ڈیڑھ سال کے عرصے میں کرونا وبا نے ملک کے ہر طبقے اور پیشے پر اپنے منفی اثرات چھوڑے ہیں، لیکن ایک پیشہ جس سے منسلک افراد کی ہر شخص نے دل سے تعریف کی ہے اور اس کی خدمات کو دل سے سراہا ہے وہ ہے ڈاکٹری کا پیشہ۔ انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن یعنی آئی ایم اے کے مطابق اس عرصے میں 1017ڈاکٹر جاں بحق ہوچکے ہیں، یہ تعدا داور بھی زیادہ ہوسکتی ہے کیونکہ ملک کا ہر ڈاکٹر ائی ایم اے سے منسلک نہیں ہے اور ملک میں ڈاکٹروں کی تعداد 12لاکھ سے بھی زیادہ ہے۔
ایک بڑی حد تک ملک کا ہر شہری ڈاکٹروں اور نیم طبی عملے کا شکرگزار ہے کہ جس طرح کے ماحول میں انھوں نے اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے خدمات انجام دی ہیں وہ قابلِ ستائش ہیں۔ لیکن مجموعی طور پر ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کہ ملک کا صحتی و طبی نظام ایک طرح سے اس وبا کے دوران دم توڑتا نظر آیا اور اس نے ہمیں ا س کے لیے ذمہ دار وجوہات جاننے اور ان کا تجزیہ کرنے اور مختلف سوالوں کے جواب ڈھونڈنے پر مجبور کیا ہے۔
ہندوستان کا طبی بجٹ:
مجموعی طور پر یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ گزشتہ ۷۰ سال کے عرصے میں جتنا پیسہ ملک کے صحتی و طبی نظام کو مضبوط کرنے کے لیے صرف ہونا چاہیے تھا،اتنا نہیں ہوا۔ حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان کے دفاعی بجٹ میں ہر سال اوسطاً 9فیصد کا اضافہ ہوا ہے اور سن 2019 میں ہندوستان عالمی سطح پر دفاعی ساز و سامان خریدنے والا تیسرا سب سے بڑا خریدار تھا، اس کے مقابلے میں حقیقتاً ملک کے طبی بجٹ میں ہر سال کمی ہی واقع ہوتی ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ گزشتہ پندرہ سال کے عرصے میں ملک کی مجموعی قومی پیداوار یعنی کہ GDPکا صرف ایک فیصد ہی طبی نظام کو بڑھانے اور بہتر کرنے پر صرف کیا گیا۔ سن 2014میں حکومت نے اعادہ کیاتھا کہ اگلے پانچ سال میں GDPکا دو فیصد سے تین فیصد طبی اور نظامِ صحت کی مزید بہتری پر خرچ کیا جائے گا۔ لیکن ایسا ابھی تک نہیں ہوا ہے۔ سن 2017کی قومی صحت پالیسی میں یہ ہدف طے کیا گیا تھا کہ سن2025تک GDPکے 2.5فیصد کو نظامِ صحت کو بہتر کرنے اور اس کے فروغ پر خرچ کیا جائے گا۔ لیکن درحقیقت ابھی تک ایسے کوئی بھی آثار نمایاں نہیں ہوا ہے، جس سے کہ ان اہداف کو پانے کی جانب کوئی مثبت پہل ہوتی نظر آتی ہو۔ گزشتہ سال 12مئی کو حکومت نے شعبے صحت کے لیے 20لاکھ کروڑ روپئے کے ایک نئے معاشی پیکیج کا اعلان کیاتھا۔لیکن درحقیقت یہ رقم بھی ملک کی GDPکا صرف 0.08فیصد ہی ہے۔
درحقیقت یہ پیکیج نجی شعبے کے اسپتالوں اور دیگر طبی اداروں کے لیے لایا گیا تھا، جب کہ اصل میں وبا کے دوران نجی طبی شعبے کی کارکردگی کوئی زیادہ کارآمد نہیں تھی۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس پورے عرصے میں نجی شعبے کے اسپتالوں نے کل مریضوں کی تعداد کے صرف 10فیصد کو ہی طبی سہولیات مہیا کرائیں اور وہ بھی بہت زیادہ خرچے پر!
