فدا حسین بالہامی
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہر نئی چیز بدعت نہیں ہوتی۔بلکہ ہر نئی ایجاد کسی نہ کسی اعتبار سے انسان کے لئے فائدہ مند ضرور ہوتی ہے لیکن دو طریقوں سے کوئی بھی فائدہ مند شئے مضربنتی ہے۔ ایک یہ کہ جس بنیادی مقصد کے لئے کسی چیز کو ایجاد کیا گیا ہو اس کے بجائے کسی دوسرے غیر ضروری مقصد کے لئے استعمال ہو جائے ۔ دوسرا نقصان دہ پہلو یہ ہے کہ اس کا ضرورت سے زیادہ استعمال ہو۔اس بات میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ اس وقت تمام انسانی معاشروں میں جس چیز کا اوسطاً اور نستباًسب سے زیادہ استعما ل ہو تا ہے وہ موبائیل فون ہی ہے۔ در اصل موبائیل فون موجودہ دور کی حیرت انگیز ایجاد ہے کہ جو سماج کے کسی بھی طبقے سے تعلق رکھنے والے ہر فردکے لئے لازمی بن گئی ہے۔ اس میں غیر معمولی کشش و جاذبیت پائی جاتی ہے اور اسے کراہت رکھنے ولا کوئی شخص اس وقت شاید ڈھونڈنے سے بھی نہ ملے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں کچھ غیر معمولی خوبیاں بھی تو ہوں گی کہ جن کی وجہ سے یہ ہر فرد کے لئے منظور ِ نظر بن گیا ہے بلکہ یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ اس کے وجود کا لازمی جز بن چکا ہے۔اس پر مستزاد یہ کہ جب سے موبائیل فون کو ترقی یافتہ شکل یعنی سمارٹ فون کی صورت میں پیش کیا گیا تب سے موبائیل فون بہت ساری کارآمد چیزوں کا مجموعہ بن گیا ہے۔ یہ مراسلات و مواصلات کا سب سے آسان ، تیز رفتار ، ہمہ پہلو ، وسیع ، اور کارآمد ذریعہ ہے۔ یہ خبر رسانی کے ساتھ ساتھ تعلیم ، تحقیق ،اور اطلاعات بہم پہچاننے کا ایک ایسا آلہ ہے جسے انسان سفر و حضر میں نہ صرف اپنے ساتھ رکھ سکتا ہے بلکہ اس کا استعمال بھی بآسانی کر سکتا ہے۔ موجودہ دور میں اسے بڑھ کرتفریح کا کوئی ایسا آلہ نہیں جسے ہر پیر و صغیر سب سے زیادہ استعمال کر تا ہو۔ یہ نہ صرف گزشتہ دور کی روایتی چیزوں کا بہترین نعمل البدل ہے بلکہ اس نے بہت سی تازہ دم ایجادات کی قدرو قیمت اور استعمال کو بھی بہت حد تک کم کیا ہے۔یہاں تک کہ اس دور کی سب سے اہم اور کثیر الاستعمال سائنسی ایجاد یعنی کمپیوٹر کی اہمیت کو بھی گھٹا دیا ہے۔ کیونکہ بہت سے ایسے کام جن کی انجام دہی کے لئے کمپیو ئٹر کی ضرورت پڑتی تھی آج بآسانی سمارٹ فون کے ذریعے کئے جا تے ہیں۔گویا سمارٹ فون نے کمپیو ٹر جیسی جاذب شئے کو بھی اپنے اندرسمو لیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس کی جاذبیت نے نہ جانے کتنوں کواپنے اندر جذب کر دیا ہے۔ وہ اس چھوٹی سی چیز کے اندر اپنی عظیم ہستی اور شخصیت کو کھو بیٹھے ہیں۔
ٓٓآج کل ایک بچہ پیدائش کے بعد جن چیزوں سے فوراً مانوس ہو جاتا ہے ان میں موبائل فون سرِ فہرست ہے۔یہ انسیت بہت جلد لت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔پھر
اس کا موبائل کے بغیرگزارا نہیں ہوتا۔ وہ ہر وقت موبائل کی جانب لپکتا رہتا ہے۔ ذرا سی عمر بڑھ گئی تو موبائل کی ضد شروع ہو جاتی ہے۔ بچہ ہر وقت اپنے والدین سے موبائل دیکھنے کا تقاضا کرتا رہتا ہے۔ بعض بچوں کا رونا اور چُپ کرنا اسی شئے پر موقوف ہو گیا ہے۔ گویا یہ موبائل فون اب بچپن سے ہی ایک انسان کا ریموٹ کنٹرول بنتا جا رہاہے۔اور بچوں کو لبھانے کا جو ہنر والدین خصوصاً ماں کے وجود میں قدرت نے رکھا تھا موبائل فون کا سب سے پہلا وار اسی ہنر پر پڑتا ہے۔کیونکہ والدین بھی اب ہر وقت سل فون کے ذریعے ہی اپنے بچوں کو لبھانے اور منانے کا عمل انجام دیتے ہیں۔اگر یہی صورت حال جاری رہی تو بعید نہیں والدین میں یہ ہنر ناپید ہو۔بچوں کی طرززندگی میں کس قدر تبدیلی واقع ہو ئی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ موبائل فون ایجاد ہونے سے قبل اگر کہیں دو چار بچے کہیں پر جمع ہوتے تو وہ ادھم مچاتے تھے ۔ان کی اچھل کو د گو کہ بڑے بزرگوں کے لئے یک گونہ پریشانی کا باعث تو ہوتی تھی لیکن ان کی اپنی جسمانی اور نفسیاتی صحت کے لئے ان کی بے ہنگم حرکتیں ایک فطری نعمت تھی جسے موبائل فون نے ہڑپ لیا۔ اب اکثر یہ دیکھنے کو ملتا ہے اگر کہیں پرچند ایک بچے جمع ہو بھی جائیں تو وہ کسی کونے میں بیٹھ کر موبائل کے ساتھ چپک ہیں۔بچوں کی موبائل فون کے ساتھ مانوسیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ایک بھی نوالہ کھانے کا حلق سے اس وقت تک نہیں اتارتے ہیں جب تک کہ موبائل فوں کی سیکرین پر ان کی نظر نہ ہو۔نوجوانوں کا حال بھی بچوں سے مختلف نہیں ہے۔ ان کی جسمانی سرگرمیاں کافی حد تک موبائل فون کے بدولت ماند پڑھ گئیں ہیں۔ان کے کھیل کود اور دیگر جسمانی سرگرمیوں کے لئے موزون وقت بھی اب ویڈیوگیم،سوشل میڈیا،یو ٹیوب وغیرہ کے نذر ہو جاتا ہے۔
وقت کے ضیاع کا بڑاذریعہ یہی موبائل فون بن چکا ہے ۔بلا خوفِ تردید کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت ایک انسان جس چیز پر سب سے زیادہ وقت نچھاور کرتا ہے وہ موبائل فون ہے۔جب سے اس کے ہاتھ میں یہ شئے آگئی ہے نہ جانے کتنی کار آمد چیزیں اس کے ہاتھ سے نکل گئیں۔اس نے مطالعہ کا ذوق و شوق رکھنے والے نہ جانے کتنے موبائل زدہ افراد سے کتاب چھین لی۔دوسری جانب لا تعداد طالب علم بھی اس کے جھانسے میں آکر اپنے ہدف و مقصد یعنی حصول تعلیم سے منحرف ہو گئے۔انٹر نیٹ ، شوشل میڈیا وغیرہ کا استعمال موبائل صارفین کے لئے نہایت ہی آسان ہو گیا ہے۔اس لئے جب سے موبائل فون کے ذریعہ انٹرنیٹ اور شوشل میڈیا تک رسائی ممکن ہو گئی ہے تب سے انٹرنیٹ اور سماجی رابطہ کے ویب سائٹوں پر وقت گزاری اپنے عروج تک پہنچ چکی ہے۔چونکہ یہ چیز سفر و حضر میں انسان کے دست رس میں رہتی ہے ۔ اور اس کے استعمال کے لئے کسی بھی اہتمام کی ضرورت نہیں ہے ۔ لھٰذا اس کا استعمال بھی بے حد و حساب ہوتا ہے۔سماجی رابطہ سائٹوں پر وقت گزاری کا راست نتیجہ یہ نکلا ہے ۔ کہ ان سائٹوں پر مصروف انسان کے حقیقی سماجی روابط کی بنیاد کافی حد تک کمزور ہو گئی ہے۔ وہ دور درازاور انجانے لوگوں سے سوشل میڈیا کے ذریعے رابطے میں ہیں لیکن اپنے پاس پڑوس سے بے خبر ہے۔اسے اب دور کے ڈھول ہی سہانے لگتے ہیں۔قریب کے پیغامِ مسرت یا خبرِ غم اس کے لئے کوئی معنی ہی رکھتی۔باپ کی نصیحت اور ماں کے محبت بھرے بول اس کی مصروفیت میں خلل پیدا کرتے ہیں۔ ( مضمون جاری ہے۔۔۔۔باقی کل کے شمارے میں ملاخطہ فرمائیں)
cell :7006889184
[email protected]