۲۰۱۹ء کے عام انتخابات سے پہلے ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج کے ساتھ ہی ملک کے عوام کے موڈ و مزاج سے ہم روشناس ہو جاتے ہیںکہ یہ انتخابات میگھالیہ سے لے کر کرناٹک تک پھیلے ہوئے تھے۔اگرچہ کرناٹک کی ایک سیٹ پر ہونے والا انتخاب یوں وقوع پذیر ہواکہ اِس حلقۂ انتخاب میں ہزاروں کی تعداد میں ایک فلیٹ میں ووٹر شناختی کارڈ پکڑے گئے تھے۔الیکشن کمیشن کو یہ یقین کرنا پڑا تھا کہ ہو نہ ہویہ کسی پارٹی کی سازش ہو اور اِس طرح وہ انتخابات کے عمل کو متاثر کرنا چاہتی ہو۔آر آر نگر کے اِس ضمنی انتخاب میں کانگریس ایک بڑے فرق تقریباً ۲۵؍ہزار ووٹوں سے بھی زیادہ سے جیتی جب کہ جنتا دل ایس ۶۰؍ہزار ووٹ پاکر تیسرے نمبر پر رہا۔چونکہ ابھی ابھی دونوں پارٹیوں کے درمیان اتحاد ہوا تھا تو بی جے پی والے اور اس کے حامی یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ جب اِن کا آپسی اتحاد ہے تو ایک دوسرے کے خلاف کیوں لڑ رہے ہیں(حالانکہ پرچۂ نامزدگی پہلے کی تھی)۔یہاں یہ بھول جاتے ہیں کہ بی جے پی کا شیوسینا سے مرکز اور ریاست دونوں جگہوں پر اتحاد ہے اور وہ دونوں ہی جگہوں پر حکومت میں شامل بھی ہے تو پھر کیوں کر بی جے پی مہاراشٹر میں ہونے والے پال گھر پارلیمنٹری سیٹ پر شیوسینا سے بر سر پیکار تھی جہاں پر شیوسینا نے بی جے پی کو اچھی ٹکر دی اور صرف ۲۹؍ہزار ووٹوں سے ہی ہاری۔اگر دیکھا جائے تو پال گھر کے لوگ بی جے پی کے خلاف تھے اور یہاں پر متحدہ اپوزیشن کا ،مہاراشٹر کے ہی’گوندیا ‘لوک سبھا سیٹ کی طرح اگر ایک امیدوار ہوتا تو بی جے پی کی وہ ہزیمت ہوتی جسے وہ برداشت بھی نہ کر پاتی کیونکہ پال گھر میں بی جے پی، شیو سینا،ہتندر ٹھاکو رکی مقامی پارٹی بہوجن وکاس اگھاڑی،سی پی آئی(ایم) اور کانگریس کو بالترتیب۲؍لاکھ ۷۲؍ہزار،۲؍لاکھ ۴۳؍ہزار،۲؍لاکھ ۲۳؍ہزار،۷۲؍ہزار اور ۴۸؍ہزار ووٹ ملے۔ان اعدادو شمار سے یہ اندازہ لگانے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی کہ بی جے پی کہاں کھڑی ہے؟بھلے ہی وزیر اعلیٰ مہاراشٹر اپنی کالر کھڑی کریں لیکن بقول اُدھو ٹھاکرے کے کہ اِس ہار میں بھی شیو سینا کی جیت ہے اور اُن کی پارٹی نے جم کر مقابلہ کیا ہے۔اُدھو نے شمالی ہند کے باشندوں کا بھی شکریہ اد اکیا کہ انہوں نے یوگی کو’ نکار ‘دیا۔اِس سے پہلے اُدھو نے یوگی جی کو اُنہی کے چپل سے اُن کو مارنے کی بات کی تھی ۔ واضح رہے کہ گوندیا کی سیٹ شرد پوار کی این سی پی نے جیتی جسے کانگریس نے حمایت کی تھی اور یہاںشیو سینا نے اپنا امیدوار نہیں اتارا تھا۔
