منشیات کے کاروبارکو فروغ دینے کی کوشش

 جموں وکشمیر بالخصوص ریشیوں ، منیوں،ولیوں اور بزرگان ِدین کی اس سرِزمین یعنی وادیٔ کشمیر کے لوگوں میںانتظامیہ کی نئی ایکسائز پالیسی کے تحت جموں و کشمیر میں نئی 51 شراب کی دوکانیں کھولنے پر سخت غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ لوگوں میں انتظامیہ کے اس فیصلے کے خلاف نالاں ہونا اور غم و غصہ کرنا بہت حد تک بجا ہے اورجائز بھی ہے۔ کیونکہ جہاں جموں و کشمیر میں پہلے سے ہی ایک رپورٹ کے مطابق چھ لاکھ سے زائد افراد نشے کی لت و لعنت میں گرفتار و ملوث ہیں، وہیں پر انتظامیہ کی طرف سے یو۔ٹی (U-T) جموں وکشمیرمیں شراب کی نئی اکیاون(51) دکانیںکھول رہی ہے یعنی یہاں کی نوجوان نسل کو مزید منشیات کے لت میں ڈالنے کی راہیںاستوار کررہی ہیں۔
منشیات و نشیلی ادویات کا کاروبار اور اُن کا استعمال کرنا نہ ہی قانونی طور جائز ہے اور نہ ہی شرعی طور پر۔ بلکہ اگر ہم اس چیز کو مذہبی نظریے سے دیکھیںتو بحیثیت مسلمان ہمیں اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ ہمارے مذہب یعنی "دین اسلام" میں کائنات کی رہبر اعظم حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خالق کائنات نے منشیات بالخصوص شراب کے کاروبار اور  اس کےاستعمال دونوں سے سخت طور پر منع فرمایا ہے۔ ہمارے مذہب کے ساتھ ساتھ جب ہم دنیا کے دیگر مذاہب کی تحقیق کرتے ہیں تو تقریباً ہر ایک مذہب نے نشے کو غلط ہی قرار دیا ہے۔
ہم پچھلے کئی برسوں سے دیکھ رہے ہیں کہ وادیٔ کشمیر میں کافی تیز رفتاری کے ساتھ جرائم میں اضافہ ہو رہا  ہے۔ ان جرائم میں چوری ،ڈکیتی، گھریلوتشدد، قتل و غارت، لڑائی جھگڑے اور صنف نازک پر مظالم قابل ِ ذکر ہیں ، جن میں انتہائی تیزی کے ساتھ اضافہ ہوا ہے۔ اگر ہم ان جرائم کی طرف اجتماعی و انفرادی سطح پر غور و تدبر کریں تو کہیںنہ کہیں ہمیں یہ دیکھنے کو ملے گا کہ ان جرائم میں ملوث لوگوں کی زیادہ تعداد اُن افراد کی ہے، جو منشیات سے بالواسطہ یا بلاواسطہ جڑے ہوئے ہیں۔
یو۔ ٹی جموں کشمیر میں شراب کی اکیاون(51) نئی دکانیں کھولنے کے ضمن میں وادی کے ہر ذی ہوش و با حِس افراد کی طرح میرے ذہن میں اس وقت کئی سوالات اور خیالات گردش کر رہے ہیں۔ جن سوالات میں ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ اگر انتظامیہ کے منتظمین اور متعدد سرکاری محکمے کے افسران وقتاً فوقتاً منشیات کے خلاف مہم چلا نے کے ڈھنڈورے پیٹتے رہتے ہیں اور بہت ساری تقاریب کا اہتمام کرکے نوجوانوں کو منشیات و نشیلی ادویات کی تجارت و استعمال کرنے سے باز رہنے کی ہدایت دیتے رہتے ہیں، تو دوسری طرف سے شراب کی دکانیں کھولنے کا کیا مقصد ہے؟ کیا حکمران یہ چاہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ نوجوان نشے کی لت میں ملوث ہوں؟ ہماری سمجھ میں تو یہی آرہا ہےکہ انتظامیہ کے منشیات کے خلاف تمام تر ڈھنڈورے اور دعوے محض کاغذی اور دکھاوے ہوتے ہیں۔کیونکہ ایک طرف نشے کے خلاف تقاریب کا اہتمام کرنا اور دوسری جانب کھلے عام شراب کی دکانیں کھولنا واضح کردیتا ہے کہ یو ٹی انتظامیہ خلوصِ نیت کے ساتھ یہاں کی نوجوان نسل کومنشیات کی لت سے باہر نہیں نکالنا نہیں چاہتی ہےاور یہ صورت ِ حال انتظامیہ کی طرف سے یہاں کے معاشرے کی بھلائی و بہتری کے دعووں اور کارکردگی پر یہ ایک سوالیہ نشان لگا دیتی ہے۔
مجھے یقین ہے کہ یہ سوال جموں و کشمیر کے اکثر لوگوں کے ذہنوں میں اس وقت گردش کر رہا ہوگا۔ میں انفرادی طور پر یو۔ٹی میں شراب کی نئی اکیاون(51) دکانیں کھولنے کی تجویز کی مذمت کرتا ہوں اور میں موجودہ ایل۔ جی انتظامیہ سے درخواست کرتا ہوں کہ شراب کی دکانیں کھولنے کے بجائے جموں و کشمیر میں جن لوگوں کے پاس شراب کے کاروبار کرنے کی لائسنس موجود ہیں، ان تمام لوگوں کی لائسنس کو فوری منسوخ کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ یو۔ ٹی میں رہنے والے تمام لوگوں سے میری یہی التجا ہے کہ خدارا اپنے معاشرے کے بہتر مستقبل کے لئے ، جرائم اور منشیات پر قابو پانے کے لئےبذات خود کمر بستہ ہوجائیں۔ہر علاقے اور ہر محلے میں اجتماعی طریقے پر اور انفرادی طور پر منظم کوششوں سے بُرائیوں اورخرابیوں کا خاتمہ کریں،خصوصاً منشیات کی خرید و فروخت کی راہیں مسدود کریں تاکہ کسی حد تک منشیات کے کاروبار پر روک لگ سکے۔بحیثیت ایک عام ذمہ دار شہری ہمیں چاہئے کہ موجودہ انتظامیہ کے اس فیصلے کی مذمت کریں تاکہ منشیات کے کاروبار کو مزید فروغ نہ مل سکے۔دانشوروں اور قلم کاروں کو اس بارے میں اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
(گوئیگام کنزر بارہمولہ۔رابطہ:- 8803250765)