موہن داس کرم چند گاندھی سے مہاتما گاندھی تک کا سفر شخصیات

خان محمد یاسر اشرف خان

2اکتوبر، 1869ء کو گجرات کے پور بندر کے مقام پر موہن داس کرم چند گاندھی کی پیدائش ہوئی۔ ان کے والد کرم چند گاندھی (1822ء-1885ء) ہندو مودھ فرقہ سے تھے اور ریاست پوربندر کے دیوان تھے۔ ان کی ماں کا نام پْتلی بائی تھا، جو ہندو پرنامی ویشنو فرقہ سے تعلق رکھتی تھیں وہ کرم چند کی چوتھی بیوی تھی۔ ان کے والد کرم چند گاندھی ہندو مودھ برادری سے تعلق رکھتے تھے اور انگریزوں کے زیر تسلط والے بھارت کے امییواڑ ایجنسی میں ایک چھوٹی سی ریاست پوربندر صوبے کے دیوان یعنی وزیر اعظم تھے۔ ان کے دادا کا نام اْتّم چند گاندھی تھا جو اتّا گاندھی سے بھی مشہور تھے۔ پرنامی ویشنو ہندو برادری کی ان کی ماں پتلی بائی کرم چند کی چوتھی بیوی تھی، ان کی پہلی تین بیویاں زچگی کے وقت مر گئی تھیں۔عقیدت کرنے والی ماں کی دیکھ بھال اور اس علاقے کی جین برادری کی وجہ سے نوجوان موہن داس پر ابتدائی اثرات جلد ہی پڑ گئے جو ان کی زندگی میں اہم کردار ادا کرنے والے تھے۔ ان اثرات میں کمزوروں میں جوش کا جذبہ، سبزی خواری کی زندگی، روح کی پاکیزگی کے لیے بپوبس اور مختلف ذاتوں کے لوگوں کے درمیان میں رواداری شامل تھیں۔بھارت کے سیاسی اور روحانی رہنما اور آزادی کی تحریک کے اہم ترین کردار تھے۔ انہوں نے ستیہ گرہ اور اہنسا (عدم تشدد) کو اپنا ہتھیار بنایا۔ ستیہ گرہ، ظلم کے خلاف عوامی سطح پر منظم سول نافرمانی ہے جو عدم تشدد پر مبنی ہے۔ یہ طریقئہ کار ہندوستان کی آزادی کی وجہ بنی۔ اور ساری دنیا کے لیے حقوق انسانی اور آزادی کی تحاریک کے لیے روح رواں ثابت ہوئی۔ بھارت میں انھیں احترام سے مہاتما گاندھی اور باپو کہا جاتا ہے۔ بھارت میں وہبابائے قوم(راشٹر پتا) کے نام سے بھی مشہور ہیں۔ گاندھی کی یوم پیدائش (گاندھی جینتی) بھارت میں قومی تعطیل کا درجہ رکھتا ہے ا ور دنیا بھر میں یوم عدم تشدد کی طور پر منایا جاتا ہے۔مئی، 1883ء میں جب وہ 13 سال کے تھے تب ان کی شادی 14 سال کی کستوربائی ما کھنجی کپاڈیا سے کر دی گئی جن کا پہلا نام چھوٹا کرکے کستوربا کر دیا گیا تھا اور اسے لوگ پیار سے با کہتے تھے۔ یہ شادی ایک منظم کم سنی کی شادی تھی جو اس وقت اس علاقے میں عام تھی۔ اس علاقے میں وہاں یہی رسم تھی کہ نابالغ دلہن کو اپنے ماں باپ کے گھر اور اپنے شوہر سے الگ زیادہ وقت تک رہنا پڑتا تھا۔ 1885ء میں جب گاندھی جی 15 سال کے تھے تب ان کی پہلی اولاد کی پیدائش ہوئی لیکن وہ صرف کچھ دن ہی زندہ رہی اور اسی سال کے شروعات میں گاندھی جی کے والد کرم چند گاھی بھی چل بسے۔موہن داس اور کستوربا کے چار اولاد ہوئیں جو تمام بیٹے تھے – ہری لال 1888ء میں، منی لال 1892ء میں، رام داس، 1897ء میں اور دیوداس 1900ء میں پیدا ہوئے۔ پوربندرمیں ان کے مڈل سکول اور راجکوٹ میں ان کے ہائی سکول دونوں میں ہی تعلیمی سطح پر گاندھی جی ایک اوسط طالب علم رہے۔ انہوں نے اپنا میٹرک کا امتحان بداؤنگر گجرات کے سملداس کالج سے کچھ پریشانیوں کے ساتھ پاس کیا اور جب تک وہ وہاں رہے ناخوش ہی رہے کیونکہ ان کا خاندان انہیں بیرسٹر بنانا چاہتا تھا۔موہن داس اس وقت باغیانہ ذہنیت کے حامل تھے۔ خاندان کی روایت کے برخلاف انھوں نے شراب نوشی اور گوشت خوری جیسی ’ممنوعہ‘ چیزیں کیں۔
