محمد اشرف خان
ہر ایک قوم اور سماج کا دارومدار اس قوم اور سماج کے صحت مند اور ہنرمند افراد پر ہوتا ہے۔دنیا کے تمام مفکروں ،دانشوروں، ادیبوں،قلم کاروں اور شاعروں نے قوموں کی تقدیر کو ان قوموں کے نوجوانوں کے ساتھ تعبیر کیا ہے۔اسی لیے علامہ اقبال رح نے کیا ہی خوب ارشاد فرمایا ہے۔
محبت مجھے ان نوجوانوں سے ہے ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
لہٰذا نوجوانوں کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو اعلیٰ اخلاقیات اور علم و ہنر سے مزین کریں۔ایک با اخلاق اور علم و ہنر سے آرستہ نوجوان قوم کا بہت بڑا سرمایہ ہوتا ہے۔اور جب یہی نوجوان اخلاقی طور صحت مند ہو تو یہ سماج کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔چوں کہ ہر قوم و سماج کے مستقبل کا انحصار نوجوانوں پر ہوتا ہے۔اسلئے یہ قوم کا ایک بہت بڑا سرمایہ ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کے تمام انقلابات میں نوجوانوں کا ایک قلیدی رول رہا ہے۔
لیکن بدنصیبی کی بات یہ ہے کہ آج کا ہمارے قوم کا نوجوان بہت ساری برائیوں میں مبتلا ہے اور ان میں منشیات کا استعمال سرفہرست ہے۔حالانکہ دیگر مذاہب کے ساتھ ساتھ اسلام نے اس پر پابندی لگادی ہے۔لیکن اس کے برعکس ہمارے نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد منشیات کے غیر قانونی کام میں ملوث ہے اور آئے دن متعدد نوجوان اس جان لیوا مہلک نشے کے عادی ہو رہے ہیں جو کہ ایک تشویش ناک بات ہے۔آج ہم دیکھتے ہیں کہ اسی نشہ خوری نے بے شمار گھرانوں کو برباد کر دیا ہے۔ہمارے قیمتی سرمایہ (نوجوان) کو کافی زیادہ علیل بنا کے رکھا ہے ور اسی جان لیوا عادت نے متعدد نوجوانوں کو موت کے دہانے تک پہنچایا۔
اسی نشہ خوری کی عادت نے بہت سارے جرائم کو بھی جنم دیا ہے۔حال حال ہی میں بہت ساری قتل کی وارداتیں سامنے آئیں جن کا براہست تعلق نشہ خوری سے تھا۔آئے دن ہم چوری کی وارداتوں کے متعلق خبروں کو اخبارات اور دیگر سماجی رابطوں کے چینلوں کے ذریعے پڑھتے اور دیکھتے ہیں جس سے ہر ذی حس فرد کا دل مجروح ہوتا ہے۔اس لَت کی وجہ سے ہماری نوجوانی قوت مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔ہمارا یہ قیمتی سرمایہ (نوجوان) اب کسی بھی کام کو کرنے میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرتا ہے۔یہی نوجوان اب نشہ خوری کی وجہ سے اپنی اور اپنے والدین کی ذمہ داریوں کو نبھانے سے کوسوں دور بھاگتا ہے۔ یہ طرز عمل سماج کے لئے سم قاتل ثابت ہورہا ہے۔ نشہ سماج اور قوم پر منفی اثرات مرتب کر رہا ہے۔ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ اس بری عادت کا قلع قمع کیا جائے اور اس مضر و مہلک لت میں پڑے نوجوانوں کو راہ راست پر لایاجائے ۔اس کے لئے متعدد اقدامات کرنے کی ازحد ضرورت ہے۔مثلاً نجی سطح پر والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں پر خوب نظر گزر رکھیں۔ان کے دوستوں کے بارے میں معلومات حاصل کریں۔انھیں گھر سے زیادہ دور نہ بھیجیں۔ان کو جو پیسہ خرچہ کے طور دیا جائے اس کا حساب ان سے لیا جائے۔بچوں کو کافی دیر تک کمروں میں اکیلا نہ بیٹھنے دیا جائے اور سب سے اہم ہے کہ ان کو دینی تعلیم کی طرف راغب کیا جائے۔انھیں صوم و صلوٰۃ کا پابند بنایا جائے۔ ہمارے اساتذہ کے اوپر یہ ذمہ داری عاید ہوتی ہے کہ وہ سکولی نصاب کے ساتھ ساتھ بچوں کو اخلاقیات سے بھی مزین کریں۔مزید یہ کہ ائمہ حضرات عام لوگوں کو اپنے خطبات کے ذریعے منشیات کے استعمال کے برے اثرات کے بارے میں روشناس کرائیں۔
حکومتی سطح پر نشہ خوری کو روکنے کیلئے ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔متعلقہ ایجنسیوں کو چاہیے کہ وہ منشیات کے کاربار میں ملوث لوگوں کو کیفر کردار تک پہنچائیںاور اس سلسلے میں نوجوانوں کو آگاہی فراہم کریں۔پنچائتوں کو گائوں کی سطح پر اور بلدیاتی اداروں کو شہری سطح پر متحرک ہونے کی ضرورت ہے تاکہ اس بدعت کو جڑ سے اکھاڑپھینکا جاسکے ۔
پتہ۔بنہ گام ،ہایہامہ ،کپوارہ کشمیر
(مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)