ملوثین کے خلاف کارروائی ہوگی:وزیراعلیٰ

جموں //شوپیاں جیسے واقعات کو امن عمل کیلئے نقصان دہ قرار دیتے ہوئے وزیر اعلی محبوبہ مفتی نے کہاکہ ہندو پاک کے درمیان تعطل کا شکار مذاکراتی عمل کو دوبارہ شروع کیا جائے تاکہ نہ صرف اندرون ریاست بلکہ سرحدوں پر بھی امن قائم ہوسکے۔ ایوان زیریں میں اپوزیشن ممبران کی طرف سے پیش کی گئی تحریک التوا پر ہوئی بحث کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعلی نے کہاکہ شوپیان واقعہ پر کارروائی کی جائے گی اور اسی سے اداروں کو نظم و ضبط کا پابند بنایا جاسکتا ہے۔ شوپیاں واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے محبوبہ مفتی نے ایوان کو اس بات سے مطلع کیاکہ اس سلسلہ میں کیس درج کیاگیاہے اور ڈپٹی کمشنر شوپیاں تحقیقات کررہے ہیں۔ انہوں نے واقعہ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہاکہ پچھلے 30 سال سے ایسے واقعات رونما ہورہے ہیں اور اگر کبھی حالات ٹھیک ہو بھی جائیں تو پھر کوئی نہ کوئی ایسا ناخوشگوار واقعہ رونما ہوجاتا ہے جس سے حالات اسی نہج پر پہنچ جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر کسی مسئلہ کا کوئی حل ہے تو بات چیت میں ہی مضمر ہے۔انہوں نے شمالی کوریا اور امریکہ میں پائی جارہی کشیدگی کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ دھمکیوں کے بعد امریکی صدر بالآخر مذاکرات کی بات ہی کرتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ ہندو پاک کے درمیان کشیدگی کا نشانہ ریاست کے لوگوں کو بننا پڑتا ہے۔ وزیر اعلی نے اٹل بہاری واجپائی کی طرف سے کیے گئے اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ بدقسمتی سے جب بھی کوئی پیشرفت ہوئی تو کوئی نہ کوئی واقعہ پیش ہوجاتا رہا اور نتیجہ کے طور پر 10 سال کی یہ محنت کسی انجام تک پہنچے بغیر ہی ختم ہوگئی۔ انہوں نے نیشنل کانفرنس کا نام لئے بغیر کہاکہ ہم نے کبھی نہیں کہاکہ پاکستان پر بم گرایاجائے بلکہ ہمیشہ بات چیت کی حمایت کی۔ وزیر اعلی نے کہاکہ آج خوشی ہے کہ اس ایوان میں ہر ایک بات چیت کی حمایت کررہاہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کئی ورکنگ گروپس بنے جنہوں نے رپورٹیں پیش کیں جن میں ہر طرح کے درد کا علاج بتایا گیا تھا اور اعتماد سازی کے اقدامات اٹھانے کی سفارش بھی ہوئی لیکن بدقسمتی سے یو پی اے کے دور میں کوئی کام نہیں ہوا۔ انہوں نے پی ڈی پی اور بھاجپا کے درمیان اتحاد کو ریاست کے دوخطوں میں اتحاد سے تعبیر کرتے ہوئے کہاکہ جموں میں بھائی چارے کا ماحول ہے اور خوشی ہوتی ہے کہ یہاں سڑکوں پر سبھی اکھٹے چلتے ہیں۔