میاں بشیر احمد لاروی | مبلغ، سکالر، مذہبی رہنما اور کامیاب سیاست دان شخصیات

راجا ارشاد احمد‎

بابانگری وانگت کنگن میں حضرت باباجی لارویؒاور حضرت میاں نظام الدین کیانوی رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت سرینگر سے 45کلومیٹر دوری پر واقع ہے جہاں گوجر بکروال قبائل، پہاڑی، کشمیری، ہندو، سکھ ہر طبقہ سے وابستہ فرد بشر روحانیت ، اور رواداری کا فیض حاصل کرنے کے لئے تشریف لاتے ہیں۔بابانگری وانگت کا علاقہ وانگت نالہ کی دائیں جانب تقریباً پانچ کلومیٹر لمبی ڈھلان پرتاریخی پس منظر والا قدرتی مناظر اور وسائل علاقہ دیودار کے جنگلوں کے ساتھ شمال کی طرف پھیلا ہوا ہے۔

یوں تو بابانگری وانگت کا علاقہ قدیم سے ہی عبادت اور ریاضت کا اہم مرکز رہا ہےلیکن سال ١٨٩٢ میں بلند پایہ ولی حضرت بابا جی صاحب لارویؒکی وانگت میں آمد کے بعد اس علاقہ کو اس قدر روحانی مرتبہ اور مذہبی تقدس حاصل ہوا کہ یہ مقام آج بھی ہر طبقہ اور فکریہ کے لوگوں کے لئے روحانیت کا مقام اور عقیدت و احترام کا مرکز بن چکا ہےجہاں ہر روز عقیدت مند اسلامی تعلیمات، قرآن خوانی، سنت رسول اللہؐ اور روحانیات سے فیضاب ہوکر جاتے ہیں۔زیارت شریف پر ہر روز سینکڑوں کی تعداد میں زائرین اور عقیدت مند لنگر سے کھانا،دربار عالیہ سے تبرک اور سجادہ نشین سے روحانی فیضان حاصل کرتے ہیں۔ ٢١ اکتوبر ١٩٢٢ کو بابانگری سے 4کلومیٹر کی دوری پر واقع پہلناڑ میں حضرت میاں بشیر احمد لاروی کی ولادت ہوئی۔اسی وقت ننھی سی جان کو چادر میں لپیٹ کر بابا جی صاحب لارویؒکے پاس بابانگری لایا گیا جہاں آپؒنے بچے کو کو اٹھا کر چھاتی سے لگایا، ماتھا چوما اور کانوں میں اذان دی اور اپنی زبان مبارک کو چوسا کر گل ستی دیتے ہوئے بشیر احمد لاروی نام رکھا۔ زبان مبارک چوسا نے کا روحانی مطلب یہ بھی ہے کہ آپ نے اپنی روحانیت کو پوتے میں منتقل کیا۔آگے چل کر میاں بشیر احمد لاروی کی زبان میں جو مٹھاس اور شیرینی بنی، باتوں سے روحانیت کی خوشبو آتی رہی وہ اسی گل ستی کا نتیجہ ہے جو حضرت بابا جی صاحبؒنے اپنے زبان مبارک سے دی تھی۔

والدین بچوں کی ذہنی نشوونما کے بارے میں فکر مند ہوتے ہیں۔ میاں بشیر احمد لاروی کی عمر 7 برس کی تھی۔ آپ کی ابتدائی تعلیم اور تربیت کی طرف توجہ دی گئی۔ابتدائی تعلیم کا بندوبست گھر میں ہی کیا گیا۔ضلع راجوری کے علاقہ بدھل سے تعلق رکھنے والے مولوی محمد عبداللہ چچی، جنہیں دربار بابا جی صاحب لاروی سے بڑی عقیدت تھی، ان کو اردو، فارسی اور عربی پہ عبور حاصل تھا،اُنہیں ہی میاں بشیر احمد لاروی کی تعلیم پر معمور کیا گیا۔مولوی محمد عبداللہ کے رہائشی مکان کے قریب مسجد شریف واقع تھی جہاں میاں بشیر احمد لاروی اور ان کے دیگر بھائیوں کی ابتدائی تعلیم کا سلسلہ شروع کیا گیا۔مکتب کی تعلیم سے فارغ ہوئے تو مروجہ تعلیم حاصل کرنے کے لئے سرکاری پرائمری سکول وانگت میں داخلہ لیا گیا۔ پانچوں جماعت کا امتحان اسی سکول سے پاس کیا۔ اس زمانے میں مڈل یا ہائی سکول نہ ہونے کی وجہ سے مروجہ تعلیم کا سلسلہ آگے نہ بڑھ سکاالبتہ دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے بڑے بڑے علماء سے تعلیم حاصل کرنے کے لئے آپ مولانا فضل الرحمان صاحب کے پاس مظفرآباد بھی رہے۔

