مقدس ماں وردھ آشرم میں؟؟؟

مجھے   لگاکہ یہ بڑھیا اُس کی ماں ہے مگر اس کے رکھ رکھائوسے وہ کوئی نوکرانی لگتی تھی، اس لیے میں نے پوچھا:’’ بہن جی کیایہ آپ کی ماں ہے؟‘‘
’’نہیںیہ میری ساس ہے‘‘ ۔اس نے جواب دیا۔
’’ساس بھی توماں ہی ہوتی ہے ‘‘۔میں نے جواباً کہا۔
’’ان کوکیاتکلیف ہے ؟‘‘میں نے پھرپوچھا۔
’’کھاناہضم نہیں ہوتاہے ،ہروقت جوکھاتی رہتی ہے ۔ڈکاریں آتی رہتی ہیں ۔اُلٹیاں کرنے کودِل کرتاہے وغیرہ وغیرہ ‘‘۔وہ لڑکی بولی 
’’یہ بہت زیادہ کمزوراورلاغر ہیں‘‘۔میں نے کہا
’’یہ کھاتی توبہت ہیں اورکام بھی کچھ نہیں ہے،ان کامنہ ہی چھوٹا ہے،پیٹ بہت بڑا ہے‘‘ ۔
اتنے میں ڈاکٹرمہیش نے اندرسے آوازدے کربلایا۔ ’’اندرادیوی‘‘۔
’’چلو۔اُٹھو۔جلدی کرو۔ مجھے گھرمیں اوربھی کام ہیں‘‘ ۔لڑکی نے بڑھیاسے بڑے زوردارطریقہ سے کہا۔ 
’’بہن جی ! یہ چل نہیں سکتی ہیں۔کمزورجوہے اوران سے یہ چپل بھی نہیں پہناجارہاہے ۔یہ شاید کسی اورکاہے ‘‘۔
’’بہن جی ! بزرگوں سے بڑی نرمی سے بات کرنی چاہیے ۔ان سے اس طرح کاسلوک نامناسب ہے ۔۔۔میری ماں ہوتی میں انہیںسرآنکھوں پربٹھاتا ۔دیکھنے والے دَنگ رہ جاتے مگرمیری بدقسمتی ،میں اس نعمت سے چھوٹی عمرمیں ہی محروم ہوگیا‘‘۔ 
بزرگ خاتون کی بہونے میری اَن سنی کردی بلکہ قدرے بدتمیزی سے بولی ’’چلوناجلدی جلدی ۔تمہارابیٹاخودتوچلاگیا ۔مجھے یہاں پھنساکے رکھ دیا‘‘۔
یہ ا پنی ساس کے ساتھ بہو کا ہمارے سامنے سلوک ہو تو گھرمیں اس کی کیاگت ہوتی ہوگی ۔کلنک میں اپنی باری کا انتظار کر نے والے بیماروںاورتیمارداروں نے ایسا غلط سلوک دیکھا تو کفِ افسوس ملنے لگے۔ کسی نے بہو سے کیا :’’ اس سے بہتر ہے آپ ان کووردھ آشرم میں بھرتی کردو‘‘۔
 ایک دوسرے شخص نے کہا’’بھگوان سے ڈرو۔آپ پربھی بڑھاپاآئے گا‘‘۔وہ بولتا ہی گیا۔
’’ہاں ! ہاں کہہ دیجئے جو من میں آئے ، ہم دونوں میاں بیوی ملازم ہیں۔ہم سے ان کی دیکھ بھال نہیں ہوسکتی ۔اس لیے ہم نے فیصلہ کرلیا ہے کہ ان کو اولڈایج ہوم میں داخل کردیں۔ان کی وجہ سے ہمیں بہت پریشانیاں اٹھانی پڑرہی ہیں‘‘۔ بہو نے تر کی بہ ترکی جواب دیا
یہ سن کر میں نے پھر سے سمجھایا: ’’بہن جن ! یہ بڑھاپے کی سیڑھی ہم سب نے چڑھنی ہے ،ہم چاہیں نہ چاہیں ۔بزرگوں کونیک سلوک اوراچھی دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے ،جھڑکنے کی نہیں۔البتہ اللہ تعالیٰ سے ڈرناچاہئے‘‘۔حاضرین نے میری ہاں میںہاںملا دی۔
  ’’ ان کابیٹا کہاں ہے ؟ میں نے پوچھا
 وہ ایک کمپنی میں بڑاافسر ہے ،فرصت ہے نہیں ۔میں ہی ہمیشہ بیچ میں پھنس جاتی ہوں۔ آج ان کو بہت اہم کام تھا‘‘۔ بہو جی صفائی دیتی گئی۔