انہوں نے کہا آج جب میں جموں کا ماحول دیکھتی ہو جموں کی سڑکوں پر سب سے بڑی تعداد کشمیریوں کی ہوتی ہے ۔انہوں نے کہا ’’مجھے کسی نے بتایا میں اُس کا نام نہیں لیتی ۔اُس نے مجھے کہا کہ باجی جب میں جموں آتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ میں آزاد ہو گیا ہوں ۔اتنی تنی بے فکری سے یہاں پنڈت مسلمان ،سکھ گومتے ہیں ۔ اگر ہم جموں کے مینڈیٹ کو علیحدہ کردیتے تو کیا ریاست میں 1987 کی تاریخ دہرائی جاتی جب ایک مینڈیٹ کو الگ کیا گیا اور ساتھ ہی جموں کے لوگ مینڈیٹ کو ٹھکرائے جانے پر برہم رہتے ۔انہوں نے کہاکہ دونوں خطوں کے عوام کی نمائندگی کو دیکھتے ہوئے کم از کم مشترکہ پروگرام مرتب کرکے حکومت بنائی گئی۔ وزیر اعلی نے کہاکہ موجودہ وزیر اعظم ایک بڑی پہل کرتے ہوئے بغیر کسی دعوت کے پاکستان چلے گئے مگر بدقسمتی سے پٹھانکوٹ اور اوڑی جیسے واقعات رونما ہوئے لیکن اگر مذاکرات کا سلسلہ منقطع ہوگیا تو یہی انجام نہیں ہونا چاہیے بلکہ پھر سے اس سلسلہ کو شروع کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہاکہ حکومت نے سنگ بازوں کو عام معافی دی جن کو سابق حکومت کے دور میں کئی کئی جرائم میں پھنسایا گیا۔ وزیر اعلی نے ہلاکتوں کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ مرنے والے بچے ہمارے ہیں جو باہر سے نہیں آئے۔ انہوں نے کہاکہ یہ ایک بڑا مسئلہ اور اس کے نتائج سنگین ثابت ہورہے ہیں۔ ان کا کہنا تھاکہ اگر ماضی میں کوئی انکائونٹر ہوتا تو لوگ بھاگ جاتے ہیں لیکن آج لوگ دوڑ کر وہاں پہنچتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ میں نے یونیفائیڈ کمانڈ کو ہدایت دی ہے کہ براہ راست فائر نہ کیا جائے اور اگر ضرورت پڑے تو ہوائی فائرنگ کی جائے لیکن نہیں معلوم کیوں ایسے واقعات رونما ہورہے ہیں جن کی وجہ سے امن عمل کو نقصان پہنچتا ہے۔ انہوں نے ایوان کو بتایا کہ اس واقعہ کے فوری بعد انہوں نے وزیر دفاع سے بات کی اور انہوں نے بڑے غور سے سن کر کہاکہ اگر کوئی ملوث ہے تو اس کے خلاف کاروائی کی جائے اور حکومت نے کیس درج کیا۔انہوں نے کہاکہ پوری فوج کو ملوث نہیں ٹھہرایا جا سکتا لیکن جس طرح سے عدلیہ میں کچھ جانبدار لوگ ہوسکتے ہیں اسی طرح سے فوج میں بھی کچھ کالی بھیڑیں ہوسکتی ہیں جن کے خلاف کاروائی کرنے سے نظم و ضبط قائم کیا جاسکتا ہے۔انہوں نے یقین دلایا کہ اس واقعہ پر ریاستی سرکار کاروائی کرے گی۔
 

