فدا حسین بالہامی
بلا شبہ موبائل اطلات اور مواد کا ایک وسیع اور آسان ذریعہ ہے ۔اس کے ذریعے کسی بھی موضوع اور عنوان کے لئے بہت سارا مواد کبھی بھی جمع کیا جا سکتا ہے۔لیکن اطلاعات کی یہ فراوانی ایک منفی اثر بھی رکھتی ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان جو چیز جدو جہد سے حاصل کرے اس کے متعلق وہ نہایت ہی حساس ہوتا ہے نیز دوران جدو جہد اور ذہنی مشق وہ اس کی تہہ تک پہنچ پانے میں کامیاب ہوتا ہے۔مثال کے طور پر موبائل اور انٹرنیٹ سے پہلے جب ایک محقق کو کسی اہم انفارمیشن کے لئے کسی کتاب کی ضرورت پڑتی تھی اور اس کتاب کو حاصل کرنے کے لئے اسے کوئی لمبا سفر کرنا پڑتا تھا تو وہ دوران سفر اسی موضوع کے بارے میںمسلسل غور و خوض کرتاتو نئے نئے زاویے اس کے ذہن میں آجاتے تھے اور موضو ع اس کے ذہن میں تب تک راسخ ہو جاتا تھا کہ جب تک اسے اس کتاب یا کسی اور مآخذ تک رسائی حاصل ہو جاتی۔برعکس اس کے موبائل کی دنیا میں ثبات و ٹھہراو کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ یہاں ہر لمحہ کئی کئی مناظر بدلتے رہتے ہیں۔ایک منظر کو آنکھ بھر دیکھا نہیں کہ دوسرا منظر سامنے آگیا۔یہی وجہ ہے یہاں ـ’’خبروں‘‘ کا انبار ہے لیکن ’’نظر ‘‘ کا ہر جانب فقدان ہے۔ بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہے کہ خبروں کے ریلے میں ’’نظر‘‘ ایک تنکے کی طرح بے اختیار بہہ نکلتی ہے۔ اور پھر اس کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہتا۔ یہی وجہ ہے کہ موبائل کی دنیا کے مکین سیمابی کیفیت سے دوچار ہے۔ ایسی صورت حال میں ’’ثباتِ رائے‘‘ کا فقدان ایک قدرتی امر ہے۔ سیدھی سی بات ہے اگر انسان کو کسی ایک جگہ ٹھہرنے کی اجازت نہ ہو تو وہ کہیں کا نہیں رہتا۔اسے ہر مقام کو غور سے دیکھنے اور اس کے متعلق اپنی رائے قائم کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا ہے۔ اور پھر وہ کسی نامعلوم شاعر کے اس بہترین شعر کا مصداق بن کے رہ جاتا ہے۔
سرسری تم جہاں سے گزرے
ورنہ ہر جا ،جہانِ دگر تھا
چنانچہ بار بار مختلف شوشل سائٹوں سے ایک موبائل صارف کو چند مخصوص آوازوں کے ذریعے اطلاعات بہم ہوتی رہتی ہے اور اسے متوجہ کرتی رہتی ہے کہ فلاں سماجی رابطہ سائٹ پر فلاں پوسٹ کے تعلق سے فلاں شخص نے اپنی پسندیدگی یا ناپسندیدگی کا اظہار کیا ۔اسے کچھ نہیں تو معتدد بار اس کا ذہن ان شوشل سائٹوں کی طرف ضرور جاتا ہے۔ اوراگر کسی عنوان یا مسئلے کے متعلق وہ محوِ غور و تفکرتھا تو اس موبائل فون کی وساطت سے بار بار اس کے فکرو خیال کا تسلسل ٹوٹ جاتا ہے۔بسا اوقات معمولی سے نوٹفکیشن کو دیکھنے کے بہانے جب سماجی میڈیا کی دنیا میں چلا جاتا ہے تو ایک عرصے کے بعد وہاں سے لوٹنے پر اس کے ہاتھ ذہنی عیاشی کے سوا کچھ بھی نہیں لگتاہے اور تو اور خیالات کی رو بھی منقطع ہوچکی ہوتی ہے۔ نتیجتاً اس کی ارتکاز ِ فکر زد پر آجاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ جو آج کل سطحیت نے ہمیں چاروں اور گھیر لیا ہے اس میں موبائل فون کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔توجہ مرکوز کرنے کا جو دورانیہ انسان میں ہوتا ہے وہ مسلسل کم ہوتا جا رہا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ موبائل ٹیکنالوجی کی زد میں آنے والاشخص ہر بدلتے لمحہ کے ساتھ کچھ اور چاہتا ہے۔ اس کے پاس زیادہ دیر تک ایک ہی منظر نامہ برداشت کرنے کی قوت ماند پڑھ چکی ہے ۔ وہ ہر وقت جلدی میں دکھائی دیتا ہے۔وقت طلب کاموںکی جانب جانے سے وہ کتراتا ہے۔ یہ سب دراصل ہر آن بدلتی موبائل کی دنیا میں زندگی بسر کر نے کا نتیجہ ہے۔کیا ان تلون مزاج لوگوں سے کوئی منضبط اور مبسوط کام کی توقع رکھی جاسکتی ہے؟حیرانگی کی بات یہ ہے کہ وہی شخص جو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر گھنٹوں مصروف رہتا ہے ہر وقت یہی کہتا دکھائی دیتا ہے کہ آج کل کے تیز رفتاری زمانے میں لمبی چوڑی تقریر سننے اور اور ذرا سی طویل تحریر پڑھنے کی فرصت کسے ہے!