تاہم اس عمر میں بھی ان میں اپنے آپ کو بہتر بنانے کی خواہش تھی۔ ہر اس کام کے بعد جو ان کی نظر میں گناہ تھا وہ کفارہ کرتے تھے۔ انھوں نے اپنی کتاب ‘سچائی کا پریوگ’ یعنی سچائی کے تجربات میں اسے تفصیل سے بیان کیا ہے۔جب ان کے والد بستر مرگ پر تھے تو موہن داس انھیں چھوڑ کر اپنی بیوی کے پاس چلے گئے اور اسی وقت ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ اس واقعے کے بعد گاندھی کو اپنے طرز عمل پر بہت افسوس ہوا۔اپنے والد کی موت کے وقت ان کے قریب نہیں ہونے کے متعلق گاندھی نے کہا تھا: ‘میں بہت شرمندہ تھا اور خود کو بدقسمت سمجھتا تھا۔ میں اپنے والد کے کمرے کی طرف بھاگا۔ جب میں نے انھیں دیکھا تو سوچا کہ اگر مجھ پر جنسی ہوس حاوی نہ ہوتی تو وہ میرے بازوؤں میں دم توڑتے۔پہلے بچے کی پیدائش کے کچھ ہی دنوں بعد اس کی موت کو گاندھی اپنے گناہوں کی سزا سمجھتے تھے۔موہن داس گاندھی بمبئی کے بھاؤ نگر کالج میں زیر تعلیم تھے لیکن وہ وہاں خوش نہیں تھے۔ اسی زمانے میں انھیں مشہور انٹرٹیمپل میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے لندن جانے کی پیش کش ہوئی۔اہل خانہ کے عمائدین نے موہن داس کو سمجھایا کہ بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے لیے جانے پر انھیں برادری سے خارج کردیا جائے گا۔ لیکن بزرگوں کے اعتراض کو نظر انداز کرتے ہوئے گاندھی تعلیم کے حصول کیلئے لندن چلے گئے۔لندن میں گاندھی مکمل طور پر مغربی رنگوں میں رنگ گئے تھے۔ تاہم اس وقت لندن میں جاری سبزی خور تحریک میں انھیں اپنے لیے بھائی چارہ نظر آیا تو وہ اس میں شامل ہوگئے۔اس کے ساتھ لندن کی تھیوسوفیکل سوسائٹی سے انھیں اپنے بچپن کی ہندو عقائد کی جانب لوٹنے کی ترغیب ملی جو انھیں ان کی والدہ نے سکھائی تھیں۔ سبزی خوری، شراب سے توبہ اور جنسی تعلقات سے دوری کے بعد ایک بار پھر وہ اپنی جڑوں کی طرف لوٹنے لگے۔تھیوسوفیکل سوسائٹی کے اثرات کے تحت انھیں اپنے عالمگیر اخوت کے نظریے کی تشکیل میں مدد ملی جس میں تمام انسانوں اور مذاہب کی پیروی کرنے والوں کو مساوی حیثیت دینا ان کا خواب تھا۔قانون کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد موہن داس گاندھی ہندوستان واپس آئے اور وکالت شروع کر دی۔ وہ اپنا پہلا کیس ہار گئے۔ اس دوران انھیں ایک انگریزی افسر کے گھر سے باہر نکال دیا گیا۔اس واقعے سے بہت ذلت محسوس کرنے والے گاندھی کو جنوبی افریقہ میں کام کرنے کی پیش کش ہوئی جسے انھوں نے فوراً قبول کرلیا۔جنوبی افریقہ میں جب وہ ٹرین کے فرسٹ کلاس کمپارٹمنٹ میں سفر کررہے تھے تو گاندھی کو ایک انگریز نے ان کے سامان کے ساتھ ڈبے سے باہر پھنکوا دیا۔
