تعلیم میں، استاد یا معلم وہ ہے جو متعلم یا طالب علم کی مدد و معاونت و رہنمائی کرتا ہے۔اساتذہ کسی بھی قوم کی تعمیر و ترقّی میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہوتے ہیں۔ اساتِذہ کا شمار قوم کے باشعور طبقے میں ہوتا ہے۔ اساتذہ کے فرائضِ مَنصبی میں تعمیرِ قوم، کردار سازی، تزکیۂ نفس، قیادت کی تیاری، طلبہ کو اعلیٰ نظریات سے مُتصف کرنا، حق و باطل، جائز و نا جائز اور حلال و حرام کا شعور بیدار کر نا بھی شامل ہیں۔ انہی اہم ذمّہ داریوں کی وجہ سے اُستاد کو روحانی باپ کا درجہ دیا گیا ہے۔
کہتے ہیں کہ استاد دراصل قوم کے مُحافِظ ہیں کیونکہ آئندہ نسلوں کو سنوارنا اور ان کو ملک کی خدمت کے قابل بنانا انہیں کے سپرد ہے۔ سب محنتوں سے اعلیٰ درجے کی محنت اور کارگزاریوں میں سب سے زیادہ بیش قیمت کارگزاری ملک کے اساتذہ کی ہے۔استاد و معلم کا فرض سب فرائض سے زیادہ مشکل اور اہم ہے کیونکہ تمام قسم کی اَخلاقی تمدنی اور اُخروی نیکیوں کی چابی اس کے ہاتھ میں ہے اور ہر قسم کی ترقی کا سر چشمہ اس کی محنت ہے۔
استاد ہی قوم کے نو جوانوں کو علم و فنون سے آراستہ کرتا ہے ۔والدین کے بعد انسان کا سب سے بڑا محسن استاد ہے ۔جموں کشمیر کےانسانی معاشرے میں آجکل استاد کو انتہائی قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھاجاتا ہے حالانکہ دیکھا جانا چاہیے ۔ استاد، ذہن اور روح کا مربی ہوتا ہے ۔ استاد، زندگی کو تاریکیوں سے نکال کر اُجالوں کا سفیر بناتا ہے ، اچھے برے کی تمیز بتاتا ہے اور قلب کی سیاہی کو روشنی میں تبدیل کرتا ہے۔
استاد ہونا کوئی معمولی مرتبہ نہیں بلکہ یہ مقام اس اعتبار سے بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ اللہ رب العزت نے اپنے جن پیغمبروں اور رسولوں کو دنیا میں مبعوث فرمایا وہ سب کے سب انسانی سماج کے لئے معلم تھے ۔ خود ہمارے سرکارِکائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ترجمعہ۔ مجھے معلم اخلاق بنا کر بھیجا گیا۔
اس لئے کم از کم ایک کلمہ گو اُستاد کو اس مقام پر پہنچنے کے بعد اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے معلمانہ کردار کو لازمی طور پر اپنے سامنے رکھ کر یہ فریضہ انجام دینا چاہیے۔ کیوں کہ درس و تدریس کا نام محض نصابی کتابوں کو پڑھا دینا نہیں ہے بلکہ اپنے شاگرد کی حیات کو ہر جانب سے روشن و تابندہ بنانا ہے ۔ اس لیے اگر ہم استاد ہیں اور محض نصابی کتابیں پڑھا کر یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو رہے ہیں تو یہ ہماری بہت بڑی بھول ہے۔
آئیے !ہم اپنی ناقص سمجھ کی روشنی میں آپ کو یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ موجودہ تعلیمی نظام میں ایک استاد کو کیسا اور کن صفتوں کا مالک ہونا چاہیے۔
ایک اچھا استاد ہونے کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ اعلی تعلیم یافتہ ہو اور وہ جو کچھ اپنے طلباء کو پڑھا رہا ہے ان موضوعات پر اس کی مکمل گرفت ہو۔ تاکہ جو کچھ وہ اپنے طلباء کو پڑھا رہا ہے اور بعد میں اس کے طلباء اس سے کوئی بھی سوالات کریں تو اس کے پاس ان کے سوالات کے مناسب جوابات ہوں۔ لہٰذا یہ چیز اس بات کا تقاضاکرتی ہے کہ استاد بہترین تعلیمی پس منظر رکھتا ہو اور اس کی معلومات نہایت جامع ہوں اور کسی بھی سوال کا مناسب جواب دے سکے اور اپنے طلباء کو مناسب جوابات کے ساتھ مطمئن کر سکے۔ اگر وہ اعلی تعلیم یافتہ ہو گا تو وہ نہ صرف اپنے طلباء کو بہترین طریقے سے پڑھا سکے گا بلکہ امتحانات کے نتائج بھی نہایت حوصلہ افزا ہوں گے، اور اس کے طلباء اس کی تدریس سے مطمئن ہوں گے۔
بچوں کی تربیت کے ہر پہلو کو ملحوظِ خاطر رکھنے کیلئے اساتذہ بچوں کے والدین سے رابطہ رکھیں اور ان کی خامیوں اور کوتاہیوں کو دور کرنے کی کوشش کریں۔ ہر بات کی شکایت کرنے کے بجائے خامیوں کو دور کرنے کی سچی نیّت سے مُشاورت کریں اور بچوں میں علم حاصل کرنے کی لگن پیدا کرنے کی ہرممکن کوشش کریں۔
