منافرسیاست کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر!

              ایسا پہلی بار نہیں ہے کہ سیکولرزم کی علم بردار سب سے بڑی سیاسی پارٹی کانگریس کے کسی لیڈر کے بیان سے ملک کے سیکولر طبقے کو ٹھیس پہونچی ہے۔لیکن اس بار یہ بیان کانگریس کے ایک بڑے ر ہنما اور سابق صدر راہل گاندھی کی جانب سے آیا ہے جنہیں پارٹی میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ راہل گاندھی نے جے پور میں مہنگائی کے خلاف ہونے والے ایک پروگرام میں مہنگائی پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے ہندوتوا اور ہندو کا فرق واضح کرتے ہوئے کہا کہ2014 کے بعد سے ہندوستان میں ہندوتوادیوں کی حکومت ہے ہندوئوں کی نہیں، ہندوتوادیوں کی حکومت ختم کر کے ہندوئوں کی حکومت قائم کرنا ہے۔ وہ یہیں پر نہیں رُکے، آگے ان کے الفاظ تھے یہ ملک ہندوتوادیوں کا نہیں بلکہ ہندوئوں کا ہے۔یہاں پر وہ نہ صرف آئین ِ ہند سے بلکہ کانگریس پارٹی کے اصولوں سے بھی انحراف کرتے نظر آتے ہیں۔آئین کے مطابق یہ ملک ہندوئوں، مسلمانوں ،سکھوں ،جینوں ،بودھوں، پارسیوں سمیت ان تمام لوگوں کا ہے جو اس ملک کے شہری ہیں، اور کسی کے ساتھ مذہب ، ذات یا جنس کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں کی جا سکتی۔ اور کم سے کم اصولی طور پر کانگریس پارٹی کا بھی یہی نظریہ رہا ہے۔ بظاہر ایسا نہیں لگتا کہ وہ آر ایس ایس کے اس نظریہ سے متاثر ہیں کہ ہندوستان کی جغرافیائی حدود میں رہنے والا ہر شخص ہندو ہے، خواہ اس کا مذہب کچھ بھی ہو اور آر ایس کے موجودہ سربراہ برابر اس نظریہ کو اپنے بیانات میں دہراتے بھی رہتے ہیں بلکہ وہ’ سافٹ ہندوتوا‘ کی سیاست کرتے لگ رہے ہیں۔ حالانکہ انکی ہی پارٹی کے ایک سینیر لیڈر ششی تھرور ان کو آگاہ کرچکے ہیں کہ کانگریس پارٹی کا فرض ہے کہ وہ سیکولرازم کی حفاظت کرے۔ آر ایس ایس کا نظریہ خواہ کچھ بھی ہو لیکن لفظ’ ہندو‘ آج کے دور میں مذہبی شناخت کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ اس لئے ملک کے ہر شہری کو ہندو قرار نہیں دیا جا سکتا۔
        یہ صحیح ہے کہ مذہب کی بنیاد پر ملک کی تقسیم ہوئی اور پاکستان کی شکل میں ایک مذہبی ریاست قائم ہوئی۔ لیکن اس وقت ہمارے عظیم قومی رہنمائوں ، مہاتما گاندھی، پنڈت جواہر لعل نہرو، سردار پٹیل ، مولانا ابوالکلام آزاد، ڈاکٹر راجندر پرساد ، ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈکر وغیرہ وغیرہ نے ملک کو ایک سیکولر ملک بنایا۔ اور ملک کے آئین میں ہر مذہب کے احترام کو ملحوظ رکھا ۔ نہ تو اکثریت کے مذہب کو زیادہ اہمیت دی گئی اور نہ اقلیتوں کے مذاہب کی اہمیت کم کی گئی۔ایک سیکولر رپبلک کی حیثیت سے ملک ترقی کی منزلیں طے کرنے لگا۔لیکن ساورکر کے ہندوتوا کے نظریات کا حامی ایک طبقہ جو کہ آزادی سے قبل سے ہی موجود تھا اورجس نے آر ایس ایس اور ہندو مہا سبھا جیسی تنظییں قائم کی ہوئی تھیں۔ ملک کی تقسیم کی ذمہ داری مسلم لیگ کے ساتھ ساتھ اس طبقہ پر بھی عائد ہوتی ہے کیوں کہ ان کے مسلم مخالف نظریہ کی تشہیر نے کچھ مسلمانوں کو آزاد ہندوستان  میں اپنے مستقبل کو لیکر عدم تحفظ کے احساس میں مبتلاء کر دیا  تھا۔ مسلم لیگ نے اس صورتِ حال کا فائدہ اٹھایا۔