میاں بشیر احمد لاروی کا سال 1931/32 میں سیاست میں رحجان بڑھا جس کے لئے اپنے پھوپھا زاد بھائی کے ہمراہ بابانگری سے سرینگر جایا کرتے تھے جہاں شیخ محمد عبداللہ کے قائم کردہ دارلمطالعہ میں بیٹھ کر سیاسی سوجھ بوجھ پر تبادلہ خیال کیا کرتے تھے۔انتظامیہ میں مسلمانوں کی کم نمائندگی ،تعلیم کا فقدان اور سیاسی شعور پیدا کرنے کے لئے مشوروں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔میاں بشیر احمد لاروی کا رشتہ سال 1942میں چودھری غلام حسین لسانوی کی صاحبزادی غلام مریم سے ہوا۔شادی کی تقریب بڑی سادگی اور اسلامی شریعت کے مطابق ہوئی۔سال 1962جنوری کے مہینے میں میاں بشیر احمد لاروی کو حلقہ انتخاب کنگن سے کانگریس پارٹی کی جانب سے امیدوار نامزد کیا گیا جس سے پوری ریاست میں قبائلی، گوجر، پہاڑی سمیت دیگر طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کیونکہ سب کو اس بات کا بخوبی اندازہ تھا کہ میاں بشیر احمد لاروی نہ صرف روحانیت کی علامت تھے بلکہ وہ سیاسی، سماجی، اقتصادی اور معاشی مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔سال 1967سے لے لیکر سال 1971تک آپ نے حلقہ انتخاب کنگن کی بھرپور نمائندگی کی۔آپ کی اعلیٰ ذہانت، بلند کردار، عوامی رتبے، سیاسی بصیرت کے احترام کے طور پرسال 1971میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ نے آپ کو ریاستی وزارت میں نائب وزیر کے عہدے کے لئے نامزد کیا۔آپ کو محکمہ آبپاشی کا قلمدان سونپا گیا۔آپ کے دوروزارت میں محکمہ آبپاشی کے بڑے بڑے منصوبوں پر عمل درآمد کرکے عوام کو راحت فراہم کی گئی۔
حضرت میاں نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ کے وصال کے بعد سال 1972میں میاں بشیر احمد لاروی کو دربار لار شریف کا سجادہ نشین منتخب کیاگیاتوجموں کشمیر میں موجود دربار عالیہ سے وابستہ مریدوں اور عقیدت مندوں نے اطمینان، اعتماد، خوشی، اور یقین کا اظہار کیا۔میاں بشیر احمد لاروی نےبحیثیت سجادہ نشین دین کے فروغ اور سلسلہ کی تبلیغ کو اپنا مقصد حیات بنالیا۔لوگ سینکڑوں میل پیدل سفر کرکے دربار عالیہ لار پر حاضری دیتے ہوئے آپ کی روحانی خوشنودی حاصل کرنے لگے۔آپ مریدوں اور عقیدت مندوں کو دینی تبلیغ، اسلامی تعلیمات، پنجگانہ نمازوں کی پابندی اور قرآن خوانی کی تلقین کرتے رہے۔آپ کی بابرکت روحانی شخصیت دربار عالیہ لار کے پاک ولیوں کی برکتوں اور کرامتوں کے صدقے مریدوں اور عقیدت مندوں کے لئے فیضیاب ثابت ہونے لگی۔اگرچہ اس وقت ریاستی وزیر تھے لیکن انکساری اور سادگی اس قدر تھی کہ غریب سے غریب اور بے سہارا لوگوں کو گلے لگاکر ان کے دکھ درد بانٹ لیا کرتے تھے اور ان کو روحانی فیض سے نوازتے رہے۔وہ مریدوں اور عقیدت مندوں سے کہتے تھے کہ “آپ مجھے کچھ بھی سمجھیں مگر میں تو فقط دربار عالیہ کا خادم، سلسلہ کا مرید اور اللہ تعالیٰ کا فقیر ہوں،میں تو بس دعاگو ہوں قبول کرنے والا تو اللہ تعالیٰ ہے‘‘۔

سال 1987میں آپ سیاست سے علیحدگی اختیار کرنے کے بعد پوری یکسوئی کے ساتھ دین کے فروغ، عبادت اور ریاضت میں محو ہوگئے۔دربار عالیہ پر مریدوں سے ملنا، ان کا دکھ درد سننا، دین اور سلسلہ کے اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کی تلقین کرنا آپ کا روزمرہ کا کام بن گیا۔لنگر کے انتظام کی نگرانی رکھنے کے ساتھ ساتھ مہمانوں کے لئے طعام اور قیام کی سہولیات فراہم کرنا آپ کا روزمرہ کا معمول بن گیا۔دور دور سے علماء کرام کو دربار عالیہ لار پر مدعو کرکے دین اور سلسلہ کے بارے میں مذاکرات ہوتے، اللہ اور رسول ؐکی حمدو ثنا ہوتی۔میاں بشیر احمد لاروی کی نگرانی میں ملکی سطح پر کنگن میں کل ہند سیرت کانفرنس 18اگست 1989 منعقد کی گئی جس میں ہزاروں کی تعداد میں عاشقان رسول صلہ اللہ علیہ وسلم نے شرکت کی۔ کل ہند سیرت کانفرنس میں ملک کے کونے کونے سے علماء کرام، مبلغ، عالم دین ،اسلامی سکالر اور مبلغین تین روز تک دین اسلام اور رسول اللہ صلہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کا ذکر عقیدت اور احترام سے کرتے رہے۔