ایک استاد کے لیے لازمی شئے اخلاص اور خلوص ہے ۔طالب علموں کے تئیں مکمل مخلص ہونا ہی ایک اچھے اور کامل استاد کی علامت ہے اور اگر استاد خدائے واحد کا پرستار ہے ،حشر و نشر پر یقین رکھنے والا ہے، تب تو اسے اپنا ہر ہر قدم اسی جذبے کے ساتھ اٹھانا لازم ہو جاتا ہے کیونکہ ذرہ برابر بھی بددیانتی اور خیانت اسے روز محشر میں رسوا کر سکتی ہے۔
استاد کو چاہیے کہ وہ اپنے شاگردوں کے دلوں کی کھڑکیوں تک اپنی بات پہنچانے کے لئے انتھک جدوجہد کرے اور اس راہ میں آنے والی ساری رکاوٹوں کو پھول سمجھ کر اپنا کام جاری رکھے ۔
استاد کو منفی ذہن سے عاری،نرم دل،نرم خو ،اور حسنِ گفتار کا مالک ہونا چاہیے ،کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی طالب علم سے کسی ذاتی رنجش یا تکلیف کی بنیاد پر توجہ کم ہو ،یہ استادی کے پیشے کے سراسر خلاف ہے بلکہ میں کہتا ہوں کی وہ استاد ہی کیا جس کوطلبہ ناپسند کریں اور رنجش و تکلیف کی نوبت آئے۔
طلبہ اگر اپنی کم عمری اور کم علمی کے سبب کچھ نادانی یا استاد کی بارگاہ میں گستاخی بھی کر بیٹھیں تو استاذ کو اسے کینے کا سبب نہیں بنانا چاہیے بلکہ بحیثیت استاداس کے کردار کو اعلیٰ کرنے اور اخلاق کو سنوارنے کی مسلسل کوشش جاری رکھنی چاہیے ۔
استاد کو اپنے شاگردوں کی عزت نفس کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ بر سرعام بےعزت اور رسوا کرنا ،بات بات پر ڈانٹنا ڈپٹنا ،مارنا پیٹنا انہیں حصول علم سے دور کر سکتا ہے۔ کلاس میں جو طلباء کمزور ہوں ان کی بھی حوصلہ افزائی ضروری ہے عین ممکن ہے کہ آپ کے حوصلہ افزاء کلمات ان کے سوئے جذبے کو بیدار کر دیں،ان کے خوابیدہ ذہن کے دریچے کھول دیں اور وہ بھی محنت و مشقت کے عادی بن کر قوم و ملت کے لیے ایک مفید اور کارآمد فرد بن جائیں ۔
استاد کو اچھے کردار کا مالک ہونا چاہیے کیونکہ شاگرد جہاں استاد سے کتابی علم سیکھتے ہیں وہیں اس کے اخلاق و کردار کو بھی اپنے اندر بسانے کی کوشش کرتے ہیں ،اگر استادحسن کردار کا مالک ہوگا تو اس کی ہر بات شاگرد کے دل میں اثر انداز ہوگی، اس کے برعکس بدکردار استاد کتنا ہی بڑا ماہر اور نقطہ داں کیوں نہ ہو اس کا علم فیض رساں نہیں ہوسکتا، نہ اس سے شاگردوں کے مستقبل سنورنے کی امید کی جاسکتی ہے۔
استاد کو کبر و نخوت اور غرور و گھمنڈ سے پاک و صاف ہونا چاہیےکیونکہ یہ عادتِ استاد کو اور استاذی کو بگاڑ دیتی ہے اور بچے ایسے اساتذہ کی بات کو غور سے نہیں سنتے نہ اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ایسے استاد سے طلباء دوری بنا لیتے ہیں جس کی وجہ سے طلبہ محض حاضری درج کرانے کے لئے کلاس میں حاضر ہوتے ہیں، کلاس میں بے من سے بیٹھتے اور چلے جاتے ہیں ،ایسے استاد سے شاگرد سوالات نہیں کرتے کیونکہ انھیں پتہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے غرور کے نشے میں جوابات دینا خلاف شان سمجھتے ہیں ۔
استاد کے لیے انتہائی لازمی اور ضروری چیز ہے مطالعہ ۔بغیر مطالعہ کوئی کتاب ہرگز نہیں پڑھانا چاہیے آپ خواہ کتنی بار کوئی کتاب پڑھا چکے ہوں، آسان سے آسان کتاب ہو پھر بھی اسکول میں جانے سے قبل مطالعہ کرنے کو ضروری سمجھیں،اس سے آپ پڑھاتے وقت پُر اعتماد ہوں گے اور اپنی ہر بات کامل یقین کے ساتھ پیش کریں گے ،طلبہ کے ذریعہ پوچھے گئے سوالات کے تشفی بخش جوابات دینے پر قادر ہوں گے۔ بغیر مطالعہ کتب پڑھانے سے بعض اوقات رسوائی ہاتھ آتی ہے جو استاد کے مقام ومرتبہ کے منافی ہے۔
اللہ رب العزت تمام اساتذہ کو ایک اچھا اور کامل و مکمل اور مخلص استاد بنا کر درس و تدریس کی توفیقِ عطا فرمائے۔آمین
(ماندوجن شوپیان کشمیر)