پال گھر کی اِس سیٹ پر شیوسینا اگر جیت جاتی توبی جے پی سے اتحاد کی صورت میں آئندہ ہونے والے انتخابات میں سیٹوں کے الاٹمنٹ کے لئے مول بھاؤ کرنے کی پوزیشن میں ہوتی اور ممکن ہے کہ بی جے پی کی جانب سے اسے کچھ رعایت بھی مل جاتی لیکن بی جے پی کی اِس جیت نے بی جے پی کے ۲۰۱۹ء کے پارلیمانی اور صوبائی دونوں انتخابات کے لئے کھیل بگاڑ دیا۔اب ایسالگتا ہے کہ شیوسینا کسی بھی قیمت پر بی جے پی کے ساتھ مل کر الیکشن نہیں لڑے گی کیونکہ یہاں بھی شیو سینا کی وجودیت کا مسئلہ در آیا ہے۔شیوسینا خود کو مہاراشٹر کے لئے نجات دہندہ سمجھتی ہے اور وہ دن دور نہیں کہ یہ بی جے پی کو شمالی ہند اور ہندی پارٹی کہہ کر اسے ذلیل اور رسوا کرے۔لیکن ایک بات سمجھ میں نہیں آتی کہ یہ کیونکر ابھی تک حکومت میں شامل ہے۔اسے فوراً سے پیشتر دونوں جگہوں سے اپنی حمایت واپس لینے کا اعلان کر دینا چاہئے ورنہ ۲۰۱۹ ء سے ذرا پہلے الگ ہونے سے کوئی بات نہیں بنے گی اور ملک کے مزاج کو دیکھتے ہوئے اسے بھی سخت اور فیصلہ کُن قدم اُٹھانا چاہئے جس طرح سے چندربابو نائیڈو نے اُٹھایا۔چندر بابو نائیڈو کو یہ گمان ہو چلا تھا کہ اندر ہی اندر بی جے پی ،وائی ایس آر کانگریس سے آندھر پردیش میں پینگیں بڑھا رہی ہے اور آخری مرحلے پر اسے دھوکا دے سکتی ہے۔
اِس ضمنی انتخابات کا سب سے اہم پہلو اور پڑاؤاُتر پردیش کے ’’کیرانہ‘‘ لوک سبھا کی سیٹ ہے جہاں پر ملک بھر کی نظریں ٹکی ہوئی تھیں۔اِس کا نتیجہ بھی پھول پور اور گورکھ پورکے ضمنی انتخابات کے نتائج کی طرح ہی آیا۔راشٹریہ لوک دل کے چیف اجیت سنگھ نے ایک مسلم خاتون کو امیدوار بنا کر ایکبڑی بازی کھیلی تھی۔یہ مسلم خاتون تبسم فاطمہ ویسے ۲۰۰۹ ء میںاپنے شوہر کی حادثاتی موت کے بعد ہوئے ضمنی انتخاب میںبہوجن سماجوادی پارٹی سے ایم پی رہ چکی ہیںلیکن اجیت سنگھ نے اپنی پارٹی سے امیدوار بنا کر سب کو متعجب کر دیا تھا۔سماجوادی اور کانگریس پارٹی نے انہیں اپنی حمایت کا اعلان تو کیا ہی بعدہٗ بہوجن سماج کی مایاوتی نے بھی اپنی حمایت کی ہری جھنڈی دے دی۔بی جے پی کے ذریعہ پیدا کردہ اِس پُر آشوب دور میں ایک مسلم کا امیدوار ہونا کم جوکھم کی بات نہیں تھی۔بی جے پی اور آرایس کی یہ پالیسی رہی ہے کہ ہندوستان میں کسی بھی شعبے میں کم از کم مسلمان رہنے نہ پائیں اور انہیں ہر جگہ کنارے لگایا جائے۔آزادی کے بعد کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ اُتر پردیش نے لوک سبھا میں مسلمان ایم پی نہ بھیجے ہوں ۲۰۱۴ء میں ایسا ہوا۔اِس تناظر میں دیکھیں تو تبسم فاطمہ کی امیدواری ایک جوئے سے کم نہیں تھی ۔ان کی جیت اور وہ بھی ۴۵؍ہزار ووٹوں کے فرق سے ہندوستان کا اصلی نقشہ پیش کرتی ہے۔یوگی آدتیہ ناتھ نے ’جناح کارڈ‘ کھیلنے کی بھرپور کوشش کی اور کیرانہ کے بغل میں باغپت میں بھی ووٹنگ سے محض ایک دن پہلے ۹؍کلو میٹر کی ایک سڑک کے افتتاح کے موقع پر وزیر اعظم مودی نے ایک ناٹکی روڈ شو بھی کیا تھا لیکن رائے دہندگان نے بی جے پی کی تقسیم کرنے کی پالیسی کو ٹھینگا دکھا دیا اور اِس طرح متحدہ اپوزیشن کی امیدوار ایک بار پھر سرخرو ہوئیں۔اس کے ساتھ ہی یوپی سے ایک مسلم پارلیمنٹرین لوک سبھا میں داخل ہوا۔یہ مِتھ اب ٹوٹتا ہوا محسوس ہو رہا ہے کہ ہندو برادران مسلمان کو ووٹ نہیں دیتے کیونکہ یوپی کے نور پور اسمبلی سیٹ سے بھی ایک مسلم امیدوار نجم الحسن نے جیت درج کی ہے اور انہیں بھی مسلمانوں کے ساتھ ہندوبرادرانِ وطن کے ووٹ ملے ہیں۔واضح رہے کہ یہ وہی کیرانہ ہے جہاں پر آنجہانی حکم سنگھ نے کیرانہ سے ہندوؤں کے خُروج(exodus) کو موضوع بنا کر انتخاب جیتا تھا اور پورا مغربی یوپی پولرائز ہو گیا تھا۔اُنہی کی موت کی وجہ سے یہاں انتخاب کی نوبت آئی تھی اور بی جے پی نے ان کی بیٹی کو میدان میں اتارا تھا۔
