مہمان ہماری معاشرتی زندگی کا ایک لازمی حصہ ہے۔ مشرق میں لوگ ایسے گروپوں میں رہتے ہیں جنھیں خاندان کہتے ہیں ، عام طور پر ایک خاندان میں ماں، باپ ، بھائی ، بہنیں چچا چچی اور خونی رشتوں کے ساتھی ہوتے ہیں۔ اہل خانہ کی معمول کی زندگی کے چلتے جب روزمرہ کے معمول کی مصروفیات سے لوٹنے کے بعد کنبہ کے افراد جمع ہوجاتے ہیں۔ گفتگو کرنے یا تبادلہ خیال کرنے کے لئے شاید ہی کوئی غیر معمولی معاملات ہوں، تاہم اگر کوئی ہوں بھی تو مختلف قسم کے فرق اور خدشات کی وجہ سے ممبران ان پرتہہِ دل سے گفتگو کرنے میں ہچکچاتے ہیں ، یہ وہ مرحلہ ہے جہاں مہمان کو موقع ملتا ہے، وہ خاموشی کے خلا کو پْر کرتا ہے۔
وہ نہ توڈر محسوس کرتا ہے اور نہ ہی ہچکچاہٹ، وہ بحث اور معلومات بکھیرتا ہے، ذرایع کے قابل اعتمادہونے یا غیر معتبر افراد کی پرواہ کیے بغیرمعلومات کو بہاتا ہے، اسے نتائج کی فکر نہیں ہوتی کیونکہ وہ اگلے ایام میں جگہ چھوڑ رہا ہوتا ہے ، جب تک کہ وہ دوبارہ اس جگہ کا دورہ کرے گا اس وقت تک چیزوں میں سمندری تبدیلیاں آئیں ہوئیں ہونگی۔ایک کشمیری کہاوت ہے " پژھِس عزت خدایہ سْند" ( مہمان کو عزت خدا کی طرف سے)، لیکن ایک اور کہاوت ہے "پژھِس عزت پانس اتھہِ"( مہمان کو عزت اپنے ہاتھ میں)
اس کا مطلب یہ ہے کہ مہمانوں کو مہمان داری کے حدود کوعبور نہیں کرنا چاہئے۔ عام طور پرخونی رشتے کے مہمانوں کو ترجیحی بنیادوں پر خوش آمدید کہا جاتا ہے اور ان کا احترام کیا جاتا ہے لیکن ایک بار پھر انہیں تعلقات کا قریبی ساتھی ہونا چاہئے۔ بصورت دیگر ان پر کشمیری کہاوت " ننہِ نانہ ہند ڑنہِ آشناو" کا اطلاق کیا جاتا ہے۔(کم سے کم اہمیت والا مہمان) اور ان کو شاید ہی کوئی اہمیت دی جائے۔ خون کے رشتے میں آنے والے مہمانوں کو مدعو کرنے میں لوگ خوشی محسوس کرتے ہیں۔
مہمانوں کی نام بندی بہت لمبی ہے ، خونی رشتے کے علاوہ مہمان کی نام بندی کچھ اسطرح کی ہے ، کیلنڈر مہمان ، اچانک مہمان ، مہمان خصوصی، مہمان کا مہمان ، پارے والے مہمان وغیرہ۔ .
