منشیات کی وبا اور کشمیر کامستقبل ؟

منشیات کے استعمال کی وجوہات میں سے ایک بنیادی وجہ ذہنی و جسمانی آسودگی ہے۔دنیا بھر میں سینکڑوں اور ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کروڑوں انسان منشیات کے نشے میں گرفتار ہیں اور اس کی وجوہات میں الیکٹرانک ،ذرائع ابلاغ وغیرہ پر منشیات کے استعمال کو دلفریب انداز میں پیش کرنا، والدین کی ناقص توجہ اور تربیت،غلط صحبت کا اثر، دوسروں کو دیکھ کر رشک و طلب وغیرہ شامل ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا نشے کی عادت کیوں لاحق ہوجاتی ہے؟
اسلام میں ہے کہ ہر نشہ آور چیز حرام ہے اور اسکی خرابیوں سے ہر کوئی واقف بھی ہے ،اس لئے اسے ایک صحت مند انسان قبول نہیں کرسکتا۔
منشیات کا استعمال تو آدمی اپنے اختیار سے شروع کرتا ہے، لیکن جب وہ اس لت میں پڑ جاتا ہے تو وہ اپنے قابو میں نہیں رہتا، وہ اضطراراً منشیات کے خرید نے اوراستعمال کرنے پر مجبور ہوتا ہے ، چاہے کھانے کو دو روٹی میسر نہ ہو ، گھر میںبھوک اور فاقہ ہو، علاج کے لئے اہل ِ خانہ ترستے ہوں، جو اس عادت کا اسیر ہو تا ہے، وہ انسانی ضروریات کو پس پشت ڈال کر اپنی اس عادت کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اور اس طرح نشہ خوری نے بیشتر خاندان تباہ کر کے رکھ دئے ہیں۔
منشیات کی لت کو ایک اعصابی بیماری سمجھا جاتا ہے۔ جب کوئی شخص نشے کا عادی ہو جاتا ہے تو اس کے لیے منشیات کے بغیر ایک دن گزارنا بہت مشکل ہی نہیںبلکہ ناممکن   ساہوجاتا ہے۔ منشیات میں سگریٹ،ہیروئن، افیون، مارفین، براؤن شوگر، کوکین، ڈائی زیپم، چرس ،گانجا وغیرہ شامل ہیں۔
پٹرولیم اور اسلحہ کے بعد منشیات کا کاروبار دنیا کا تیسرا بڑا کاروبار ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ (2017) سے یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ دنیا میں تقریباً 25.5 ملین افراد منشیات کے استعمال کے امراض میں مبتلا ہیں۔ کشمیر بھی اس برائی میںتیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ڈرگ کنٹرول پروگرام (یو این ڈی سی پی) کے ایک سروے سے اندازہ لگایا گیا ہے کہ کشمیر میں تقریباً 70,000 لوگ منشیات کے عادی ہیں، جن میں سے 4,000 خواتین ہیں۔
حکومت کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق خطے میں چھ لاکھ لوگ منشیات سے سبب مسائل سے متاثر ہیں جو اس کی کل ایک کروڑ 36 لاکھ 50 ہزار آبادی کا تقریباً 4.6 فی صد ہیں۔ منشیات کا استعمال کرنے والوں میں 90 فی صد 17 سے 33 سال کی عمر کے افراد ہیں۔
ایک حالیہ سرکاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان دنیا کی 80 فی صد افیون پیدا کرتا ہے اور اسے منشیات کی غیر قانونی تجارت کا سب سے بڑا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ چند برسوں میں افیون کی زیادہ کاشت کے باعث تمام ایشیایی ممالک میں بھارت، بنگلہ دیش، نیپال، سری لنکا، بھوٹان، اور میانمار شامل ہیں، ہیروئن کی کھپت میں اضافہ ہوا ہے ۔ کشمیر پولیس کے سربراہ دلباغ سنگھ کا کہنا ہے کہ سرحد پار سے گولہ باری کی آمد رک گئی ہے۔ دراندازی کی نسبتاََ کم کوشش کی جا رہی ہے البتہ منشیات کی اسمگلنگ اور دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
یہاں اس بات کا تذکرہ کرنا ضروری ہے کہ کشمیر میں نشے کی لت کی شرح طلبہ ، مرد اور خواتین میں مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ڈرگ ڈی ایڈکشن سنٹر سری نگر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر مظفر خان کا کہنا ہے کہ "سکول کے بچوں میں منشیات کے استعمال کا رجحان بڑھ رہا ہے کیونکہ ہم نے ایسے بہت سے کیسز درج کیے ہیں، جن میں کلاس IX تا XII کے طلباء ملوث ہیں۔ "اس طرح کشمیر کے مستقبل کے اہم ستون نشے کی لت سے تباہ ہو رہے ہیں۔ کشمیر کے سرکاری نفسیاتی ہسپتال کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ وادی میں منشیات کے عادی زیادہ تر نوجوان ہیں۔ وادی میں منشیات کی لت میں اضافے کی شرح اتنی زیادہ ہے کہ ماہرین اور ماہرین تعلیم خبردار کر رہے ہیں کہ یہاں کی آنے والی نسل منشیات کی نذر ہو سکتی ہے۔کشمیر میں منشیات کی لت کی ایک اور اہم وجہ بے روزگاری ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ بڑھتی ہوئی آبادی اور وسائل کی کمی کی وجہ سے روزگار کے معاملے میں مسابقت بڑھ رہی ہے۔ دوسرے ممالک میں پرائیویٹ سیکٹر نوجوانوں کو مناسب مواقع فراہم کرتا ہے لیکن جموں و کشمیر میں سرکاری ملازمتیں ہی واحد آپشن ہیں۔ تاہم تمام نوجوانوں کو سرکاری شعبے میں جذب کرنا ناممکن ہےاور اس بے روزگاری کے سبب وہ نشے کے عادی بن جاتے ہیں۔
منشیات کا استعمال تو آدمی اپنے اختیار سے شروع کرتا ہے۔ لیکن جب وہ اس لت میں پڑ جاتا ہے تو اسے چھوڑنا اس کے اختیار میں نہیں رہتاہے۔جبکہ اس کی خرید و فروخت پت پابندی کے باوجوددیہ آ سانی سے دستیاب ہے بلکہ اب تو رواج کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔گویاپابندیوں کے باوجود اسکے استعمال کی شرح میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
اسکے علاوہ ٢٠١٩ میں پیدا ہونے والی بیماری کووِڈ١٩ نے سماج کے ہر فرد کو کسی نہ کسی طرحسے متاثر کرکے رکھ دیا۔بار بار لاک ڈاون ، تعلیمی اداروںکا بند رہنااورسماجی دوریوں  نے انسان کو ایک زندہ لاش بنا دیا ہے ۔نتیجتاً بہت سارے لوگ اس صورت ِ حال کی وجہ سے بھی نشے کے عادی بن گئے ہیں۔
آ ج ہمارے ملک اور یوٹی جموں کشمیر کی کئ مصروف شاہراہیں دیکھ لیں سینکڑوں نوجوان وہاں نیم بےہوشی میں پڑے نظر آ ئیں گے۔ان میں کچھ گھریلو مسائل سے تنگ آ کے نشے کی طرف راغب ہوئے اور کچھ مجنوں کے حصہ دار بن کر اس ناسور کے شکار ہوئےاور کچھ بےروزگاری اور معاشرتی بے حسی کی وجہ سےنشے کے گھیرے میں آچکے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ہر چھوٹے بڑے قصبے اور دیہات میں منشیات فروخت کرنے والے مافیا گروپ کام کر رہے ہیں۔ اگر بروقت اقدامات نہیں اٹھائے جاتے تو موجودہ نوجوان نسل برباد ہوکر رہ جائے گی ۔
وقت کا تقاضا ہے کہ اس منشیات کے خاتمے کی رفتار پر قابو پایاجائے۔ جس کے لیے  حکومتِ جموں و کشمیر کو کوئی ٹھوس قدم اٹھانا چاہئے۔ منشیات فروشوں، افیون کاشت کرنے والوں اور سائیکو ٹراپک ادویات فروخت کرنے والی کیمسٹ دکانوں کے خلاف سخت کارروائی کرنی چاہئے۔ ایک اور اہم ذمہ داری والدین پر بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ منشیات کے عادی بچوں کو ڈانٹنے کی بجائے پیار اور تحمل سےاس لت سے باز لانے کی کوششیں جاری رکھیںیہاں تک کہ اس برائی سے چھٹکارا پاسکیں۔ والدین کو تناؤ کی اصل وجہ اور اس پر قابو پانے کے طریقے تلاش کرنے میں مدد کے لیے پیشہ ورانہ ماہرین کی خدمات اور مشورے حاصل کرنا چاہیے۔
 جب تک حکومت اور سماجی ادارے اپنی ذمہ داری ادا نہیں کریں گے، اس سماجی ناسور سے نپٹا نہیں جاسکتا۔منشیات کی لت سے وابستہ خطرات اور مضمرات کو اُجاگر کرنے میں کمیونٹیز اور میڈیا کو حساس بنانے کی ضرورت ہے۔ میڈیا پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ منشیات سے جُڑے طبی، نفسیاتی اور سماجی مسائل کو اجاگر کریںتاکہ لوگوں کو اس بارے میں جانکاری فراہم ہوسکے۔ وادی کے اطراف و اکناف میں فعال مختلف NGO’s کی رسائی کو بھی پوری طرح سے بروئے کار لانے کی ضرورت ہے تاکہ مناسب اجتماعی آگاہی کا حدف حاصل کیا جاسکے۔اس سنگین مسئلے سے نپٹنے کے لئےانفرادی کاوشیں کارگر ثابت نہیں ہوسکتیں۔ لہٰذا تمام سماجی و انتظامی اداروں کو مل جل کر کام کرنا ہوگا تب جاکر منشیات کی وبا کو جموں کشمیر سے ختم جاسکتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ روزگار کے مواقع بڑھائیں تاکہ بے روزگاری مزید ڈپریشن اور تناؤ کا باعث نہ بنے۔ نشے کی لت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ضروری ہے، تاکہ جموں کشمیر کا مستقبل بچ سکے۔
(ماندوجن شوپیان کشمیر)