ڈاکٹر فیاض فاضلی
ایک زمانے میں ہماری سرزمین کو زمین پر جنت سمجھا جاتا تھا _آج ہمارا معاشرہ کئی قسم کی برائیوں میں مبتلا ہے۔مثلا ًذخیرہ اندوزی، خوراک اور ادویات میں ملاوٹ، ناپ تول میں کمی، ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی کوشش، لوٹ مار، وعدہ خلافی، خیانت، بددیانتی، دھوکہ دہی کے واقعات ،چغل خوری، بہتان، غیبت، رشوت خوری، منشیات کی لت ،عریانیت ، آئے دن سنگین جرائم ، بار بار چوری کے واقعات ، بجلی چورى ، قتل و غارت انجام پا رہے ہیں۔ پوری وادی میں اضطراب اور بے چینی ہے _ ،بے روزگاری اپنے شباب پر ہے اور غذائی قلت بڑھی ہوئی ہے ،لوگ خاص طور پر نوجوان، خواتین خودکشی کررہے ہیں وغیرہ۔ _ ان عمومی حالات سے قطع نظر خود ہمارے معاشرے میں کافی انحطاط آگیا ہے، جس کے نتیجہ میں ماحول پراگندہ ہے اور کافی پریشانیاں بھی پیدا ہوگئی ہیں _۔
سوال یہ ہے کہ معاشرہ ان برائیوں سے کیسے پاک ہو؟ ہمیں آگاہی ہونی چاہیے۔ مہذب معاشرے کی تعمیر میں اخلاقیات ، انفرادی اصلاح ، اِصلاحِ نفس کا کردار کتنا اہم ہے. اس کا ایک اور جواب تو یہ بھی ہے کہ جب تک ہم ہمارے معاشرے میں سماجی تباہی کی بنیادی وجوہات اور ان تمام مسائل کی حقیقی جڑ کیا ہے اور کردار میں اپنی انفرادی یا اجتماعی اخلاقی گراوٹ کی بنیادی وجہ نہیں جانیں گے، ہم اس بیماری کا ازالہ نہیں کر سکتے۔ _ سربراہانِ معاشرہ اپنے کردار کو درست کریں اور صرف ایک برائی کو چھوڑنے کی کوشش کریں تو معاشرہ بتدریج اصلاح کی راہ پر گامزن ہوجائے گا، _ لیکن اس وقت ہم انفرادی سطح پر معاشرہ کی درستگی کے حوالہ سے بات کریں گے کہ ہم صرف اخلاق کی اچھائی سے ہی معاشرے کی اصلاح کرسکتے ہیں، _ ہماری زمین جو اولیاء، رشیوں اور خوف خدا رکھنے والوں کی سر زمین ہے کو ان تمام برائیوں سے پاک کرکے صحیح معنوں میں مہذب معاشرہ بناسکتے ہیں۔ _ حساس لوگ ،اہل قلم ،سول سوسائٹی کے کارکن ، سماجی اصلاح کانظریہ رکھنے والے لوگ معاشرے کے اصولوں کا تعین کرتے ہیں، _ ان کے اپنےفلسفہ میں زیادہ تر علمی ادب ، آداب اور اچھے اخلاق سے منسلک سماج کوایک خوبی کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ ہماری فکری، انفرادی اور اجتماعی سوچ جس بے مہار راستے کی طرف گامزن ہے، اس میں ایک بڑا کردار اہل علم کی ناکامی کا بھی ہے ۔ہمارا معاشرہ جب گروہ بندی اور اہل قلم جب مادیت پسند یا لبرل طاقتوں کے نمائندے بن جائیں تو وہ کبھی بھی کوئی اصلاحی کام نہیں کرسکتے کیونکہ معاشرے محض انتظامی معاملات سے نہیں سدھارا جاسکتے ہیں بلکہ اسے بہتر بنانے کیلئے فکری اصلاح کی ضرورت ہوتی ہے۔ _ یہ فکری انقلاب ادیب اور اہل علم وقلم اپنے قلم اور کتاب سے ادا کرتے ہیں، _ جس پریشانی میں ہمارا سماج گھرا ہوا ہے اس کی نجات میں اصلاحی ادب کا بھی اہم کردار ہے۔ _ ایسی تحریریں لکھی جائیں جو قانون ملک اوراحترام،مذہبی وثقافتی تنوع کے دائرے کے اندر رہتے کردار کی تعمیر اور سوچ کے مفاد میں ہو، _ انسانی اقدار کی ترجمان ہو اور پڑھنے والے کو محبت اور سلامتی کا پیغام دینےکےساتھ اس کو عمل کی طرف لے کرجائیں ، ادب انفرادی اور اجتماعی دونوں کیلئے تربیت گاہ ہے _ جہاں سے افراد نکھر کر نکلتے ہیں _۔
معاشرے میں اخلاقی گراوٹ۔ اسباب اور علاج!
