میں گزرا۔میں خوش نصیب ہوں کہ میں اپنی بہن کے کام آرہا ہوں۔میں تمہیں مرنے نہیں دوں گا۔‘‘’’ابو میں کہتی تھی کہ وہ آئے گا۔وہ آگیا ابو ۔۔میرا مسیحا۔۔۔۔۔‘‘چلو بہن ۔۔۔اسپتال چلو۔‘‘
مگر یہ ہے کون۔‘‘ ماں ابو سے پوچھو۔‘‘اور دونوں اسپتال کی طرف نکلے ۔۔۔۔۔۔ٹرانسپلانٹ کے لئے  ۔
٭٭٭
دلنہ      بارہمولہ
موبائل نمبر:-9906484847