سوشل میڈیا پر کبھی کبھی بہت ہی دلچسپ باتیں آ جاتی ہیں جنہیں سن یا پڑھ کر واقعات کا بھرپور اندازہ ہو جاتا ہے۔کسی نے کیا خوب لکھ دیا تھا کہ ’’ کانگریس کے دور میںجو کام ۷۰؍برسوں میں نہیں ہوسکا وہ کام مودی جی کے دور میں ۳؍سے ۴؍برسوں میں انجام پا گیا ۔ وہ یہ کہ عوام اپنی تکلیفوں کو لے کرپہلے ججوں کے پاس جایا کرتے تھے اور اب جج حضرات اپنی تکلیفوں کے حل کے لئے عوام کی عدالت میں آرہے ہیں۔‘‘ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے اور اسے اس طرح نظر انداز کرنا بھی مناسب نہیں ہے۔مودی جی یہ کہتے نہیں تھکتے کہ ۷۰؍برسوں میں ہندوستان میں کچھ ہوا ہی نہیں اور جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب اِنہی کے دورِ اقتدار میں ہو رہا ہے یعنی کانگریس کے دور حکومت میں کچھ نہ ہونے کا سارا الزام وہ کانگریس کے سر منڈھتے ہیں۔وہ یہ بھی کہتے نہیں تھکتے اور ان کا ہم نوا بھینگامیڈیا بھی کہ ’’فلاں کام یا پروجیکٹ پہلی بار انجام پا رہا ہے اور ہروہ کام جو وہ کرتے ہیں اس کی تاریخی حیثیت ہے ۔‘‘ جب یہ بات ہے تو انہیں آگے بڑھ کر ججوں والے واقعات کو بھی لپک لینا چاہئے کہ دیکھئے یہ واقعہ بھی پہلی بار انجام پا رہا ہے اور اِس کی بھی تاریخی حیثیت ہے لیکن وہ آج تک چپ ہیں جب کہ اس واقعے کو ۸؍روز ہو چکے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ وہ آگے بھی چپ ہی رہیں گے کیونکہ یہ واقعہ اُن کے خلاف ہے۔
کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں ایسی نظیر نہیں ملتی کہ سپریم کورٹ کیا ،کسی بھی کورٹ کے جج اس طرح میڈیا کے ذریعے اپنی بات کو عوام تک پہنچائے ہوں، کم از کم ہندوستان کی ۷۰؍سالہ تاریخ میںایسی کوئی مثال تو نہیں ہے۔میڈیا نے اسے’’ بغاوت اور غدر‘‘ کا نام تک دے ڈالا جب کہ یہ دونوں ہی الفاظ منفی معنوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ایک بی جے پی نواز ٹی وی اینکر اس موضوع پر بحث کروا رہے تھے کہ ججوں کی یہ پریس کانفرنس صحیح تھی یا غلط؟انہوں نے اس مناظرے میں شامل افراد کو دو حصوں میں بانٹ رکھا تھا یعنی موافق اور مخالف ۔ ججوں نے جو مدعا بیان کیا ہے اور جس مسئلے کی جانب اشارہ کیا ہے وہ اس پر بحث نہیں کروا رہے تھے بلکہ بحث کا رُخ پوری طرح سے کسی اور ہی جانب موڑ دیا تھا جس سے بخوبی احساس ہو رہا تھا کہ وہ کس طرح مودی اور بی جے پی نوازی کا ثبوت فراہم کر رہے تھے۔اس کے علاوہ دیگر چینلوں کا بھی انداز کچھ جدا نہیں تھا۔
اب دیکھئے نا! دو دن قبل ہی کانگریس صدر راہل گاندھی نے اپنے ایک ٹویٹ کے ذریعے وزیر اعظم مودی سے یہ گزارش کی ہے کہ اس بار وہ اپنی ’’من کی بات‘‘ میں کم از کم ۳؍ موضوعات پر روشنی ڈالیں تو مہربانی ہوگی کیونکہ یہ مشورے مودی جی نے ہی مانگے ہیںکہ لوگ اُنہیں آگاہ کریں کہ وہ کن موضوعات کا احاطہ کریں اور اپنے مشوروں کو’’ این ایم موبائل ایپ ‘‘ یعنی نریندر مودی موبائل ایپ پر بھیج دیں۔در اصل راہل نے مودی جی کو اس سال ہونے والے’ ’من کی بات‘‘ کے پہلے ایپی سوڈ کے لئے ایک طرح سے عنوانات فراہم کر دئے ۔مجوزہ عنوانات یو ں ہیں :(۱) نوجوانوں کے لئے نوکری کی فراہمی(۲) چین کو ھوکا۔لام سے خروج اور(۳)ہریانہ میں زنا بالجبرپر روک۔