جنوبی افریقہ میں مقیم ہندوستانیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے خلاف انھوں نے انڈین کانگریس قائم کی اور نٹال میں ہندوستانیوں کو معاشرے سے علیحدہ رکھنے کے خلاف جدوجہد شروع کر دی۔جنوبی افریقہ میں ہندوستانیوں کے حقوق کی اس جدوجہد کے دوران ہی گاندھی نے تزکیہ ذات اور ستیہ گرہ جیسے اصولوں کے ساتھ تجربہ کرنا شروع کیا تھا جو ان کے عدم تشدد کے وسیع تر خیال کا حصہ تھے۔اسی دوران گاندھی نے برہم چاریہ یعنی پاک صاف اور جنسی عمل سے دور رہنے کا عہد کیا اور سفید دھوتی پہننا شروع کی جسے ہندو روایت میں غم کا لباس کہا جاتا ہے۔
1913 میں گاندھی نے جنوبی افریقہ میں مقیم ہندوستانیوں پر عائد تین پاؤنڈ ٹیکس کے خلاف تحریک شروع کی۔اس تحریک کے دوران پہلی بار گاندھی نے جنوبی افریقہ میں کام کرنے والے ہندوستانی مزدوروں، کان کنوں اور زرعی مزدوروں کو متحد کیا اور ان کے رہنما بن گئے۔گذشتہ کئی برسوں کی اپنی جدوجہد کی مدد سے گاندھی نے 2221 افراد کے ساتھ نٹال سے ٹرانسوال تک احتجاجی مارچ کا فیصلہ کیا۔اسے انھوں نے آخری سول نافرمانی کا نام دیا۔ اس سفر کے دوران گاندھی کو گرفتار کر لیا گیا اور انھیں نو ماہ قید کی سزا سنائی گئی۔
تاہم ان کی شروع کردہ ہڑتال اور پھیل گئی۔ جس کے بعد جنوبی افریقہ کی برطانوی حکومت کو ہندوستانیوں پر عائد ٹیکس واپس لینا پڑا اور گاندھی کو جیل سے رہا کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔جنوبی افریقہ میں برطانوی حکومت کے خلاف گاندھی کی اس فتح کی انگلینڈ کے اخبارات نے زبردست تشہیر کی۔ اس کامیابی کے بعد گاندھی بین الاقوامی سطح پر مشہور ہوئے۔جنوبی افریقہ میں اپنی تحریک کی کامیابی کے بعد گاندھی ایک فاتح کے طور پر وطن واپس آئے۔ ہندوستان آنے کے بعد گاندھی اور کستوربا نے فیصلہ کیا کہ وہ ریل کے تیسرے درجے میں پورے ہندوستان کا سفر کریں گے۔ہندوستان کے اس دورے کے دوران گاندھی کو شدید صدمہ اس وقت پہنچا جب انھوں نے اپنے ملک کی غربت اور آبادی کو دیکھا۔ اس دوران گاندھی نے برطانوی حکومت کے نئے جابرانہ قانون رولٹ ایکٹ کی مخالفت کا اعلان کیا۔اس قانون کے تحت حکومت کو یہ طاقت حاصل تھی کہ وہ کسی بھی شہری کو شدت پسندی کے شبہے میں گرفتار اور قید کرسکتی ہے۔گاندھی کے کہنے پر ملک گیر سطح پر ہزاروں افراد اس قانون کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔
گاندھی اب اپنی روز افزوں مقبولیت کی وجہ سے انڈین نیشنل کانگریس کا نمایاں چہرہ بن گئے۔ وہ برطانیہ سے ہندوستان کی آزادی کی تحریک کے رہنما بھی بنے۔جدوجہد کے لئے مہاتما گاندھی نے انڈین نیشنل کانگریس کو عوام میں ایک مقبول پارٹی بنا دیا۔ اس سے پہلے کانگریس امیر ہندوستانیوں کا ایک گروہ ہوا کرتی تھی۔گاندھی نے مذہبی رواداری اور تمام مذاہب کی آزادی کی بنیاد پر ہندوستان کی آزادی کا مطالبہ کیا۔ گاندھی کی عدم تشدد کی تحریک کی اپیل پر ہندوستانی معاشرے کے تمام تر طبقات اور مذاہب کی حمایت ملنا شروع ہوگئی۔انھوں نے برطانوی حکومت کے خلاف عدم تعاون کی تحریک کا آغاز کیا۔ گاندھی کی اپیل پر ہندوستان کے لوگوں نے برطانوی سامان کا بائیکاٹ کرنا شروع کردیا۔اس کے جواب میں برطانوی حکومت نے گاندھی کو غداری کے الزام میں گرفتار کیا اور انھیں دو سال تک جیل میں رکھا گیا۔