ملک کا نظامِ صحت:
آزادی کے بعد سے ہر شہری کو آسان اور مفت یا کم خرچے پر طبی خدمات فراہم کرانے کی شروعات کی گئی تھی، جس کے تحت ہر حکومت نے زمینی سطح پر طبی سہولیات مہیا کرانے کے لیے جونظم بنایا تھا، اس کے تحت ملک کے بڑے گاؤں میں اور زیادہ آبادی والے شہری علاقوں میں بھی پرائمری طبی مراکز (PHC)قائم کیے گئے اور ہر ضلع میں ضلع اسپتال قائم کیا گیا، جہاں ہر مرض کے ماہرین اورسرجن موجود ہوتے تھے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ قومی اور ریاستی حکومتوں کا بھی ا س طرف سے دھیان ہٹنا شروع ہوگیا اور آہستہ آہستہ یہ طبی نظام دم توڑنے لگا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ ہر ریاست اپنے ریاستی بجٹ کے بجائے قومی بجٹ سے اس شعبے کو تقویت اور استحکام بخشنے کے لیے پیسے کا مطالبہ کرتی تھی اور قومی حکومتوں کی ترجیحات مسلسل بدلتی رہیں۔
دراصل اس کی ایک بڑی وجہ ملک میں صحت کے شعبے میں نجی شعبے کو شامل کرنے سے منسوب تھی۔ 80 کی دہائی میں مختلف ریاستی حکومتوں نے چھوٹے نرسنگ ہوم قائم کرنے کے لیے آسان شرائط پر قرض مہیا کرنا شروع کیا، اور پھر اگلی دہائی یعنی سن ۱۹۹۰ء تک اس شعبے میں کارپوریٹ اداروں کی شمولیت بھی شروع ہوگئی۔ ان نرسنگ ہومز اور کارپوریٹ اسپتالوں کے پھیلاؤ اور ترقی کے لیے سرکاری اسپتالوں کو نہ کے برابرکام کرنا تھا، جو کہ اب مالی ذرائع کم ہونے کی وجہ سے بالکل بیکار ہوتے جارہے تھے اور ساتھ ہی وہاں نوکری کرنے والے ڈاکٹرس موٹی تنخواہوں کے لالچ میں نجی اسپتالوں سے جڑتے جارہے تھے۔
نظامِ صحت کی بدحالی کے اسباب:
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ملک میں موجود نظامِ صحت کو ختم کرنے کی ایک بڑی وجہ حکومت کی بے رخی اور نجی شعبے کی زیادہ منافع کمانے کی پالیسی بھی رہی ہے جس نے اس نظام کو بڑی حد تک کمزور کیاہے۔
پہلے صحت سے متعلق پڑھائی مہنگی رکھی گئی، اس کے ساتھ ہی تعلیم کے شعبے میں نجی کالجوں کی ملک میں بھرمار کردی گئی جو کہ ایک موٹی فیس لے کر ڈاکٹری کے مختلف کورسز میں داخلے دیتے تھے۔ اب جب آپ ایک خاطر خواہ رقم دے کرپڑھائی کریں گے تو پڑھائی مکمل کرنے کے بعد عملی زندگی میں آپ کا رویہ اس پیسے کو واپس حاصل کرنا رہے گا جو کہ آپ کے گھر والوں نے آپ کی پڑھائی پر خرچ کیے ہیں۔ تو اس طرح ایک مقدس پیشہ جس میں پہلے مریض کو شفا دینا اصل مقصد سمجھا جاتا تھا وہاں اب اصل مقصد پیسہ کمانا ہوگیا تھا۔ دیگر یہ کہ کارپوریٹ اداروں کے اسپتالوں میں ڈاکٹرس کو موٹی تنخواہوں پر نوکری دی جانے لگی لیکن اس کے لیے ان ڈاکٹروں کو ادارے کی مالی صحت، مریض کی صحت سے زیادہ اہمیت رکھنے لگی اور یہ پیشہ صرف زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کا ایک ذریعہ ہوگیا نا کہ خدمت خلق کا۔