ادب معاشرے کی اصلاح کرتا ہے _ کردار سازی کے لیے پہلی اور سب سے اہم تربیت خود گھر سے ہوتی ہے _۔
والدین کے ذمے داری ہے کہ اولاد کے عادات و اطوار اور ان کی مصروفیات کی نگرانی کریں _۔اچھے اخلاق کے حصول کےلیے ان کے دلوں میں ایمان اوراللہ اور اس کے رسولؐ کی محبت کا بیج بوئیں ، بالخصوص ان کے فارغ اوقات کی نگرانی کریں اور ان اوقات کو مفید طریقے سےاستعمال میں لانے کے لیے مفید مصروفیات کا اہتمام کریں۔ _ انہیں اچھا لٹریچر فراہم کریں تاکہ وہ گندے اور اخلاق سوز ادب سے محفوظ رہ سکیں ۔والدین پر یہ بڑی ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اولاد کو خیر سکھائیں _ ،اخلاق کی بنیادی باتیں ان کے دل و دماغ میں راسخ کریں، _ بچپن ہی سے انہیں سچائی ، امانت، استقامت، ایثار ،پریشانیوں میں گھرے لوگوں کی مدد، بڑوں کا احترام ، مہمانوں کا احترام ، پڑوسیوں کے ساتھ احسان اور دوسروں کے ساتھ محبت کے ساتھ پیش آنے کا عادی بنائیں۔ _ تربیت دینے والے حضرات اس بات کے بھی ذمہ دار ہیں کہ بچوں کی زبان کو گالی گلوچ ، براکہنے، گندے کلمات اداکرنے اور اس طرح کی تمام چیزوں سے دور رکھیں کیونکہ یہ چیزیں اخلاق کی خرابی کا سبب بنتی ہیں ۔ بزرگوں اور والدین کے لیے احترام کرنا سکھائیں _ ،والدین اس بات کے بھی ذمے دار ہیں کہ بچوں میں انسانی احساسات کا شعور بیدار کریں ،انہیں نفسوں کی پاکیزگی کى تعلیم دیں _ مثلاً یتیموں کے ساتھ احسان کرنا، فقراء کے ساتھ اچھا سلوک کرنا، بیواؤں اور مسکینوں پر شفقت کرنا ، ان سے ہمدردی کرنا سکھائیں وغیرہ _اور اوقات کی حفاظت کے ساتھ ساتھ علم و دین کو پڑھنا اور زندگی کے تمام شعبوں میں نافذ کرنا سکھائیں _۔قرآن کریم کا پڑھنا اور اس کے مفہوم و مطلب کے سمجھنے سے نورکے چشمے ان کے دلوں میں جاری ہونے کا سبب بنتا ہے _ نبی کریمؐ نے فرمایا:’مومن طعنہ دینے والا ہوتاہے ، نہ لعن طعن کرنے والا ، فحش گوہوتا ہے اور نہ گندی بے ہودہ باتیں کرنے والا۔‘‘(ترمذی)
سب سے پہلے جو چیز قابل توجہ ہے وہ والدین کے ساتھ اولاد کا برتائو ہے۔ _ ان کی خدمت اور حقوق سے بے _ اعتناعی و لاپروائی قابل فکر و نظر ہے۔ _ علاوہ ازیں صلہ رحمی کا فقدان ، اعزاء میں بےاتحاد ، یگانگت اور خلوص کے بجائے بغض و عناد ، منافرت اور غیبت کا دوره دورہ ، ہمیں اس کی نہ کوئی فکر ہے اور نہ وقت کہ ہم اس پر غور کریں ۔ یہ تمام باتیں قرآن و حدیث و سیرت پیغمبرؐ و آلِ پیغمبرؐ کے خلاف ہیں ،لہٰذا یہ گناہ بھی ہیں ، ہماری پریشانیوں کا سبب بھی ہیں اور معاشرہ میں انتشار اور زوال کا سبب بھی _ ۔یقینا ًیہ حالات عمائدین و قائدین ملت ،سماجی کارکن ، مذہبی اسکالرز کی فوری توجہ کے مستحق ہیں _ ۔اسکولوں کو سماج کارى کا مرکز سمجھا جاتا ہے اور معاشرے کے ایک ایجنٹ کے طور پر ان کا بنیادی کام بچوں کو اس کی سمجھ فراہم کرنا ہے _۔
بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ ہماری موجودہ نسلیں تعلیم و تعلّم سے دور ہوگئی ہیں اور مزید دور ہوتی جارہی ہیں۔ اگر تعلیم کی طرف کچھ لوگوں کی توجہ ہے بھی تو یہ انہماک نسبتاً بہت کم ہے _ اور ان کی تعلیم کی رسائی ان علوم تک نہیں ہے جو اُن کو اعلیٰ درجہ کی خاطر خواہ ملازمت یا عزت سے پرسکون زندگی بسر کرنے کے لئے روٹی کپڑا اور مکان فراہم کرسکے۔ _اس کا ایک لازمی مگر افسوسناک نتیجہ یہ ہے کہ یہ نسلیں دنیاوی تگ و دو اور اُلجھنوں میں گرفتار ہوکر مذہبی (قرآن و حدیث) اور اخلاقی تعلیم تو دور اُن کے ترجمہ اور معانی و مفاہیم نیز ان میں بیان کی ہوئی تعلیمات سے بھی نابلد ہوتی جارہی ہیں ۔