مہمان خصوصی: کئی لوگوں کا شوق ہوتا ہے کہ اپنی زندگی کے عرصے میں کم از کم ایک بار مہمان خصوصی بنیں۔ لیکن یہ خواب ان کی اصل زندگی میںسب کا پورا نہیں ہو جاتاہے بلکہ ایک خواب بن کر رہ جاتا ہے اور وہ خوابوں کو دیکھتے ہوئے اسے پورا کرسکتے ہیں تاہم کچھ لوگ کسی نہ کسی طرح سینئر شہریوں ، وفادداروں ، پروپیگنڈا کرنے والوں کی آڑ میں مہمان خصوصی بننے کا انتظام کرتے ہیں۔ باقاعدہ طور پر مہمان خصوصی کی کرسیوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن ایک ہی وقت میں مہمان خصوصی بننا آسان نہیں ہے کیونکہ اکثر ایسے مواقع پر آپ کی بات غیر متوقع ہوتی ہے ، آپ کانپ اٹھتے ہیں کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ آپ کے سامعین زیادہ حساس اور قابل ہیں لیکن آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں حتیٰ کہ اگر آپ کسی سطح پر کمزور یا نالائق ہیں تو کوئی آپ کو کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ آپ مہمانِ خصوصی ہیں۔
چور مہمان: اب جہاں تک چور مہمانوں کا تعلق ہے وہ ہمیشہ پیشہ ور چور نہیں ہوتے ہیں جناب! بجائے اس کے وہ آپ کی گہرائی کی پیمائش کرنا چاہتے ہیں، اگر وہ آپ کے گھر سے کوئی قیمتی املاک چوری کرتے ہیں اور آپ کو ان پر شک ہے تو وہ اسے صفائی پیش کردیں گے کہ حقیقت میں وہ کھیل رہے آپ کے ساتھ مذاق کررہے تھے اور جب آپ کے کمرے سے کوئی کتاب ، قلم ، یا رسالہ غائب ہو اور آپ کوبعد میںوہ چیزمہمان کے قبضے میں مل جائے جو پہلے آپ کے گھر آیا تھا ، تو وہ کہتا ہے "ارے! دراصل میں آپ کو اس کے بارے میں بتانا بھول گیا تھا ، کچھ عرصہ بعد میں آپ کو یہ واپس کردوں گا! '
کیلنڈر مہمان: چور مہمان کوئی کیلنڈر نہیں رکھتے ، لہٰذا ہم احتیاطی تدابیر اختیار کرسکیں۔ وہ کسی بھی دن، کسی بھی وقت آسکتے ہیں۔ لیکن یہ معاملہ کیلنڈر مہمانوں کے ساتھ نہیں ہے، یہ مناسب تاریخوں یا مقررہ موسموں میں آتے ہیں۔ کیلنڈر مہمان عام طور پر ہلکے مہمان ہوتے ہیں ، مطلب یہ ہے کہ ان پر مہمان نوازی کا خرچہ سستا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ میزبان کے لئے ہفتوں یا زیادہ وقت کے لئے بھی قابلِ برداشت ہوتے ہیں۔ کیلنڈر مہمان اکثر گھریلو ضیافت ہی نوش کیا کرتے ہیں سوئے روزِ آمد کے جب خاص ضیافت تو بنتی ہی بنتی ہے۔ مہمانوں کا یہ طبقہ بعض اوقات میزبان کے لئے کمک ثابت ہوتا ہے،مثلاً جب میزبان اپنا مکان تعمیر کر رہا ہو یا بوائی اور کٹائی کے موسم میں۔ کیلنڈر مہمانوں کو سستے مہمان بھی کہا جاتا ہے۔
ناگہانی مہمان: کیلنڈر مہمانوں کے لئے میزبان ذہنی طور پر تیار ہوتے ہیں اور بعض اوقات جب کیلنڈر مہمان متوقع تاریخ پر پہنچنے میں ناکام رہتے ہیں تو میزبان انکی خیریت سے پریشان ہوجاتے ہیں ، لیکن ناگہانی یا اچانک مہمانوں کے لئے معاملہ ذرا الٹا ہے، مہمانوں کا یہ طبقہ اکثر میزبان کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے اور یہ آسمانی بجلی سے کوئی کم نہیں کہ جب کل آپ امتحان میں حاضر ہورہے ہیں اور یہ آپ کی تیاری کی قیمتی رات ہے اور مسٹر ناگہانی مہمان آپ کے دروازے پر دستک دیتا ہے۔۔۔۔۔۔!