اسی طرح بہار میں بھی جوکی ہاٹ اسمبلی سیٹ لالو کی آر جے ڈی نے نتیش کمار کی جنتا دل یو سے چھین لی ہے۔یہ سیٹ نتیش کمار کی اجارہ داری سمجھی جاتی تھی ۔اگرچہ یہاں پر مسلم ووٹروں کی تعداد زیادہ ہے اور ہمیشہ ہی کوئی مسلم ہی چُن کر آتا ہے ۔جنتا دل یو کا امیدوار بھی ایک مسلم ہی تھا لیکن وہاں کے لوگوں نے نتیش کمار کی وجہ سے انہیں بھی مسترد کر دیا۔بہار کے عوام اور بالخصوص مسلمانوں کا، یہ سیدھا پیغام ہے نتیش کمار کے لئے کہ ’’بہار کے عوام سے دھوکا دینے کا انجام کیا ہے اور بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملانے کا نتیجہ کیا ہے؟‘‘۔پہلے کی بات الگ تھی جب نتیش کمار بی جے پی کا اتحادی ہوتے ہوئے بھی مسلمانوں کا ووٹ حاصل کر لیتے تھے کیونکہ اُن وقتوں میں وہ مودی کے سخت مخالف ہو ا کرتے تھے ۔ان کی اسی ادا پر بہار کے مسلمان فریفتہ تھے۔ بہار کے عوام کا موڈ و مزاج بھی اِدھر ہوئے لگاتار ضمنی انتخابات سے پتہ چل رہا ہے کہ وہ کس قدر نتیش کے خلاف ہیں۔ نتیش جی اگر آج اپوزیشن کے ساتھ ہوتے تو ان کی یہ درگت نہیں ہوتی۔جو شخص ممکنہ طور پر وزیر اعظم کا امیدوار ہو سکتا تھا، اس نے اپنی ہی قدر نہیں کی صرف لالچ کی وجہ سے۔نتیش کمار کے لئے وزیر اعلیٰ کی کرسی دونوں ہی صورتوں میں( آر جے ڈی کے ساتھ یا بی جے پی کے ساتھ رہنے کی) کُل۱۵؍برس تو طے تھی،انہوں نے آگے کی ۲۰؍ویں برس کی سوچ لی اور اس کی تکمیل انہوں نے بی جے پی کی لگاتار پیش رفتوں میں دیکھی اور اسی وجہ سے بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملایا۔انہیں کیا پتہ تھا کہ مودی میجک اتنی جلدی کافور ہو جائے گا جس کا مشاہدہ وہ کیا بلکہ سب لوگ ملک کی حالت دیکھ کر کر رہے ہیں ورنہ چند روز پہلے ہی وہ نوٹ بندی کی مخالفت میں بہکی بہکی باتیں نہ کرتے۔اسی طرح ملک بھر سے اِس ضمنی انتخابات کے جو نتائج سامنے آئے ہیں اُن میں لوک سبھا کی چار سیٹوں میں سے بی جے پی صرف ایک سیٹ پال گھر کی جیت سکی ہے جسے شیوسینا جیت ہی نہیں سمجھتی اور ناگا لینڈ میں اس کی ایک اتحادی پارٹی نے ایک سیٹ جیتی ہے جب کہ ۱۱؍اسمبلی انتخابات میں صرف ایک سیٹ اتراکھنڈ سے جیت سکی ہے جب کہ اپوزیشن نے ۱۰؍سیٹوں پر قبضہ کیا ہے جس میں ۴؍سیٹیں کانگریس نے جیتی ہیں۔اس لئے ملک میں بی جے پی کے خلاف اور خاص طور پر مودی جی کے خلاف ایک واضح لہر ہے جسے میڈیا لاکھ چھپائے چھپ نہیں سکتا اور ۲۰۱۹ء کے عام چناؤ میں ممکن ہے کہ بی جے پی کی سیٹیں کہیں دو عدد میں ہی نہ سمٹ جائیں اگرملک بھر میں اپوزیشن کا اسی طرح کا اتحاد قائم رہا! ۔
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو، نئی ممبئی کے مدیر ہیں
رابطہ9833999883