شوکت حمید
پلوامہ //ضلع پلوامہ کے لاسی پورہ میں واقع ‘انڈسٹریل اسٹیٹ لاسی پورہ میں جہاں 300سے زائد چھوٹے بڑے کارخانے قائم ہیں وہیں یہاں سیبوں اور دیگر پھلوں کو تازہ رکھنے کیلئے 23بڑے کولڈسٹور(سرد خانے ) قایم ہیں جبکہ 20کے قریب مزید کولڈ سٹور زیر تعمیر ہیں جن میں کئی ایک تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں ۔ان کولڈ سٹوروں کی بدولت گذشتہ ایک دہائی سے ملک کے مختلف حصوں میں تازہ کشمیری سیب اور دیگر پھل وقت وقت پر لوگوں کی دہلیز تک تازہ پہنچارہا ہے جس کی وجہ سے باغ مالکان کے ساتھ ساتھ میوہ صنعت سے وابستہ تاجروں اور دیگر تعلق داروں کو اچھی آمدنی حاصل ہورہی ہے ۔
گذشتہ برس کشمیر میں سیب کی صنعت کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا ۔ غیر موسمی برف باری ، موسم کی خرابی اور قومی شاہراہ کو بار بار بند ہونے کی وجہ سے سیبوں کے کاشتکار کافی پریشان ہوتے ہیں اور اب لاسی پورہ پلوامہ ، اگلر شوپیاں اور شمالی کشمیر کے کچھ علاقوں کے ساتھ ساتھ رنگریٹ سرینگر میں بھی کولڈ سٹوریج قایم ہیںجس کی وجہ سے سیب کے کاشتکاروں کی پریشانی کچھ حد تک کم ہوئی ہے کیونکہ مارکیٹ کے ساتھ ساتھ طلب اور رسد کے پیش نظر ہی اب سیبوں کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔نلے پوشورای شوپیان کے ایک نامی گرامی بیوپاری اور کاشکارغلام نبی لون نے کہا ’’کولڈ سٹوروں کے قیام سے سب سے بڑا یہ فائدہ ہوا کہ کشمیر سے نئی دہلی کی آزاد پور اور ملک کی دیگر منڈوں میں سیب ایک ساتھ نہیں جاتا ہے جس کی وجہ سے مال کی اچھی ریٹ ملتی ہے اور کاشتکار کو فائدہ ملتا ہے‘‘۔انہوں نے کہا ’’کئی سال قبل تک کشمیر میں کولڈ سٹور نہ ہونے کی وجہ سے سیب بیک وقت منڈیوں میں جاتا تھا جس کہ وجہ سے کسانوں کو نقصان ہوتا تھا اور بیشتر باغ مالکان کو سال بھر کا قرضہ بھی ادا نہیں ہوتا تھا تاہم آج صورتحال مختلف ہے ‘‘۔انہوں نے بتایا ’’ کشمیر کے ہر ضلع میں کولڈ سٹوروں کی ضرورت ہے اور حکومت کو چاہئے کہ وہ سیب صنعت کو مزید فروغ دینے کیلئے مزید اقدامات کرے تاکہ بے روزگاری کا خاتمہ ہوسکے‘‘۔شوپیان کے محمد شفیع نامی ایک میوہ تاجر نے کہا کہ کشمیرکی سیب صنعت کو شدید خطرہ لاحق ہوگیا کیونکہ اس صنعت کو اب مختلف مرحلوں سے گزرنا پڑ رہا ہے کیونکہ ایک طرف پہلے ہی ہماچل کے ساتھ ہمارا مقابلہ ہے اور اب کبھی ایرانی سیب اور کبھی امریکی سیبوں کو بھارت برآمد کرنے کی خبریں گردش کرتی رہتی ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ کشمیری سیب کا دنیا میں کوئی ثانی نہیں ہے تاہم اگر اس کے خلاف جاری سازشوں کو روکنے کی ضرورت ہے۔ویلی فرش کولڈ سٹور کے ٹیکنکل منیجر مسعود الاسلام نے کہاکہ تازہ کشمیری سیبوں کو مارکیٹ تک پہنچانے کی طرف اب ساری توجہ مبذول ہوئی ہے تاکہ لوگوں کو تازہ سیب کھانے کو میسر ہوجائیں۔انہوں نے کہا کہ کشمیر میں ہر سال 22 لاکھ میٹرک ٹن سیب کی پیداوار ہوتی ہے جو ملک کی کل پیدار کی70 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔انہوں نے کہا کہ اب 10ماہ تک سیب یہاں کولڈ سٹور میں رہتا ہے اور موسم خزان یعنی ستمبر کے وسط سے جولائی تک یہ سیزن رہتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ستمبر سے نومبر تک سیب اتارے جاتے ہیں اور اس وقت ریٹ کافی کم ہوتی ہے اور سٹور میں مال رکھنے سے اس کی ریٹ 5گنا بڑھ جاتی ہے جس کی وجہ سے باغ مالکان کو اچھا خاصا منافع ہوتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ کئی سالوں سے مارکیٹ کے غیر یقینی نرخوں ، خراب موسم اور ٹریفک کی نقل و حرکت میں خلل کی وجہ سے اب کاشتکار اپنا مال کولڈ سٹوروں میں ہی رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