یہ ہندوتوادی طبقہ سیکولرزم کی بیخ کنی کی ہمیشہ کوشش کرتا رہا۔ لیکن عوام میں قبولیت برائے نام ہونے سے مجبور رہا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حالات میں تبدیلی آنے لگی۔ تعلیم عام ہونے کے ساتھ ساتھ مذہبی تفاخر کے جذبات بھی بیدار ہونے لگے۔ اگرچہ ملک کا آئین سیکولرہے لیکن سرکار ی اداروں کے کاموں میں دھارمک علامات کا استعمال ہونے لگا۔ سنگ بنیاد کے موقع پر بھومی پوجن، افتتاح کے موقع پر ناریل توڑنا یا کوئی پروگرام شروع کرنے پر سرسوتی پوجا اور دیپ جلانے جیسی مذہبی رسومات عام ہو گئیں۔ زیادہ تر سرکاری عمارتوں ، پارکوں اور چوراہوں یا سڑک کے کنارے مندروں کی تعمیرہوتی گئی۔ مذہبی بنیاد پر تعصب بھی سماجی شعور کا حصہ بنتا گیا۔اور ان سارے معاملات میں سیکورازم کی سب سے بڑی علم بردار کانگریس پارٹی نے جو اس وقت مرکز اور صوبوں میں حکمراں ہوا کرتی تھی غفلت برتی۔ اس کے بعد آیا وہ دور جس نے سیکولرازم کی بنیاد متزلزل کر دی، بابری مسجد جس میں آزادی کے کچھ عرصے بعد ہی بت رکھ دئے گئے تھے کو رام جنم بھومی قرار دیکر تحریک شروع کر دی گئی۔ اس کے بعد1992 میں بابری مسجد کی مسماری کے واقعے نے نہ صرف ہندوستان کی سیکولر شبیہ کو داغدار کیا بلکہ جمہوریت اور سیکولرزم پر اعتماد بھی مجروح ہوا، رہی سہی کسر 2002  کے گجرات کے فسادات کے دوران ہوئے قتل عام نے پوری کر دی۔ کتنا حیرت انگیز تھا کہ اس ایک واقعے نے صوبے کے وزیر اعلیٰ کو راتوں رات ملک کا مقبول ترین قومی لیڈر بنا دیا۔ حا لانکہ اس کے بعد سیکولرازم کی علمبردار کانگریس اور دیگر سیکورازم کی دعویدار پارٹیوں کے اتحاد کو 2004  سے2014 تک دس سال حکومت کرنے کا موقع ملا لیکن سیکولرازم کی بقا کے لیے عملی طور پر کچھ نہیں کیا گیا۔  
      2014 میں بی جے پی نے مکمل اکثریت کے ساتھ اقتدار سنبھالا۔ اس کے بعد کا دور سیکولرزم کے انحطاط کا دور ہے ۔ ملک کی سیاست کا رخ تبدیل ہو گیا۔ پالیسیاں اکثر یت کی منشاء اور عقائد کے مطابق ڈھلنے لگیں۔ گائے کو صدیوں سے ہندوئوں کا ایک طبقہ ماتا کا درجہ دیکر اس کا احترام کرتا رہا ہے۔وہ سانس میں آکسیجن لیتی ہے اور آکسیجن ہی چھوڑتی ہے جیسے مضحکہ خیز دعوے کئے جانے لگے۔ اس کے گوبر اور پیشاب کی پاکیزگی اور طبی فوائد کے بارے میں مبالغہ آرائی کی حدیں پار کر دی گئیں۔ سیکولرازم کا مطلب ہے کہ حکومت کو کوئی مذہب نہیں ہوگا لیکن اب عملی طور پر ہندو مذہب حکومت کا مذہب بن گیا ہے، سیکولرازم ایک قصہ ٔپارینہ بن چکا ہے۔ لیڈران ایک زمانے میں مذہبی معاملات سے دوری بنا کر رکھتے تھے۔ لیکن اب وہ بات باقی نہیں رہی۔ عدا لتوں کے فیصلے بھی اکثریت کے مذہبی عقائد یا آستھا کے مطابق ہونے لگے۔ اب ہندوئوں کے مذہبی پروگرام بھی سرکاری ایوینٹ بن جاتے ہیں۔ چاہے وزیر اعظم مودی کا رام مندر کاشیلانیاس کرنا ہو یا کاشی کیریڈور کا افتتاح ہو، وہ پورے دھارمک پریدھان میں رسومات ادا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔تازہ مثال ہندو مہا کنبھ میں سرکار کی حاضری ہے۔ ملک کی سب سے بڑی سیکولر پارٹی کانگریس بھی تشٹی کرن کے الزامات سے خوفزدہ ہو کر مسلم معاملات سے دوری بنائے ہوئے ہے۔ وہی تشٹی کرن جس کی اصل حقیقت سچر کمیٹی کی رپورٹ نے واضح کر دی تھی۔ اب کانگریس میں کوئی بھی لیڈر مسلمانوں کے مسائل کی بات کرنے والا نہیں ہے، اس ڈر سے کہ انھیں مسلمانوں کا حمایتی قرار دیا جائے گا۔ ہاں ہندوئوں کی حمایت حاصل کرنے کے لئے انھیں مندروں میں درشن کرنے جانا اور جنیئو دکھانا گوارہ ہے۔ سونیا گاندھی بھی اعتراف کر چکی ہیں کہ انھیں مسلم نوازی کے الزامات کے ڈر نے مسلم معاملات سے دور رکھا ہے۔ اسی بنا پر الیکشن کے جلسوں سے بھی مسلم چہروں کو دور رکھا جاتا ہے۔ویسے بھی مسلمانوں کی حالت سیاسی طور پر دگرگوں ہے۔ ان پارٹیوں میں بھی کوئی مسلمانوں کا نام لیوا نہیں، جن کا عروج ہی مسلمانوں کے ووٹوں کے دم پر ہوا تھا۔ بابری مسجد کے سانحے کے بعد کانگریس سے دل برداشتہ ہو کر مسلمانوں نے جن پارٹیوں کو مضبوطی بخشی تھی، وہ بھی اس خوف سے مسلمانوں سے کنارہ کش ہیں کہ ہندو ووٹر ناراض نہ ہو جائیں۔اگرچہ قرون وسطیٰ کی مسلم حکومتوں کو لیکر ایک زمانے سے مسلمانوں کو معتوب قرار دیا جاتا رہا ہے لیکن  2014 کے بعد سے سو شل میڈیا پلیٹ فارموں ،واٹس ایپ، فیس بک، انسٹاگرام وغیرہ سے اور سرکار کا حمایتی میڈیاجسے عرف عام میں گودی میڈیا کہا جاتا ہے سے نفرت کی وہ آندھی چلائی گئی کہ نہ صرف مہاتما گاندھی اور جواہر لعل نہروکو ویلن قرار دے دیا گیا، بلکہ گوڈسے کو قابلِ تعظیم ٹھہرایا گیا ۔عمومی طور پر مسلمانوں کو ملک دشمن اور دہشت گرد ثابت کرنے میں ساری طاقت صرف کر دی گئی، عام ہندووں کے ذہنوں میں بھی مسلمانوں کے خلاف ایسے جذبات ابھارے گئے کہ مسلمانوں کی ذہنی اور جسمانی تکلیف ان کئے باعث ِمسرت ہو۔سماج اور حکومت کا کوئی حلقہ اس سے مبرا نہیں رہا۔ مسلمانوں کو خوامخواہ جناح اور پاکستان کا حمایتی سمجھ کر معتوب کیا جا رہا ہے۔ مذہبی بنیاد پر قانون سازی کی جا رہی ہے۔ جس کی مثال طلاق ثلاثہ، لو جہاد، این آر سی ، سی اے اے ، تبدیلی مذہب جیسے قانون ہیں اور اب یکساں سول کوڈ کی آہٹ بھی سنائی دینے لگی ہے۔ الیکشن کے جلسوں کی شروعات اور اختتام جے شری رام کے نعرے سے ہونا عام بات ہے۔ الیکشن میں شمسان بنام قبرستان کر کے مسلمانوں کو مطعون کیا ہی جا چکا ہے۔ الیکشن کے مدعوں میں پاکستان، جناح کے ساتھ ساتھ اورنگزیب اور اکبر بھی شامل ہو گئے ہیں، وہ بھی اس اعتماد کے ساتھ کہ عوام کی دلچسپی بھی اب مہنگائی، بے روزگاری اور صحت میں نہ ہو کر انہیں جذباتی باتوں میں ہے۔ ان حالات نے مسلمانوں کے نام پر سیاست کرنے والے اسد الدین اویسی کو بھی موقع دیا ہے کہ وہ مسلم سیاست کا دائرہ وسیع کریں۔ وہ مسلمانوں کو اپنی سیاست اور اپنی قیادت کا مشورہ دے رہے ہیں اور مسلمان اس مشورے پر کان بھی دھرتے نظر آ رہے ہیں۔ بارہ فیصد مسلم اقلیت اپنی الگ سیاست کر کے ایک جمہوریت میں کیا حاصل کر سکے گی کہنا مشکل ہے  لیکن اس طرح کی مذہبی سیاست بھی سیکورازم کے لئے نیک شگون نہیں ہے۔اب جب کہ سیاست میں ہندویت ایک ٹھاٹیں مارتا ہوا سمندر ہے اور سیکولرازم کی کشتی میں سوراخوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہےتو آنے والے وقتوں میں ہندویت کے سمندر میں سیکورازم کی کشتی کی غرقابی یقینی ہے اور اس طرح ملک کا باضابطہ طور پر ہندو راشٹر بن جانے کا قوی امکان ہے ۔
( رابطہ۔Mb.9450191754,  )