ہم نے بہت کوشش کی تھی کہ انہیں بازیاب کرالیں پر کامیابی نہ ملی۔ جب وہ چلے گئے تو انہوں نے پیچھے مڑ کربھی نہیں دیکھا ، خوبصورت رشتے کو توڑنے کے لیے رقیبوں نے پہلے سے ہی جال بچھا رکھا تھا۔ وہ رقیبوں کی باتوں میں آنے والے نہ تھے مگر بھروسہ، اعتماد، وشواس تب جواب دے گئے جب وہ ان رقیبوں کی باتیں سننے کے لیے تیار ہوگئے۔ یہ سب دیکھ کر میرا بدحال ہونا لازمی تھا۔ مجھے خوبصورت رشتہ بکھرتا ہوا نظر آنے لگا۔میںاپنی آنکھوں کے سامنے مضبوط رشتے کو کانچ کے ٹکڑوں کی طرح بکھرتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔ یقین اگرچہ نہیں آرہا تھا۔لیکن رشتہ آہستہ آہستہ زائل ہونے کا احساس توضرور ہو رہا تھا۔مگرحقیقت میں ایسا کچھ نہ تھا بلکہ یہ میری غلط سوچ تھی،ڈر تھااُنہیں کھونے کا اور شاید وہم بھی۔آخر وہ ماضی کی خوبصورت یادیں، حسین پل،مسرت بھر ے لمحات، غم اور خوشی میں ایک ہونے کے خوبصورت احساسات کو کیسے بھول سکتے تھے۔بچپن کے رشتے کو وہ کیسے ختم کرسکتے تھے ؟ وہ بھی تب !جب ہم دونوں ایک ہونے جا رہے تھے۔ہمارے پَوتر رشتے کا نام ہی بھروسہ تھا۔خود سے زیادہ ہم ایک دوسرے پر وشواس رکھتے تھے اور یہی حقیقت بھی تھی۔پریہ بھی سچ ہے کہ وہ ہمیں چھوڑ کرچلے گئے ….بہت دور۔ غم تو اس بات کا ہے کہ اتنا مضبوط رشتہ آخر اتنا کمزور کیسے پڑ گیا؟اتنی آسانی کے ساتھ بکھر کیسے گیا؟ رشتے کے دو ٹکڑے کرکے وہ کیسے جاسکتے تھے؟ یہاں وہ صرف ایک رشتے سے منسلک نہیں تھے اُن کے یہاں بہت سارے اپنے تھے اور ان سب کو وہ چھوڑ کر چلے گئے۔ اب وہ کہاں قیام پذیر تھے، اس کےبارے میں کوئی واقفیت نہ تھی۔ ہمیں تو آس تھی کہ وہ ایک دن ضرور لوٹ کے آئیں گے۔یہ بھی یقین تھا کہ وہ جہاں بھی ہوں گے وہاں سے ضرور کوئی پیغام ہمارے نام ارسال کریں گے۔ اس انتظار میں برسوں بیت گئے۔آج بھی یہی غم ستا ئے جارہا ہے کہ وہ اصل میں ہیں کہاں؟ ان کے دوستوںسے دریافت کرنا چاہا تو پتہ چلا کہ وہ خود اس بات سے بے خبر تھے۔ گھر سے چلتے وقت اُس نے ماں سے بازارتک جانے کی اجازت لی تھی اورماں نے اپنے لاڈلے کو خوشی خوشی رخصت کیا تھا۔ شام تک جب وہ گھر نہیںلوٹے تو شفیق ماں کے لیے فکر مند ہونا لازمی تھا۔گردونواح میں ان کے جاننے والوں سے معلوم کیا تو انہوں نے اپنی لاعلمی کا اظہار کیا۔ جن دوستوں کے ساتھ وہ زیادہ وقت گزارنا پسند کرتے تھے آخر وہ ان کے غائب ہونے سے انجان کیسے تھے؟ یہ سوال اندر ہی اندرسے ستا بھی رہا تھا اور پریشان بھی کر رہا تھا۔غم اب خوبصورت رشتے کے ٹوٹنے کا نہ تھا ….