مودی جی راہل گاندھی کا شکریہ ادا کرتے یا کوستے اُس سے پہلے ہی اسی فاضل اینکر نے اِس ٹویٹ پر مذاکرہ کروانا شروع کردیا اور ایک مذاکرہ کارراہل سے پوچھنے لگا کہ’’ دھوکا۔لام‘‘ کہہ کر وہ کہنا کیا چاہتے ہیں؟اس کا معنی و مطلب واضح کریںاور کس نے کس کو دھوکا دیا،یہ بتائیں؟مودی نے دھوکا دیا یا آرمی نے دھوکا دیا کہ حکومت نے؟ اینکر اور مذاکرہ کار دونوں مل کر عوام کو بتانے لگے کہ اس جملے سے فوج اور حکومت دونوں کا مورال گرے گااور راہل گاندھی چین کو فائدہ پہنچا رہے ہیںاور پس منظر میں پاکستان کوبھی۔راہل گاندھی کو کیا پتہ کہ ڈوکلام کی جغرافیائی حالت کیا ہے،۲۰؍سے ۲۵؍ڈگری منفی درجۂ حرارت میں وہ ایک گھنٹہ بھی ذرا رہ کر بتائیں۔وغیرہ وغیرہ۔
دیکھئے!کس طرح مسئلے کو دوسرے راستے پر ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ’ڈوکلام‘ میں در حقیقت ہوا کیا،یہ بتلانے کے بجائے راہل گاندھی کو ہی نشانہ بنانا شروع کر دیا کہ وہ چین اور پاکستان کے حامی ہیں اور اسی موقف کو دوسرے ٹی وی چینل بھی اپنانا شروع کر دیں گے اور اس طرح رائے عامہ ہموار ہوگی جو ظاہر ہے کہ راہل گاندھی کے خلاف ہوگی اور فائدہ بی جے پی کو ملے گا۔در اصل راہل گاندھی یہ پوچھنا چاہتے ہیں اور ملک کو بتلانا چاہتے ہیں کہ ڈوکلام ایک گھپلے سے کم نہیں ۔ملک کو ڈوکلام کے تعلق سے حکومت اور میڈیا نے جو بتایا ہے وہ صحیح نہیں ہے بلکہ چین اُس جگہ پر قابض ہو گیا ہے جس کی مخالفت میں ہم دن رات ایک کئے ہوئے تھے اور اُس نے وہاں اپنی فوجی چھاؤنی بھی بنا لی ہے جو پہلے نہیں تھی۔یہ بات حکومت عوام کو بتانا نہیں چاہتی کیونکہ اس مدعے پر اس کی خارجہ پالیسی بری طرح ناکام ہو چکی ہے ۔میڈیا چونکہ حکومت کا ہم نوا ہے اس لئے وہ بھی چاہتا ہے کہ یہ بات چھپی رہے لیکن آج کے دور میں کوئی بات بھلا کیسے چھپ سکتی ہے؟ راہل گاندھی ایک ذمہ دار پارٹی کے لیڈر ہیںاور اُن کے پاس بھی خبریں بے سر پیر کی نہیں ہوتیں ۔اصل میں اُنہوں نے دھوکالام کہہ کر دُکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہے۔
اب ہم آتے ہیں عدالت عظمیٰ کے چار ناراض ججوں کی طرف۔اُن میں سے ایک جسٹس چیلامیشورہیں جن کی پوزیشن چیف جسٹس کے بعد ہی ہے،یعنی چیف جسٹس کے بعد وہ سب سے سینئر ہیں۔انہوںنے مذکورہ پریس کانفرنس میں کہا کہ سپریم کورٹ میں سب کچھ ٹھیک نہیں چل رہا ہے اور مقدمات کا الاٹمنٹ جو مختلف بنچوں کو ہوتا ہے اس میں چیف جسٹس ایک طرح سے اپنی ترجیحات پر عمل کرتے ہیں اور نمبر سے مقدمات الاٹ نہیں کئے جاتے۔اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ جس انداز سے سپریم کورٹ میں کام کاج چل رہے ہیں، اس سے لگتا ہے کہ’ ’جمہوریت‘‘ خطرے میں ہے۔اگر ہم آج ملک کو یہ باتیں نہیں بتائیں گے تو ۲۰؍ برس بعد آنے والی نسلیں کہیں یہ نہ کہیں کہ ججوں نے اپنے ضمیر کا سودا کر لیا تھا اور ملک کی’’ آخری امید‘‘ یعنی سپریم کورٹ کا بٹّہ لگا دیا۔دوسرے جسٹس رنجن گوگوئی ہیں جوانصاف کے کرکٹ میچ میں۹۹؍رن پر بیٹنگ کر رہے ہیںیعنی کہ اگلا چیف جسٹس وہی ہونے والے ہیں۔ اُنہوں نے بھی اپنی سنچری مکمل ہونے کی پرواہ نہیں کی بلکہ اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہا۔ جب ایک نامہ نگار نے اُن سے پوچھاکہ جسٹس لویا کے مقدمے کی وجہ سے آپ نے چیف جسٹس کے خلاف بغاوت کا بگل نہیں بجایا؟ تو اُنہوں نے اثبات میں اس کا جواب دیا یعنی ہاں ،ہاں دو بار کہا۔