جس طرح مشینوں کی ایجاد سے انسان کی جسمانی مشقت و محنت اور بدنی حرکت میں کافی حد تک کمی واقع ہو ئی ہے۔ اسی طرح کمپیوٹر علی الخصوص موبائل سے اس کی ذہنی مشق و ریاضت کو بھی بہت حد تک گھٹ گئی ہے۔ موبائل یا کمپیوٹر تک رسائی سے قبل انسان اپنے حافظے سے بہت زیادہ کام لیتا تھا۔ لیکن اب ہر چیز اس نے موبائل فون کے حوالے کر دی ہے۔اپنے تمام کوائف اور دیگر حاصل کر دہ اطلاعات اسی میںمحفوظ کر نا موجودہ دور کے انسان کا شیوہ بن چکا ہے۔گویا اس کے لئے موبائل کوئی برقی آلہ (electronic device)نہیں بلکہ یہ جیب میں متبادل دماغ لئے پھرتاہے ، جس سے وہ اپنے دماغ کی نسبت بہت زیادہ کام لیتا ہے۔ آج کسی بھی شخص سے ذاتی انفارمیشن کے متعلق دریافت کیجئے تو وہ فوراً اپنے سل فون کی جانب رجوع کرے گا۔اس طرز عمل سے انسان دن بدن اسی موبائل فون کی جانب اس کی محتاجی بڑھتی جا رہی ہے۔ یقینا اطلاعات کی بہم رسانی اور تبادلۂ خیالات موبائل کے ذریعے بہت آسان ہو چکا ہے لیکن اکثر موبائل صارفین کا یہ وطیرہ ہے کہ ذہن نیشن کئے بغیر ہی اور بعض دفعہ غیرشعوری طور ہی مختلف اطلاعات اور خیالات دوسروں تک پہنچاتے رہتے ہیں۔ ایسے میں ان کی دانش و بینش پر کیا اثرات مرتب ہوں گے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ اس وقت اخلاقیات سے بھر پور باتیں، تقریریں اور تحریریں بہت تیزی کے ساتھ پھیلتی ہیں لیکن ان کا اثر نہایت ہی کم دیکھنے کو ملتا ہے؟ دراصل اس طر ح کا مواد محض ایک آلے سے دوسرے آلہ تک منتقل ہوتا ہے۔انسان اب منتقل کرنے کا بس ایک ذریعہ ہو کر رہ گیاہے ۔جبکہ مواصلات کے آلات ہی اطلاعات اور مواد کے انتقال کا ذریعہ تھے۔اس معاملے میں ایک موبائل صارف کی مثال اس پائپ لائن کی سی ہے کہ جو پوری بستی کو سیرآب کرتی تو ہے لیکن خود ایک بوند پانی تک نہیں پیتی۔سیدھی سی بات ہے جب ذریعہ، ہدف اور ہدف، ذریعہ کی جگہ لے لے تو نتائج منفی ہی برآمد ہوں گے۔
اخلاقی بگاڑ کی بات کریں تو فحاشیت سب سے پہلے سینہ ٹھوک کر سامنے آجاتی ہے۔ موجودہ دور میں شرم و حیاء کو تارتار کرنے اور فحاشیت کو فروغ دینے میں سمارٹ فون کا اہم کردار ہے۔ کم سنی میں ہی ایک بچہ ایسے فحش مناظر غیر ارادی طور ہی سہی دیکھ لیتا ہے کہ جو اس کی جنسی حس کوقبل از وقت ہی بیدار کر تے ہیں۔اور پھر جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے سے قبل ہی ان مناظر سے اس کا باطن و ظاہر پوری طرح آلودہ ہوجاتا ہے۔ ان فحش مناظر کے سبب وہ ایک قسم کے جنسی ہیجان میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ یہ جنسی ہیجان اسے مخالف جنس سے روابط استوار کرنے پر اکساتا ہے۔ اور یہاں بھی موبائل فون ہی اس کی اس خواہش کو پورا کرنے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔دیکھا جائے تو نوجوانوں کی بے راہروی میں اس وقت موبائل فون کا کافی زیادہ عمل دخل ہے۔
cell :7006889184
[email protected]