:1930 آزادی کیلئے نمک مارچ:۔گاندھی کی تحریک اور ان کے مطالبات کو نظرانداز کرنا اب برطانوی حکومت کیلئے مشکل ہو چکا تھا۔ لہٰذا برطانوی حکومت نے ہندوستان کے سیاسی مستقبل کے بارے میں بات چیت کیلئے لندن میں ایک گول میز کانفرنس کا انعقاد کیا۔تاہم انگریزوں نے تمام ہندوستانیوں کو اس بحث سے دور رکھااس سے گاندھی بہت ناراض ہوئے اور انھوں نے نمک قانون کے خلاف مہم کا آغاز کیا۔ اس وقت برطانوی قانون کے مطابق ہندوستانی شہری نہ تو نمک جمع کرسکتے تھے اور نہ ہی اسے بیچ سکتے تھے۔اسی سبب ہندوستانیوں کو انگریزوں سے اونچی قیمتوں پر نمک خریدنا پڑتا تھا۔ گاندھی نے ہزاروں لوگوں کے مجمع کے ساتھ ڈانڈی یاترا (ریلی) نکالی اور برطانوی حکمرانی کے خلاف علامتی احتجاج کے طور پر نمک بنا کر قانون توڑا۔ اسی جرم میں انگریزوں نے انھیں گرفتار کرلیا۔گاندھی کی تحریک وسیع پیمانے پر پھیل گئی۔ ہزاروں لوگوں نے برطانوی حکومت کو ٹیکس اور محصول دینے سے انکار کردیا۔ آخر کار برطانوی حکومت کو سر جھکانا پڑا۔ اس کے بعد گاندھی گول میز کانفرنس میں شرکت کیلئے لندن روانہ ہوگئے۔
گول میز کانفرنس :۔گاندھی لندن میں منعقدہ گول میز کانفرنس میں شرکت کرنے والے انڈین نیشنل کانگریس کے واحد نمائندے تھے۔اس کانفرنس میں انھوں نے ہندوستان کی ایک طاقتور تصویر پیش کی لیکن گول میز کانفرنس گاندھی کیلئے ناکام رہی۔سلطنت برطانیہ ہندوستان کو آزاد کرنے پر راضی نہیں تھا۔ اس کے علاوہ مسلمان، سکھ اور دوسرے ہندوستانی نمائندے گاندھی کے ساتھ نہیں تھے کیونکہ ان کا یہ خیال تھا کہ گاندھی تمام ہندوستانیوں کی نمائندگی نہیں کرتے۔اگرچہ گاندھی کو برطانوی بادشاہ جارج پنجم سے ملنے کا موقع ملا لیکن انھوں نے اس کے ساتھ ہی لنکاشائر میں عام کارکنوں سے بھی ملاقات کی۔ان عوامی جلسوں سے گاندھی کو کافی شہرت ملی۔ اس کے ساتھ ہی انڈیا کی قوم پرستانہ مطالبے کے تعلق سے انھیں برطانوی عوام کی ہمدردی بھی حاصل ہوئی۔
:1942ہندوستان چھوڑو’ تحریک:۔گول میز کانفرنس میں اپنی ناکامی کے بعد گاندھی نے انڈین نیشنل کانگریس کے صدر کا عہدہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔جب چرچل نے ہندوستان سے نازیوں کے خلاف جنگ میں برطانیہ کی حمایت کرنے کو کہا تو گاندھی نے یہ اصرار کیا کہ ہندوستان کو نازیوں کے خلاف جنگ میں برطانیہ کی حمایت اس وقت تک نہیں کرنی چاہئے جب تک کہ وہ اپنے ہی گھروں میں غلام ہیں۔اب گاندھی نے حکومت برطانیہ کے خلاف ایک نئی غیر متشدد ‘ہندوستان چھوڑ دو’ تحریک شروع کی۔اس تحریک کے آغاز میں گاندھی اور ان کی اہلیہ کستوربا کو جیل بھیج دیا گیا۔ اس کے بعد گاندھی کو جیل سے رہا کرنے کے مطالبے پر پورے ملک میں پرتشدد تحریکیں شروع ہو گئیں۔برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل اس معاملے پر جھکنے کو تیار نہیں تھے۔ گاندھی کی اہلیہ کستوربا گاندھی جیل میں ہی دم توڑ گئیں اور کئی مہینوں کے بعد گاندھی کو 1944 میں رہائی ملی۔’ہندوستان چھوڑ دو’ تحریک سے پہلے گاندھی نے کہا تھا: ‘یا تو ہمیں ہندوستان کو آزاد کرانا چاہئے یا اس کوشش میں خود کو قربان کر دینا چاہئے لیکن ہم کسی بھی قیمت پر تاعمر غلامی کی زندگی گزارنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔
ہندوستان کی آزادی:۔ہندوستانیوں میں آزادی کا مطالبہ روز بروز تیز تر ہوتا جا رہا تھا۔ بالآخر برطانوی حکومت ہندوستان کی آزادی کے لئے بات چیت شروع کرنے پر مجبور ہو گئی۔لیکن اس کا وہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا جس کے لئے گاندھی اتنے دنوں سے جدوجہد کر رہے تھے۔ ماؤنٹ بیٹن پلان کے تحت ہندوستان کو تقسیم کر کے دو آزاد ممالک یعنی انڈیا اور پاکستان بنا دیا گیا۔یہ تقسیم مذہبی بنیادوں پر ہوئی۔ اس وقت جب دارالحکومت دہلی میں قوم آزادی کا جشن منا رہی تھی مگر گاندھی کا متحدہ ملک کا خواب بکھر چکا تھا۔تقسیم کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر قتل و غارت گری ہوئی۔ تقریباً ایک کروڑ لوگوں کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا۔ مایوس گاندھی دہلی چھوڑ کر کلکتہ روانہ ہو گئے تاکہ تشدد کی روک تھام کی جائے اور وہاں امن قائم ہو سکے۔ملک کی تقسیم کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر تشدد ہوا۔ گاندھی کلکتہ سے دہلی لوٹ آئے تاکہ وہاں مقیم مسلمانوں کی حفاظت کر سکیں جنھوں نے پاکستان جانے کے بجائے ہندوستان میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔گاندھی نے ان مسلمانوں کے حقوق کیلئے بھوک ہڑتال کر دی۔ایک دن جب وہ دہلی کے برلا ہاؤس میں ایک دعائیہ تقریب کیلئے جا رہے تھے تو ان پر ایک ہندو بنیاد پرست نے حملہ کردیا۔ گاندھی کے سینے میں تین گولیاں لگیں۔سخت گیر ہندو حلقوں میں گاندھی کی موت پر جشن منایا گیا لیکن زیادہ تر ہندوستانیوں کیلئے مہاتما گاندھی کا قتل قومی صدمہ تھا۔ دہلی میں جب گاندھی کی آخری رسومات کا وقت آیا تو انھیں خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے دس لاکھ افراد کی بھیڑ امڈ آئی۔دہلی میں بہنے والے دریا جمنا کے کنارے ان کی آخری رسومات ادا کی گئیں اور عدم تشدد اور امن کے اس پجاری کی موت پر پوری دنیا کے لوگوں نے سوگ منایا۔گاندھی اپنی زندگی میں ایک متحدہ ہندوستان کے خواب کو پورا ہوتے نہیں دیکھ سکے۔مہاتما گاندھی نے موت کے بارے میں کہا تھا’’موت کے درمیان زندگی اپنی جدوجہد جاری رکھتی ہے۔ جھوٹ کے بیچ سچائی بھی مستحکم کھڑی رہتی ہے۔ چاروں جانب اندھیرے میں روشنی چمکتی رہتی ہے‘‘۔
(مضمون نگار صدر مدرس ،محسن احمد اردو پرائمری سکول،بشیر کالونی روشن گیٹ اورنگ آباد ہیں)
رابطہ۔9881296564
(مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)