بانہال//15 برس قبل مہو بانہال سے فوج کے ہاتھوں زیر حراست لاپتہ کئے گئے پانچ افراد کے اہل خانہ آج تک عدل و انصاف کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑیہیں اور ابھی بھی وہ انسانی حقوق کے علمبرداروں اور تحقیقاتی اداروں سے انصاف فراہم کرنے کی آس لگائے بیٹھے ہیں ۔ پولیس اور دیگر حکام سے کوئی خاص مدد نہ ملنے کے بعد پانچ افراد کی گمشدگی کا یہ کیس سٹیٹ ہیومن رائٹس کمیشن کے پاس درج کیا گیا اور بعد میں اس کیس کو مزید تحقیقات کیلئے کرائم برانچ کے حوالے کیا گیا ،لیکن پندرہ سال کا عرصہ مکمل ہونے کے بعد بھی اس کیس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ۔ 10نومبر 200 کو بانہال تحصیل کے مہو ۔منگت علاقے سے تعلق رکھنے والے پانچ غریب مزدور ہمسائیہ ضلع اننت ناگ ( اسلام آباد) کے داندواڑ ،کولگام کے جنگلی راستے سے سواد سامان لیکرپیدل واپس آرہے تھے کہ علاقے میں گشت کررہی 2جاٹ رجمنٹ سے وابستہ فوجی اہلکاروں نے انہیں مبینہ طور حراست میں لیا ۔ یہ پانچوں کولگام سے ضروری سودا سلف لینے 07 نومبر کو گھروں سے روانہ ہوئے تھے اور پولیس تحقیقات کے مطابق پانچوں افراد کولگام کے داندواڑ علاقے سے واردات کے روز دس نومبر کو صبح دس بجے روانہ ہوتے دیکھے گئے تھے لیکن اپنے گھروں کو آج تک نہیں پہنچے۔ لاپتہ ہوئے پانچ بدنصیب افراد میں محمدیوسف نائیک عمر 40 سال ۔عبدلعزیز نائیک عمر 45سال۔عبدالرشید شیخ عمر 40سال ، کمال دین نائیک عمر 55سال اور سب سے کم عمر نوجوان اٹھارہ سالہ علی محمدشیخ ساکنان مہو تحصیل بانہال ضلع رام بن 10 نومبر 2017 کواپنے گاوں مہو سے کولگام کشمیر میںاپنے اہلخانہ کیلئے ضروری سودا سلف خریدنے کے بعد داندواڑ کے راستے پیرپنچال درے کو پیدل عبور کرکے واپس انے کے دوران لاپتہ ہوئے تھے اوراج تک گھروں کو نہیں پہنچے ۔ مہو کے مقامی لوگوں اور لاپتہ پانچ افراد کے لواحقین کا الزام ہی کہ جیسے ہی وہ کشمیر سے واپس مہو کے جنگلوں میںپہنچے توانہیں فوج کی دو جاٹ ریجمینٹ سے وابسطہ اہلکاروں نے حراست میں لیا۔انہوں نے کہا کہ فوجی اہلکار پانچوں افراد کو سرعام مارتے پیٹتے اپنے مہو میں قائم اپنے کیمپ پر لے آئے ۔ انہوں نے کہا کہ حراست میں لئے گئے افراد پر کیا جانے والا تشدد گائوں والوں سے برداشت نہ ہوا اور لوگ مہوفوجی کیمپ پر اُن کی رہائی کے سلسلے میں اُمڈ پڑے ۔انہوں نے کہاکہ کیمپ پر موجود انچارج افیسر نے سادہ لوح اور پسماندہ لوگوں کو یقین دلایا کہ پکڑے گئے پانچوں افراد کو پوچھ تاچھ کے بعد دو تین دن میں چھوڑدیا جائے گامگر ایسا نہ ہوسکا ۔ انہوں نے کہ معززین علاقہ اور سینکڑوںلوگوں کو جب یہ یقین ہوگیا کہ فوج پانچ افردا کی رہائی کے سلسلے میں ٹال مٹول کررہی ہے تو مہو۔ منگت اور اس کے ایک درجن سے زائید دیہات سے وابسطہ سینکڑوں لوگوں نے 14 نومبر کو بیس میل کاپیدل سفر طے کرکے انکی رہائی کو لیکر قصبہ بانہال میں جموں سرینگر شاہراہ پر دھرنا دیکر ا اورپوری انتظامیہ کوجگا یااورعوامی احتجاج کے بعد پولیس نے زیر دفعہ 364/365/34 رنبیر پینل کوڈ کے تحت کیس نمبر 194/2002 درج کیا ۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت بھی احتجاج کر رہے لوگوں کو پولیس اور سول انتظامیہ کی موجودگی میں بانہال میں مقیم جاٹ رجمنٹ کے اعلی افسروںنے ایکبار پھر یقین دلایا کہ پانچوں افرادکو دو دن میں مہو کیمپ سے رہا کیا جائے گا ۔ لاپتہ کئے گئے افراد میں رشتہ داروں میں سے ایک شبیراحمد نے کشمیر عظمی سے بات چیت کے دوران بتایا کہ بانہال دھرنے کے بعد پولیس کی ٹیم نے بھی علاقے کا دورہ کیا اور عوام اور فوج سے بیانات قلمبند کرائے گئے اور فوج نے پولیس کو اپنے ریکارڈ کئے گئے بیان میں اُن کی گرفتاری سے لاعلمیت ظاہر کی اور سینکڑوں لوگوں نے جب دو دن بعدحراست میں لئے گئے پانچ افراد کی رہائی کیلئے ایکبار پھر فوجی کیمپ کا رخ کیا تو وہاں تعینات افسرکے جواب نے وہاں آئے لوگوں کے ہوش اُڑا دئیے ۔ واقع کو یاد کرتے ہوئے شبیر نے کہا کہ فوجی افسر نے وہاں موجود سینکڑوں لوگوں سے مخاطب ہوکر کہا کہ ہم نے ان سب کو دو۔ تین دن پہلے ہی پوچھ تاچھ کے بعد چھوڑ دیا ہے۔فوجی افسر کے اس جواب کو سنتے ہی لاپتہ افراد کے بیشتر رشتہ دار کیمپ کے اندر ہی چھاتی پیٹنے لگے اور وہاں لوگ زارو قطار رونے لگے ۔ انہوں نے کہا کہ اس جواب کے بعد سب جان گئے تھے کہ فوج نے ان پانچوں افراد کو مبینہ طورپرموت کے گھاٹ ا تار کر اُنکی رہائی کی من گھڑت کہانی تیار کی ہے۔انہوں نے کہا کہ فوج کی اس جھوٹی کہانی کے بعد ہم نے مہو منگت کے تمام جنگلوں اور کوہ و بیانوں کوچھان مارا مگر دن دھاڑے حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کئے گئے پانچ افراد کا کوئی پتہ نہ چل سکا۔ انہوں نے کہا کہ اس کے بعد فوری طور پر فوج کی اس دو جاٹ یونٹ کو کسی نامعلوم جگہ کی طرف منتقل کیا گیااور اس میں ملوث اہلکاروں کو قانون کے شکنجے میں کسنے کیلئے سرکاری اداروں نے ابتک کوئی خاص دلچسپی نہیں دکھا ئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ وہ سب آج بھی ان کے زندہ یا مردہ ہونے کی خبر سننے کے لئے سینے میں ایک درد لیکر جی رہے اور اُن کے بارے میں تاخیر کے ساتھ ہی سہی لیکن انصاف کی امید لگائے بیٹھے ہیں ۔ لاپتہ ہوئے افراد کے رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ پولیس کی طرف سے اس کیس کوئی بھی مدد نہ ملنے کے بعد ان غریب اور سادہ لوگوں نے انصاف کی فراہمی کیلئے تمام ممکنہ دروازے کھٹکھٹائے مگر اُن کی فریاد کسی نے نہ سنی ۔ تھک ہار کراس کیس کو 2003 میں ریاستی کمیشن برائے انسانی حقوق میں ایڈوکیٹ نظیر احمد خان کے زریعے دائر کیا اور اس وقت کے ڈپٹی کمشنرڈوڈہ اور انسپکٹر جرنل اف پولیس جموں زون سے کیس کی تفصیلی رپورٹ طلب کرنے اور لواحقین کو کمیشن میں بلاکر ان کے بیان قلمبند کرنے کے بعد SHRC نے اس کیس کو ریاستی کرائم برانچ کے سپرد کیا ۔ کرائم برانچ اس کیس کی تحقیقات کررہی ہے اور ماضی میں کرائم برانچ کے افسران نے کئی بار بانہال کا دورہ بھی کیا لیکن پندرہ سالوں کا طویل عرصہ گذرجانے کے بعد بھی اس سرعام انجام دیئے گئے واقع کی تحقیقات کانتیجہ ماب تک سامنے نہیں آیا ۔انہوں نے کہا کہ پندرہ برسوں کے دوران اس کیس میں صرف یہ پیش رفت ہوئی ہے کہ اس وقت کے ڈپٹی کمشنر ضلع ڈوڈہ نے پولیس اور دیگر ایجنسیوں سے ریکارڈ طلب کرنے کے بعد لاپتہ کئے گئے افراد کو مردہ قرار دیکر اُن کے حق میں ایک ایک لاکھ روپئے کا معاوضہ ادا کرنے کے احکامات صادر کئے اور کمانے والوں سے محروم کئے گئے غریب کنبوں میں سے کسی ایک کو بھی سرکاری نوکری فراہم نہیں گئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ انہیں یقین ہیکہ انہیں انصاف مل کر ہی رہے گا اور ملوث اہلکار کو سزا مل کر ہی رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ غربت ، پسماندگی اور مزدور پیشہ ہونے کی وجہ سے وہ اس مضبوط کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے کے قابل نہیں ہیں ، لیکن فوج کی تحویل میں لاپتہہوئے ان پانچ بے گناہ اور سادہ لوح شہریوں کو انصاف فراہم کرنے میں سرکاری اداروں کی طرف سے سردمہری اور بے بسی دکھانا عدل و انصاف کا گلہ گھونٹنے کے مترادف ہوگا ۔