سہیل انجم
بلا شبہ دنیا میں سب سے مشکل کام اپنی اصلاح ہے اور سب سے آسان کام دوسروں کی نکتہ چینی۔حالانکہ ہماری چند روزہ مستعار زندگی کا وہ حصہ جو دنیا کی چہل پہل سے علاحیدہ صَرف ہوتا ہے بصیرت کے نئے نئے باب کھول دیتا ہے۔مصیبتیں بظاہر زخم ہیں مگر در حقیقت ترقیوں کا موجب ہیں،سلامتی اور عافیت اس میں ہے کہ دنیا سے بقدر ضرورت تعلق رکھا جائے۔خیر !اس دنیا کبھی کبھی کچھ واقعات اتنی جلد آگے پیچھے رونما ہو جاتے ہیں کہ انسانی عقل ششدر رہ جاتی ہے۔حالیہ حالات کا ہی جائزہ لیں اور پھر غور کریں، کیا کسی نے سوچا تھا کہ سہارنپور، کانپور یا الہ آباد میں ہونے والے مبینہ پتھراؤ کا اعادہ اتنی سرعت کے ساتھ اور ملک گیر پیمانے پر ہو جائے گا۔ پہلے والے جمعہ کو تو صرف پتھراؤ ہوا یا بعض مقامات پر ہلکی پھلکی آتش زنی ہوئی تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ راز ابھی تک منکشف نہیں ہوا کہ ان پُرتشدد واقعات کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا۔ لیکن اگلا جمعہ آنے سے ایک روز پہلے ہی پورے ملک میں آگ لگ گئی، لاتعداد ٹرینیں پھونک دی گئیں، پولیس چوکیاں جلا دی گئیں، بی جے پی دفاتر کو آگ کے حوالے کر دیا گیا۔ بسوں، ٹرکوں اور نقل و حمل کے دیگر ذرائع راکھ کے ڈھیر بنا دیئے گئے۔ اور یہ سب صرف اُترپردیش میں نہیں ہوا، جہاں مسلمانوں کی نام نہاد غیر قانونی تعمیرات بلڈوز کی گئیں بلکہ پورے ملک میں ہوا۔ یوپی حکومت پہلے والے جمعہ یعنی دس جون کو ہونے والے مبینہ تشدد میں سرکاری املاک کے نقصان کا اندازہ لگا رہی تھی تاکہ مسلمانوں سے اس کی بھرپائی کی جا سکے۔ وہ تشدد میں ملوث مبینہ مسلمانوں کی تصاویر کا پوسٹر بنا کر ہورڈنگس آویزاں کرنے کی تیاری کر رہی تھی اور کوئی تعجب نہیں کہ اس ہنگامے کے فرو ہونے کے بعد ہورڈنگس آویزاں کر دی جائیں۔ اب ہم امید کرتے ہیں کہ یوپی حکومت ممکنہ اَگنی ویروں کے ہاتھوں ہونے والی تباہی اور نقصان کا اندازہ لگا رہی ہوگی اور اُن کی بھی تصاویر حاصل کرکے ہورڈنگس بنائی جا رہی ہوں گی۔ اگنی پتھ اسکیم کے خلاف ہونے والے تشدد کے سلسلے میں کئی نظریات سامنے آئے ہیں۔ جن میں طاقتور نظریہ یہ ہے کہ قدرت بعض اوقات انسانی ہاتھوں سے کی جانے والی ناانصافی اور بے قصوروں پر کیے جانے والے ظلم کا حساب آناً فاناً لے لیتی ہے۔ وہ اس کا انتظار نہیں کرتی کہ انسانی مظالم کی سزا انسانی قانون ہی دے۔ قدرت کے اپنے بھی تو قوانین ہیں اور وہ قوانین انسانی قوانین سے کہیں زیادہ مبنی برانصاف اور حقیقت پسند ہیں۔ ہاں کبھی کبھار قدرت رسی دراز کرتی جاتی اور ڈھیل دیتی جاتی ہے۔ وہ دیکھنا چاہتی ہے کہ آخر یہ اشرف المخلوقات ،ارذل المخلوقات کی سطح پر کتنی دیر میں پہنچتا ہے، لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔ ویسے دانا و بینا کہہ گئے ہیں کہ اوپر والے کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں ہے یا قدرت کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔
ایک واقعہ ملاحظہ فرمائیں۔ معروف عالم دین اور خطیب قاری محمد حنیف نے اپنی ایک تقریر میں حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی اور آنے والے طوفان پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب کشتی تیار ہو گئی تو اللہ اور اس کے نبیؑ کے نافرمانوں نے دشمنی میں تمام حدود کو تجاوز کرتے ہوئے کشتی میں اجابت کرنی شروع کر دی اور اس ’کار خیر‘ میں پوری بستی اور بستی کے تمام لوگ شامل ہو گئے۔ یہاں تک کہ کشتی فضلات سے بھر گئی۔ حضرت نوح ؑنے اللہ سے گڑگڑا کر فریاد کی۔ اللہ نے کہا کہ تم دیکھتے جاؤ میں اس کشتی کو انہی لوگوں سے صاف کراؤں گا۔ اسی درمیان اللہ نے نافرمانوں پر خارش کا عذاب نازل کر دیا۔ اب ہر شخص کھجلا رہا ہے، نہ بڑے کا ادب نہ چھوٹے کا لحاظ۔ جو جہاں ہے وہی کھجلا رہا ہے۔ اُدھر جب کشتی گندگی سے لبالب بھر گئی تو ایک معمر شخص بھی اس میں رفع حاجت کے لیے گیا، اس کا پیر پھسل گیا، وہ گندگی سے بھری کشتی میں گر گیا، اس کا پورا جسم پاخانے میں نہا گیا۔ لیکن اسی درمیان ا س نے محسوس کیا کہ اس کی خارش ختم ہو گئی ہے۔ بس پھر کیا تھا۔ اُس نے بستی والوں کو آواز دی اور اعلان کیا کہ جلدی آؤ خارش کی دوا مل گئی ہے۔ اب تو پوری بستی ٹوٹ پڑی۔ ہر شخص گندگی اُٹھا اُٹھا کر اپنے جسم پر مل رہا ہے۔ قاری حنیف نے بڑے دلچسپ انداز میں بیان کرتے ہوئے کہا کہ لوگ برتنوں میں بھر بھر کر لے جانے لگے۔ اپنے لیے بھی، اپنے اہل و عیال کے لیے بھی اور اپنے بوڑھے والدین کے لیے بھی۔ جب کشتی صاف ہو گئی تو اس کو دھو دھو کر پیا گیا۔ اس طرح اللہ نے ان کے کرتوت کی صفائی انہی سے کروائی۔ تو قدرت کبھی کبھی ایسے کرشمے بھی دکھاتی ہے جن میں ہمارے لیے سبق پوشیدہ ہوتا ہے۔ بہرحال ہم یہ تو نہیں کہتے کہ اگنی پتھ اسکیم نے خارش کا علاج کر دیا لیکن بلڈوزر کارروائی کے فوراً بعد اگنی پتھ اسکیم کے بہانے پورے ملک میں آگ لگ جانا شاید کسی جانب اشارہ کرتا ہے۔ قابل غور بات یہ بھی ہے کہ حکومت نے ہی نادانستہ طور پر اس طوفان کا سبب پیدا کیا ہے۔ ہم اس اسکیم پر کوئی تبصرہ نہیں کریں گے کیونکہ ہم اس کے اہل نہیں۔ لیکن پوری دنیا دیکھ رہی ہے کہ کس طرح اس کی مخالفت ہو رہی ہے اور کیسے پورے ملک میں آگ اور راکھ کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔
البتہ ذہن میں یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ کیا اس ملک میں واقعی قانون و انصاف کے دو پیمانے ہیں۔ مسلمانوں کے لیے الگ اور دوسروں کے لیے الگ۔ ایک معمولی قسم کے احتجاج کے دوران مظاہرین پر براہ راست گولیاں چلانا، یہاں تک کہ جھارکھنڈ میں ایک نوجوان کو چھ چھ گولیاں لگیں اور اس سے کہیں بڑے بلکہ بہت بڑے احتجاج کے دوران خاموش رہنا اور ایک پولیس افسر کا یہ کہنا کہ یہ ہمارے ہی بچے ہیں، ان کو سمجھانے کی ضرورت ہے اور سمجھایا جا رہا ہے، سوال تو کھڑے کرتا ہے۔ اس سوال کے دائرے میں صرف یوپی کی حکومت اور اس کی پولیس نہیں آرہی بلکہ پورے ملک کی پولیس اور مرکزی حکومت بھی آر ہی ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ بنارس کے پولیس کمشنر نے یہ کہہ کر یہ تو ہمارے ہی بچے ہیں باہر سے نہیں آئے ہیں ،اس نظریے کو تقویت پہنچائی ہے کہ ہندوستان میں مسلمان اب عملاً دو نمبر کا شہری ہو گیا ہے۔ وہ باہر سے آیا ہے اور اس کے بچے یہاں کے بچے نہیں ہیں۔ گو کہ وہ سب سے بڑی اقلیت ہے لیکن ہے تو اقلیت۔ اس میں اتنی جرأت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ اکثریت کا مقابلہ کرے یا اپنے ساتھ اسی سلوک کی خواہش کرے جو اکثریت کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے۔ یہ نظریہ درست بھی ہو سکتا ہے اور نادرست بھی۔ ممکن ہے کہ مذکورہ پولیس کمشنر کا یہ بیان استثنا ہو۔ اس بارے میں ہمیں کچھ نہیں معلوم۔ ہم نے تو وہی باتیں درج کی ہیں جو زبانِ خلق پر ہیں۔ اور لوگ کہتے ہیں کہ زبانِ خلق کو نقارۂ خدا سمجھو۔ بہرحال اس وقت ملک کا نوجوان مشتعل ہے۔ بالخصوص فوج میں بھرتی ہونے کے خواہشمند نوجوانوں میں مایوسی اور غصہ ہے اور وہ اپنا غصہ تشدد کی شکل میں نکال رہے ہیں۔ ہم پوری قوت کے ساتھ کہنا چاہیں گے کہ مہذب سماج میں تشدد کی کوئی گنجاش نہیں ہے۔ خواہ کوئی بھی کرے۔ مسلمان کرے، غیر مسلم کرے، عوام کریں یا حکومت و انتظامیہ کرے۔