نیوز چینلوں کا پروپگنڈہ جلتی پر تیل :نعیم اختر

جموں// تعمیرات عامہ کے وزیر نعیم اختر نے کہا ہے کہ حکومت جموں وکشمیرمیں دیر پا امن لانے کے لئے ہر ممکن کوششیں کر رہی ہے ۔انہوں نے شوپیاں میں فوج کی فائرنگ کے دوران عام شہریوں کی ہلاکت پر دُکھ اور صدمے کا اظہار کیا ہے ۔شوپیاں فائرنگ اور وہاں ہوئی ہلاکتوں کے حوالے سے ایوان بالا میں ہوئی بحث کا جواب دیتے ہوئے وزیر موصوف نے کہا ہے کہ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے شہری ہلاکتوں کا معاملہ مرکزی وزیر دفاع کے ساتھ اُٹھایا ہے اور اس بد قسمت واقعے کی تحقیقات کے احکامات بھی صادر کئے گئے ہیں۔نعیم اختر نے کہا کہ کئی مفاد خصوصی رکھنے والے عناصر کی طرف سے امن کوششوں کو زک پہنچانے کے لئے ماحول قائم کیا جارہا ہے اور تشدد دار ملی ٹنسی واقعات سے بھی امن کی کوششوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔انہوںنے کہا کہ ہمیں سیاسی وابستگیوں سے بالا تر ہو کر ایک اتفاق رائے پیدا کر کے مسئلے کا دائمی حل نکالنے کیلئے کام کرنا چاہیئے تاکہ تشدد کے اس دورکا خاتمہ ہو سکے ۔انہوں نے کہا کہ تشدد سے ہماری زندگیاں ، ہماری اقتصادیات ، ہماری تعلیم اور ہمارے سماجی اقدار بھی تباہ ہو رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ریاست کے مسائل کا حل نکالنے کے لئے بات چیت ہی واحد ذریعہ ہے ۔نعیم اختر نے الزام لگایا کہ کچھ ٹی وی چینل کشمیر اور کشمیریوں کے خلاف ایک منفی مہم چلارہے ہیں جو بقول ان کے جلتے پر تیل چھڑکنے کا کام کرتا ہے ۔اس سے قبل کئی ارکان نے شوپیاں میں حالیہ فائرنگ اور ہلاکتوں پر قانون ساز کونسل میں ہوئی بحث میں حصہ لیا ۔بحث کی شروعات قیصر جمشید لون کی ۔انہوں نے اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے تحقیقات کے عمل میں تیزی لانے کا مطالبہ کیا۔ سریندر کمار امباردار نے شہریوں کی ہلاکتوں پر دُکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے دلدوز واقعات کو روکا جانا چاہیئے ۔ انہوں نے تشدد کے خاتمے کے لئے ایک مذاکراتی عمل شروع کرنے کی وکالت کی۔یاسر ریشی نے اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ مسئلے کو ایک ہی مرتبہ حل کرنے کے لئے سنجیدہ اقدامات کئے جانے چاہیئے ۔ انہوں نے ریاست میں امن کی بحالی کے لئے مرحوم مفتی محمد سعید کے نقش راہ پر عمل پیرا ہونے کی بھی وکالت کی۔ انہوں نے واجپائی کے دور کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ان دنوں دونوں ممالک کے درمیان رشتوں کو مستحکم کرنے کیلئے کئی اقدامات کئے گئے جن سے ریاستی عوام کو بھی راحت کی سانس نصیب ہوئی ۔غلام نبی مونگا نے شوپیاں میں فائرنگ کے واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے واقعات دوبارہ پیش نہیں آنے چاہیئے ۔انہوں نے کہا کہ ہم سب کو مل کر معاملے کے حل کے لئے کام کرنا چاہیئے۔انہوں نے مجسٹریل تحقیقات کرنے اور ایف آئی آر درج کرنے کاخیرمقد م کیا۔رومیش اروڑہ نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ ہمیں سیاسی لیڈروں کو ریاست کے حالات سدھارنے کے لئے مل جل کر کام کرنا چاہیئے اور امن عمل کو تقویت بخشی جانی چاہیئے۔شوکت احمد گنائی نے اس طرح کے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے سوگوار کنبوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔انہوں نے کہاکہ ریاست میں تمام سٹیٹ ہولڈروں کے ساتھ مذاکراتی عمل شروع کیا جانا چاہیے۔فردوس احمد ٹاک نے اس واقعہ کو بدقسمتی سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ مستقبل میں اس طرح کے واقعات روکنے کے لئے خاطر خواہ اقدامات کئے جانے چاہئیے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں اس معاملے پر سیاست نہیں کھیلنی چاہیئے بلکہ پارٹی وابستگیوں سے آگے بڑھ کر ایک اتفاق رائے پیدا کرنا چاہیئے تاکہ مسئلے کا مستقل حل نکالا جاسکے ۔انہوں نے شوپیاں میں پیش آئے واقعہ کی مجسٹریل تحقیقات اور ایف آئی آر درج کرنے کا خیرمقدم کیا۔
 

واقعہ کی تحقیقات

گواہان بیانات قلمبند کریں :ڈی سی شوپیان

شوپیان//ضلع مجسٹریٹ شوپیان کے مطابق گنو پورہ میں 27جنوری کو رونماہوئے فائرنگ کے واقعہ کے سلسلے میں تمام خواہشمند افراد 30 جنوری 2018ء سے ایک ہفتہ تک ضلع مجسٹریٹ شوپیان کے دفتر میں اپنے بیانات ریکارڈ کرواسکتے ہیں۔