مڑواہ کا قدرتی تتہ پانی چشمہ انتظامہ کی عدم توجہی کا شکار

کشتواڑ//ضلع  ہیڈکواٹر سے ڈیڑھ سو کلومیٹردوری پر واقع دورافتارہ علاقہ مڑواہ کے رنئی علاقہ میں واقعہ قدرتی تتہ پانی چشمہ انتظامیہ کی عدم توجہی کا شکار ہے جسکے سبب یہاں ہرسال آنے والے ہزاروں سیاح مشکلات سے دوچار ہوتے ہیں۔ جہاں یہ علاقے اپنی خوبصورتی کیلئے مشہور ہے وہیں اس علاقہ میں قدرتی تتہ پانی کا چشمہ بھی موجود ہے۔ تحصیل صدر مقامات سے پندرہ کلومیٹردوری پر واقع رنئی علاقہ کے آخری گائوں میں تتنہ پانی کا قدرتی چشمہ موجود ہے جو چاروں اطراف سے سرسبز جنگلات سے گھراہوا ہے جبکہ یہ چشمہ دریائے مہدوسدھر کے بالکل قریب ہے۔ اسکی خاصیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جموں کشمیر و ملک کے دیگر حصوں سے لوگ اس چشمہ میں اپنی بیماریوں کو ٹھیک کرنے کیلئے آتے ہیں۔کشمیر عظمیٰ کی ٹیم نیس جب اس علاقہ کا دورہ کیا تو یہاں آئے سیاحوں ،بیماروں و مقامی لوگوں نے بتایا  کہ کس طرح علاقہ انتظامیہ کی عدم توجہی کا شکار ہے اور آج تک یہاں کی تعمیر و ترقی صرف بیان بازی تک ہی محدود رہی جبکہ یہاں کا رخ کرنے والے لوگوں کے بیٹھنے کیلئے انتظامیہ نے کوئی معقول انتظام نہیں کیا ،اگر انتظامیہ اس علاقہ کی طرف توجہ دیتی تو یہاں آنے والے سیاحوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوجاتا جبکہ مقامی لوگوں کے روزگار میں بھی اضافہ ہوتا۔رنئی کے مقامی شخص بشیر احمد نے بتایا کہ اگر انتظامیہ یہاں بیٹھنے کیلئے کوئی انتظات کرتی تو یہاں کے بیروزگار نوجوانوں کو بھی یہیں روزگار ملتا۔انھوں نے انتظامیہ سے ہر ممکن سہولیات علاقہ کو فراہم کرنے کی مانگ کی۔اننت ناگ سے تعلق رکھنے ولاے منظور احمد نے بتایا گزشتہ دس سال سے اپنے گھروالوں کو لیکر تتہ پانی آتے ہیں اور کئی ہفتوں تک یہاں عارضی خیموں میں قیام کرتے ہیں ،اگرچہ یہاں مقامی لوگوں نے ہوٹل تعمیر کئے ہیں لیکن انکی قیمت آسمان کو چھوتی ہے،اگر یہاں انتظامیہ ہوٹل و دیگر چیزیں بناتی تو لوگوں کو سہولیت پہنچتی ۔انھوں نے کہا کہ ان برسوں میں انھوں نے یہاں کے حالات بالکل یکساں دیکھے جبکہ یہاں تعمیر و ترقی نہ کے برابر ہے ۔ اپنے بزرگ والد کو وہ کاندھوں پر اٹھاکر کرلاتے ہیں جبکہ یہاں تک پہنچنے کیلئے آج تک سڑک بھی تعمیر نہ ہوسکی۔ اگر سڑک تعمیر ہوتی تو لوگوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا اور لوگ اس علاقے کا رخ کرتے۔ انھوں نے انتظامیہ سے اس علاقہ کی طرف توجہ مرکوز کرنے کی اپیل کی۔