مہنگائی

اُف! یہ مہنگائی ہمارا بیش بھی کم ہو گیا
خُوشِیوں کا موسم بھی اب تو غم کا موسم ہو گیا
آرزو ، حسرت ، تمنّا جاں بَلب سی ہو گئی
ہر خیال اور خواب اب معدُوم و مُبہم ہو گیا
پھِر گیا پانی اُمید و حوصلہ و عزم پر
سامنے مہنگائی کے کافُور دَم خَم ہو گیا
آس پر پڑنے لگی ہے اوس چاروں اور سے
ہر ورق اب تو کِتابِ زیست کا نَم ہو گیا
نامُناسِب نوٹ بندی اور جی ایس ٹی سے اُف!
زخم گہرے ہو گئے اور منہگا مَرہم ہو گیا
بڑھتی قیمت پیٹرول، ڈیزل، رسوئی گَیس کی
جِس طرف بھی دیکھیئے ہا ہُو کا عالم ہو گیا
کھیت پیاسے ، ٹھنڈے چُولہے ، آگے کا مُشکل سفر
وار پر اب وار منہگائی کا پَیہم ہو گیا
لڑکھڑاتے رہتے تھے پہلے ہی راہِ زیست میں
بھاری تھا جو بوجھ پہلے بھاری بھرکم ہو گیا
کر دی ایسی تیسی اچّھے اچّھوں کی مہنگائی نے
کل جو ڈیگا ڈیگا تھا وہ آج ڈَم ڈَم ہو گیا
جو زبر تھے زیر مہنگائی نے اُن کو کر دِیا
چاروں خانے گاما چِت مُنہ اوندھے رُستم ہو گیا
بات ہنسنے کی نہیں یہ غور فرمانے کی ہے
ایک پیالہ دُودھ کا کیوں ساغرِ جَم ہو گیا
آ گئے اب ہاتھ مہنگائی کے گردن تک نیازؔ
کوشِشوں میں جِینے کی ہر شخص بے دَم ہو گیا
 
نیاز جَیراجپُوری
۶۷؍ جالندھری ،  اعظم گڑھ ۔ ۲۷۶۰۰۱  ( یُو۔پی۔)
0091 9935751213  /  9616747576