اس کے علاوہ اگر ہم اس شعبے سے متعلق دیگر ضروری اشیا اور خدمات مہیا کرانے والے اداروں کا تجزیہ کریں گے تو پائیں گے کہ اس کے تمام ضوابط طے کرنے اور انھیں مہیا کرانے والے دیگر اداروں کی کمان تربیت یافتہ ڈاکٹروں کے بجائے نوکر شاہوں کے ہاتھ میں ہے جو کہ ان تمام خدمات اور سہولیات میں بدعنوانی کے بڑھنے کی اہم وجہ رہی ہیں۔ مثلاً دواؤں کی قیمت طے کرنے والے ادارے یعنی Drug Price Controlerکا پورا نظام نوکرشاہوں اور بابوؤں کے ہاتھ میں ہے جسکی وجہ سے ادویات بنانے والی کمپنیاں من مانے داموں پر اپنی ادویہ کی فروخت کرتی ہیں اور ان کا منافع زیادہ تر 400سے 500فیصد تک بھی ہوتا ہے کیونکہ ان ادویات کی قیمت بابو طے کرتے ہیں ناکہ کوئی تجربہ کار ڈاکٹر۔
مستقبل کی راہ:
اگر ہمیں ملک کے ہر شہری کو کم قیمت پر اعلیٰ درجے کی طبی سہولیات مہیاکرانی ہیں تو اس کے لیے ہمیں ملک کے نظامِ صحت میں تنظیم نو کے علاوہ اپنی فکر میں بھی بدلاؤ لانا ضروری ہے۔ ڈاکٹری کے پیشے کی بنیادی فکر کو دوبارہ قائم کرکے ہی پیشے سے جڑے افراد کو مالی فائدے کے بجائے انسانی فلاح کی جانب دوبارہ راغب کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے سب سے پہلے ہمیں یہ یقینی بنانا ہوگا کہ صحت سے متعلق تمام تعلیمی ادارے سرکاری دیکھ ریکھ میں ہی کام کریں اور نجی شعبے کو اس سے بالکل الگ کرنا ہوگا۔ دوسرے جو بھی طلب علم ڈاکٹری کی پڑھائی پوری کرچکے ہوں انھیں سند دینے سے پہلے کسی گاؤں یا قصبے کے پرائمری ہیلتھ سینٹر میں کم از کم دو سال تک کام کرنے کو لازمی قرار دیا جائے جس سے کہ وہ عوام کی ضروریات کو زیادہ بخوبی سمجھ اور محسوس کرسکیں۔
تیسرے نظامِ صحت سے متعلق تمام اداروں کی رہنمائی پیشہ ور ڈاکٹروں کے ہاتھوں میں ہونی چاہیے۔ چوتھے نجی دوا ساز کمپنیوں کو اپنی دوائیں بیچنے کے لیے سرکاری اسپتالوں کے ڈاکٹروں سے رجوع کرنے پر پابندی عائد کرنی چاہیے۔
پانچویں اور سب سے ضروری یہ کہ سرکاری اسپتالوں کی دیکھ ریکھ حکومت کے ہاتھوں میں ہونیچاہئے نہ کہ نجی شعبے ۔مجموعی طور پر ہم بدعنوانی اور اقربا پروری پر روک لگاکر ہی اس مقدس پیشے کو اس کا وقار دوبارہ دے سکتے ہین جس کے ذریعے نہ صرف یہ کہ ہمارا ہر شہری مطمئن ہو بلکہ ملک بھی مضبوط ہو۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ۔ ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمز ،دبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں)
Email: [email protected]
������