ایک زمانے میں ہمارے جید اور عظیم علماء کی مجالس علم و عمل کے حصول کیلئے اور ایک قابل رشک معاشرہ کی تعمیر کے لئے بہترین درسگاہیں تھیں ۔ لیکن اب ان کے بارے میں کچھ لکھنا شاید مناسب نہ ہو _۔ یہاں بس اتنا لکھ دینا کافی ہے کہ معاشرہ کی ترقی اور اسے سکون بخش بنانے کے لئے وہ ایک اہم ترین ذریعہ ہیں، _ جس پر انہیں توجہ دینے کی سخت ضرورت ہے _۔
اصلاحِ معاشرہ کے دواہم کردار ہیں : 1۔انفرادی اصلاح ،2۔اصلاحِ نفس
معاشرتی اصلاح اور فلاح کا ضامن ، مضبوط ومستحکم معاشرہ کا سچّا منتظر وہ ہے جو صرف اپنی اصلاح پر اکتفا نہ کرے بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ دوسروں کی بھی اصلاح کی فکر کرے _،کیونکہ جس اخلاقی اور کرداری انقلاب کا ہم خواب دیکھ رہے ہیں، انتظار کررہےہیں، اس میں صرف جزوی اصلاحات نہیںہوں گی بلکہ سماج کے سبھی افراد اس میں برابر کے شریک ہوں گے، _ لہٰذا سب مل کر کردار اور ذمہ داریوں کے بارے میں آگاہی کریں۔ _ ایک دوسرے کے شریک رہیں اور شانے سے شانہ ملاتے ہوئے معاشرہ کی راہ پر کوشش کرتے رہیں _۔
جب کام سب مل کر انجام دے رہے ہوں تو اس میں کوئی ایک دوسرے سے غافل نہیں رہ سکتا، _ بلکہ ہر ایک کا فریضہ ہے کہ دوسروں کا بھی خیال رکھے۔ اطراف و جوانب کا بھی علم رکھتا ہو، _ جہاں پر کوئی معمولی سی کمزوری نظر آئے، فوراً اس کی اصلاح کرے، _ کوئی کمی ہو تو فوراً اس کو پورا کیا جائے۔ بدیہی بات ہے اپنی اصلاح یا دوسروں کی اصلاح ، انفرادی زندگی کے ساتھ حیات اجتماعی کو بھی سنوارنا کس قدر دشوار گذار مرحلہ ہے۔ _ ان مراحل میں وہی ثابت قدم رہ سکتا ہے جو عزم و عمل کا شاہکار ہو ، جس کے قدم ثبات و استقلال کی آپ اپنی مثال ہو۔ _ یہ بھی حقیقت ہے کہ حقیقت وسچائی سے عاری ادیب قطعی کھوکھلا ، بے اثر ، بے معنی اور اخلاقی قدروں کو پامال کرنے والا ہوتا ہے۔ _ ہمیں تاریکیوں اور غیروں سے ڈرانے والے ادب کی ضرورت نہیں ہے بلکہ وہ ادب چاہئے جو ہمیں بتائے کہ قومیں صرف مضبوط ذہنی حصار، اپنی اخلاقی اقدار اور اپنے مضبوط فکری نظریات کے بل بوتے پر جیتی اور آگے بڑھتی ہیں۔ _ ہمارا ادب صرف عشق ومعشوقی، رقیبوں کی جھونک، دل جلوں کے طعنوں ، ترک تعلق ، اُجڑے نگر ، ناکام حسرتوں کا نام نہیں بلکہ حلقہ موج وتلاطم اور شبستان سحر ، غفاری و قہاری کا درس دینے والا ہے۔ _ معاشرے اورقوم کی اصلاح کیلئے ایسے ادارے ضرور ہونے چاہئے جو اصلاح وفساد کا تعین کریں ، بہترین تدابیر دیں اور دینی نقطہ نظر سے جس کو امر بالمعروف نہی عن المنکر کہہ سکتے ہیں، _ ایسے افراد سامنے آئیں جو مختلف اداروں ، شعبوں اور افراد کو راست بازی ، انصاف ، حق پسندی ، سچائی ، امانت ودیانت اور خلوص کا سبق دیں۔ جب معاشرے میں نیکی اور اصلاحی عمل کا دخل زیادہ ہوگا تو لوگ بگاڑ کی طرف جانے سے پہلے کئی مرتبہ سوچیں گے۔ _اگر کالم نگار اپنے مضامین کے ذریعے اچھے رجحانات کو ترجیح دینے کی کوشش کرے گا تو ایک دن اس کی کوشش ضرور رنگ دکھائے گی _۔اسی بنا پر جہاں ہر انتظار کرنے والے کا یہ فریضہ ہے کہ خود کی اصلاح کرے، کردار کے جوہر سے آراستہ ہو، _ وہاں اس کا یہ بھی فریضہ ہے کہ دوسروں کی بھی اصلاح کرے اور سماج میں اخلاقی قدروں کو اُجاگر کرے۔ _
([email protected] اور twitter@drfiazfazili پر رابطہ کیا جا سکتا ہے)