غم اب ماں اور بیٹے کے اٹوٹ بندھن اور نہ ختم ہونے والے عظیم رشتے کی دُو ریوں کو نزدیکیوں میں بدلنے کا تھا۔ماں کو ان کے اپنے چھوڑ کرروزمرہ کے معمولات میں مصروف ہوکر اپنے اپنے پریواروں کے لیے جینے کے سامان فراہم کرنے میں لگے تھے۔ شاید وہ اُسے اب بھول چکے تھے۔ ان حالات میں میرا ماں کا ساتھ دینا ناگزیر بن گیا تھا۔ آخر میں ان کی منگیتر تھی اور ہمارا یہ رشتہ بچپن میں ہی ہمارے دو خاندانوں نے آپسی خوشی اور رضامندی سے باندھ کے رکھا تھا۔ ماں اور میں نے مل کر انہیں ڈھونڈنے کی کوششیں شروع کیں مگر کہیں سے کچھ پتہ چل نہ سکا۔ صبح سویرے گھر سے نکلنا اور شام کو واپس آنا جیسے ہمارا معمول بن چکا تھا۔ روز گھنٹوں کی مسافت پیدل طے کرکے انہیں تلاش کرنا ہمارا مقصد بن چکا تھا۔لیکن کہیںسے بھی ان کے بارے میں کچھ پتہ چل نہیں پا رہا تھا ۔میں اب جیسے ہمت ہار چکی تھی لیکن ماںروز نئی ہمت اور نئے حوصلے کے ساتھ اُن کی تلاش میںسرگرداں رہتی تھی۔
آخر میرا بھی کیا قصور تھا ؟میری نئی زندگی کی شروعات بھی نہیں ہوئی تھی کہایسی جدائی آپڑی۔ازدواجی زندگی سے منسلک ہونے سے پہلے ہی تقدیر نے بڑی بے رحمی سے ہمیں جدا کرکے رکھ دیا۔میرے پاس اُن کی یادیں ہی تھیں جن کے سہارے دن گزر رہے تھے۔جس وقت وہ اچانک غائب ہوگئے اس وقت شادی کی تیاریاں زوروں پر تھیں۔ وہ بہت خوش تھے کہ ہمارے دونوں خاندانوں کی خواہش پوری ہونے والی ہے، لیکن ازدواجی زندگی سےمنسلک ہونے سے پہلے ہی تقدیر نے بڑی بے رحمی سے ہمیں جدا کر دیااچانک ایک دم سے ان کا چلا جانا میرے لیے ایک عذاب بن گیا تھا۔میرے لئے انکی یادوں کےسوا زندہ رہنے کےلئے کچھ بھی نہ بچا لیکن غم اور پریشانی کے اس ماحول میں میری طبیعت بگڑنے لگی……ادھر ماں کی حالت بھی گھمبیر ہوتی جارہی تھی۔ ہم دونوں میں اب انہیں گھر سے باہر تلاش کرنے کی قوت باقی نہ تھی۔ ماں کا رونا اور تڑپنامجھ سے دیکھا نہیں جا رہا تھا۔دھیرے دھیرے ماں کی حالت ابتر ہونے لگی، وہ اپنے لخت جگر کے کپڑے اپنے پاس رکھ کر ان سے باتیں کرتی تھیں، ماں کو بیٹے کے خالی کپڑوں میں اپنا بیٹا نظر آرہا تھا۔ کپڑوں کو چومنا اور ان سے باتیں کرنا ماں کی شدید تکلیف اور درد بھرا ء احساس ایک تصویر تھی۔ مجھے اب دن کی روشنی میں اندھیرا نظر آرہا تھا اور کہیں سے جیسے کچھ دکھائی نہیں دےرہا تھا۔ اتنے میں ماں نے، جو بستر دراز تھی، کراہتے ہوئے کہا۔ وہ دیکھ میرا بیٹا جا رہا ہے۔ اندھیرے میں آگے بڑھ رہا ہے۔ میں اس کے پاس جارہی ہوں۔ میں نے ماں کی طرف دیکھا تو اُس نے آخری ہچکی لی اور اسکی گردن ایک طرف لڑھک گئی۔
رابطہ: ڈاڈہ سرہ ترال، کشمیر
فون نمبر9797984246