مہمان کا مہمان: ایسے اوقات میں جب آپ کے مہمان کے ساتھ دوسرے مہمان بھی ہوتے ہیں تو آپ کسی دوسرے مہمان کی طرف سے بے حد بے چینی محسوس کرتے ہیں جب تک کہ آپ کو یہ معلوم نہیں ہو جاتا ہے کہ مہمان کا مہمان کتنا اہم ہے ، یہ بھی اس بات پر منحصر ہے کہ بنیادی مہمان کتنا اہم ہے۔ بعض اوقات ساتھی مہمان بنیادی مہمان کے لئے پریشانی پیدا کرتا ہے وہ میزابان کے سامنے اصلی مہمان کی دانستہ یا نادانستہ طور پر راز افشائی کر بیٹھاتا ہے۔کبھی کبھی ساتھی مہمان میزبان کے سامنے اصلی مہمان کے مقابلے میں اپنی برتری ثابت کرنے کی کوشش کرتا۔ اس وقت اصلی مہمان اپنے ساتھ لانے کے اس عمل پر پچھتانے کے بعد توبہ کرتا ہے۔ مہمان میزبان کے لئے بھی بہت ناپسندیدہ ہو جاتا ہے اگر وہ ایک کھوکھلانصیحت خان دانشوربن بیٹھے تو۔ تاہم اس طبقے کے کچھ مہمان میزبان اوراصلی مہمان دونوں کے لئے فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں جب وہ انکے مسائل کے حل میں نئی جہتیں شامل کرتے ہیں۔
سیمابی مہمان: تقریبا تمام قسم کے مہمانوں کا کم و بیش مہمان ہونے کا مقصد ہوتا ہے۔ خونی رشتے کے مہمان اپنے میزبانوں کے آخر رشتہ دار ہیں ، آپ چیلنج نہیں کرسکتے ہیں۔ کم سے کم مہمانوں کو لوگوں کو مدعو کیا جاتا ہے ، چور مہمان اپنی راہ پر گامزن ہیں۔ کیلنڈر مہمان اور سستے مہمان میزبان کی معیشت میں اضافہ کرتے ہیں۔ نام کے مطابق ناگہانی یا اچانک مہمان صرف ہنگامی حالات میں آتے ہیں۔ مہمانوں کے مہمان کا بھی یہی حال ہوسکتا ہے۔لیکن کچھ لوگوں کو ، بعض اوقات مہمان بننے کے مقصد کو سمجھنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ اگرچہ آپ ان سے حکمت عملی کے ساتھ مقصد کے لئے پوچھتے ہیں ، وہ مبہم منطقیں دیں گے ، جیسا کہ انہوں نے گذشتہ رات آپ کو خواب میں دیکھا تھا یا ان کا دماغ اچانک آپ کو دیکھنے کے لئے آپ کے گھر کی طرف لے آیا۔ آپ ان کے طرز عمل کو نہیں سمجھ سکتے۔
پراسرار: ایسے مہمان خود نہیں جانتے کہ وہ آپ کی رہائش گاہ پر کیوں آ پہنچے ، ایک دو دن گزرنے کے بعد وہ خود اعتراف کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنا وقت ضائع کیا ہے۔ یہ مہمان سیمابی یا "مرکری" مہمان کہلائیں گے۔
سوالیہ مہمان: ویسے بھی، مہمانوں کی تمام جماعتیں گھر کے بچوں کے لئے تفریح کا انتظام ثابت ہوتی ہیں۔ بچے مہمانوں کے ساتھ مختلف اقسام کے تفریحات سے لطف اندوز ہوتے ہیں، خاص طور پر اچھی خاص ضیافتوں کا لطف اْٹھانا، کہانیاں اور لطیفے سنناوغیرہ۔ لیکن بچے / طلباء دوسری بار کسی ایسے مہمان کا سامنا کرنے میں بے حد تذبذب کا شکار رہتے ہیں جو ان سے نِصابی سوالات پوچھتا ہے، جیسے کہ ملکِ ارجنٹائنا کا دارالخلافہ کیا ہے یا کمپیوٹر کا موجد کون ہے یا پھر( اے پْلس بی)2پوچھنا۔ ایسے مہمانوں کو سوالیہ مہمان کہا جاتا ہے۔ سوالات کے مہمان بچوں کے والدین کی موجودگی میں سوالات پوچھ کر پریشانی پیدا کرتے ہیں جوبچوں کے لئے نفسیاتی مسائل پیدا کرتے ہیں۔
اختتامیہ: مہمان بنیں اور مہمان کی حیثیت سے ہی برتاؤ کریں۔
ای میل۔[email protected]
موبائل نمبر۔917006551196