یہ جسٹس بی ایچ لویا وہی ہیں جن کی موت پر اسرار حالت میں ۱؍دسمبر ۲۰۱۴ء کو ناگپور میں ہوئی تھی جو سہراب الدین انکاؤنٹر والے مقدمے کی شنوائی ممبئی سی بی آئی کی عدالت میں کر رہے تھے اور جس کے اہم ملزم امیت شاہ تھے۔اُن کی موت کے چند دنوں بعد ہی مقدمے کی شنوائی ہونا تھی اور اُن کے گھر والوں نے یہ الزام عائد کیا تھاکہ اُن کو ۱۰۰؍کروڑروپے بطور رشوت آفر کئے گئے تھے تاکہ وہ امیت شاہ کے حق میں فیصلہ سنائیں۔اُن کی موت کے بعد جو جج اُن کی جگہ پر آئے اُنہوں نے امیت شاہ کو اس مقدمے سے پوری طرح بری کردیا اور ایک طرح سے مقدمے کو ختم کر دیا گیا۔کچھ سر پھرے بھی تو ہوتے ہیں انہوں نے اِس مقدمے کو پھر سے چلانے کے لئے ممبئی ہائی کورٹ میں پٹیشن ڈالے۔ایسے ۲؍پٹیشن یہاں داخل ہیںلیکن ساتھ ہی ایک اور پٹیشن سپریم کورٹ میں بھی داخل کیا گیا۔کہا جاتا ہے کہ ممبئی والے پٹیشن کوسبوتاژ کرنے کے لئے ایسا کیا گیا اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ امیت شاہ کی ایما ء پر کیا گیا ہے۔خیر یہ ایک الگ بحث ہے کہ ممبئی ہائی کورٹ میں داخل اُسی نوعیت کے دو دو پٹیشن کے رہتے ہوئے سپریم کورٹ میں کیوںسماعت کے لئے منظور کیا گیا۔لیکن پیر مورخہ ۱۵؍جنوری( واضح رہے کہ ججوں نے ۱۲؍جنوری کو پریس کانفرنس کی تھی ) کو سہراب الدین انکاؤنٹرسے متعلق مقدمے کو سپریم کورٹ میں جس بنچ کو معزز چیف جسٹس نے الاٹ کیا ،اتفاق سے وہ جونیئر جسٹس ارون مشرا کی سربراہی والی بنچ ہے اور ٹی وی چینل ’’نیوز ۱۸‘‘ نے سینئر وکیل دُشینت داوے کے حوالے سے بتایا کہ کس طرح جسٹس ارون مشرا کے بی جے پی اور بڑے سیاست دانوں سے گہرے تعلقات ہیں۔ اس مقدمے سے چاروں سینئر ججوں جے چیلامیشور،رنجن گوگوئی،مدن لوکوراور کورین جوزف کو دوررکھا گیا۔
اصل بات تو در حقیقت یہی تھی جو چاروں سینئر ججوں کو پریس کانفرنس بلانے پر مجبورکی۔ایک طبقہ یہ کہتا ہے کہ ججوں کویوں پریس کانفرنس کرکے عدالت کی شبیہ کو مجروح نہیں کرنا چاہئے تھااور آپس میں یہ معاملہ حل کر لینا چاہئے تھا یعنی چیف جسٹس سے بات کرکے معاملے کو حل کر لینا چاہئے تھا یا وزیر قانون یااٹارنی جنرل وینو گوپال یا صدر مملکت سے ملنا چاہئے تھا۔رہی بات چیف جسٹس کے ساتھ حل کرنے کی تو اُن چار ججوں نے ۲؍ماہ پہلے ہی ایک خط اس تعلق سے چیف جسٹس کو لکھا تھا جسے انہوں نے میڈیا کے سامنے پیش کیا۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ چیف جسٹس صاحب نے ان کی باتوں کا کوئی نوٹس نہیں لیا اور اپنے طور طریقوں پر عمل کرتے رہے اور بادی النظر میں حکومت اور بی جے پی کو فائدہ پہنچاتے رہے۔وزیر قانون یا اٹارنی جنرل کون ہوئے؟ یہ تو سب کو معلوم ہے تو پھر یہ جج صاحبان کیوں کر اُن کے پاس جاتے! رہی بات صدر مملکت کی توایک جج نے اس کا بھی بہت خوبصورت جواب دیا تھاکہ وہ صرف تقرری کا اختیار رکھتے ہیں۔یوں بھی ہمارے یہاں صدر مملکت ،وزیر اعظم کے فیصلوں سے اختلاف کے قائل نہیں ہوتے۔۔۔اور یہ بھی سب جانتے ہیں کہ وزیر اعظم مودی جی ایسا کوئی کام نہیں ہونے دیںگے جس سے امیت شاہ کو کوئی نقصان پہنچے۔
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو، نئی ممبئی کے مدیر ہیں
رابطہ 9833999883
������