سال 1994اکتوبر کے مہینے میں میاں بشیر احمد لاروی ہندوستانی وفد کے ہمراہ نیویارک پہنچے جہاں انہوں نے جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب میں نہایت سادگی اور بردبار لہجے میں عوام کی عکاسی کرتے

ہوئے کہا کہ “اگر کشمیر میں عوام کو ووٹ دینے سے نہیں روکا جائے تو وہ اپنی مرضی کی حکومت بنائیں گے۔مسئلہ یہ ہے کہ ہر شخص بندوق سے ڈرا ہوا ہے۔بندوق دونوں طرف سے تنی ہوئی ہے۔مسئلہ کشمیر کا حل بات چیت سے ہونا چاہئے‘‘۔یہ تقریر یادگار ثابت ہوئی جس میں انہوں نے ہر مسئلہ کے بارے میں بات کی۔ میاں بشیر احمد لاروی کی دینی روحانی، اخلاقی، سماجی اور سیاسی خدمات کے اعتراف میں حکومت ہند نے جنوری 2008میں ان کو سب سے بڑے اعزاز پدم بھوشن سے نوازاجس سے جموں کشمیر کے گجر بکروال قبائل اور پہاڑی طبقہ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔

میاں بشیر احمد لاروی زندگی بھر عوام کی دینی اصلاح اور دنیاوی فروغ کے لئے برسرپیکار رہے۔آپ کا جسمانی قد اگرچہ درمیانہ تھا لیکن روحانیت کی نسبت سے آپ ملک اور جموں کشمیر کی سب سے قداور شخصیت سمجھے جاتے ہیں۔ہر مرید اور عقیدت مند سے بڑے تحمل، محبت اور خلوص کے ساتھ ملتے تھے۔آپ انہیں اپنے قریب بٹھاتے ،ان کے چھوٹے بڑے مسلوں اور تکالیف کو غور سے سنتے اور دعائیں مانگتے تھے۔14اگست 2021کو میاں بشیر احمد لاروی اپنی رہائش گاہ واقع بابانگری وانگت میں آخری سانس لیکر اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔آپ کے انتقال کی خبر سن کر آپ کے عقیدت مندوں، مریدوں اور ہر مذہب سے تعلق رکھنے والوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ان کے نماز جنازہ میں شرکت کیلئے جموں و کشمیر کے کونے کونے سے بابانگری وانگت پہنچا اور ان کے نماز جنازہ میں شرکت کی۔ان کی نماز جنازہ ان کے بڑے فرزند میاں سرفراز احمد نے ادا کی جس میں نیشنل کانفرنس کے صدر ممبر پارلیمنٹ ڈاکٹر فاروق عبداللہ سمیت دیگر متعدد سیاسی،مذہبی، سماجی شخصیات نے شرکت کی۔

اپنی وقات سے چار سال قبل ہی روحانیت اور بصیرت کے چلتے میاں بشیر احمد لاروی نے 8جون 2017میں حضرت بابا جی صاحب کی تعمیر کردہ مسجد میں بنائے گئے سٹیج پر ہزاروں زائرین اور عقیدت مندوں کی موجودگی میں میاں الطاف احمد کی دستار بندی کرتے ہوئے انہیںخلافت سے نوازا اور اپنی جگہ دربار عالیہ کے سجادہ نشین کی ذمہ داری سونپنے کا اعلان کیا۔اس وقت میاں بشیر احمد لاروی کا چہرہ گل لالہ کی طرح دھمک رہا تھاجبکہ میاں الطاف احمد والد کی محبت اور اتنے بڑے منصب کو اپنے سر پر سجتے دیکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔اس موقع پر بابا جی نے کہا کہ “میری سوچ اور پہچان کے مطابق اب میاں الطاف احمد دربار عالیہ لار شریف کے سجادہ نشین ہوں گے۔میں ان کو آپ کے سپرد کرتا ہوں اور آج سے یہ سلسلہ کی قیادت اور سرداری کے فرائض انجام دے گے‘‘۔جب سے میاں الطاف احمد مسلسل یہ خدمات انجام دے رہے ہیں ۔