 میں نے نفی میں سر ہلاتے کہا :’’ماں کی سیوا ‘علاج سے اورکو نساضروری کام ہوسکتاہے ۔لگتاہے وہ اپنی ماں کی عزت اورخدمت نہیں کرتا، ۔اسی لئے آپ بھی‘‘ ۔۔۔۔۔۔
یہ میری بات کاٹ کر بہونے بڑی بدتمیزی سے کہا:’’توتم ہی اسے اپنے گھرلے جائو‘‘۔
 ٹھیک ہے ،بلائو اپنے خاوند کو ۔میں ابھی ان کولے جاتاہوں۔پھردیکھنا میں کس طرح بہن جی کو کس طرح عزت کے ساتھ گھر میں رکھتاہوں۔ بلائو اپنے سرتاج کو ‘ ‘۔ میں نے بہ عجلت کہا۔
’’ویسے بھی ہم نے ماں کواولڈایج ہوم میں پھینکنے کافیصلہ لیا ہواہے ‘‘۔بہونے میری بولتی بند کر نے کے لئے طیش میں کہا
اتنے میں ڈاکٹر مہیش شورسن کر باہرآیا ‘ پوچھا:کیامسئلہ ہے؟اس پر میں نے ساری بات بتائی:’’ یہ عمر رسیدہ خاتون شدیدبیمار ہے ،ان محترمہ کی ساس ہے ،ان کا غلط سلوک ہم سب سے دیکھانہ گیا۔ بہن جی نے جھڑک کر ساس سے کہا جلدی چلومگران سے ایک قدم بھی چلانہیں جاتا۔انہوں نے بزرگ خاتون کووردھ آشرم میں پھینکنے کافیصلہ کرلیاہے۔میں نے کہاکہ اس سے بہترہے کہ ان کوآپ میرے حوالے کرو۔میں ان کی دیکھ بھال اور علاج کروں گا، صرف اللہ کی خوشنودی کے لئے ۔
 ڈاکٹرصاحب نے رام کہانی سنی توکہا:’’ٹھیک ہے،اگرآپ ان کاعلاج اوردیکھ بھال نہیں کرسکتے توپھر وردھ آشرم میں پھینکنے سے بہتر ہے کہ ان کے پاس ہی رکھو۔ میں ان کوبڑی اچھی طرح جانتاہوں ،اچھے نیک انسان ہیں‘‘۔ڈاکٹرصاحب نے معاملہ مختصر کر کے کہا۔
  بوڑھی ا ماں جو ہماری باتیں سن رہی تھی اب بول پڑی:’’ بیٹا! میں اپنے ہی گھرجائوں گی، آپ کیوں تکلیف اٹھائوگے ؟میں اپنے پاپوں کاپھل بھوگ رہی ہوں‘‘۔
’’نہیں ماں جی ! میں نہیں مانتا،آپ کاعقیدہ اپنی جگہ درست بھی ہو ۔آپ میری مانئے ۔ باقی آپ کی مرضی ‘‘۔میں نے بوڑھی خاتون سے بڑی نرمی سے کہا۔ اتنے میں اس کاافسربیٹاآگیا۔ اس نے بھی اپنی بیوی کی بات کوصحیح مانا، غصے میںشورمچایا، آنکھیں بھی دکھا رہاتھاپھرجب ڈاکٹر صاحب نے بیچ میں بولا: واقعی آپ کی ماں بہت کمزورہے اوراگر آپ نے اسے وردھ آشرم میں داخلے کافیصلہ کرہی لیاہے تواس سے بہتر آپ ان کو اس بھائی صاحب کے ہاں ہی رکھ آؤ۔ میں ان کوجانتاہوں ۔یہ بہت نیک شخص ہیں ۔یہ ان کابہت خیال رکھیں گے‘‘ ۔
یہ سن کربڑھیا کابیٹا خاموش ہوگیا۔دونوں میاں بیوی یہ سوچ کرکہ ہمارامسئلہ حل ہوگیا، ان کا چہرہ کھل اٹھا۔  اسی اثناء میں میں نے نسخہ لیا۔ ماں بڑے بھاری قدموں سے میرے ساتھ چل پڑی۔پندرہ بیس دن تک میں نے ان کی جی جان سے بہت دیکھ بھال کی ،علاج و معالجہ کیا۔ نئے کپڑے خریدلائے ،نئے بستر میںسلایا، کھانے پینے کااپنے لحاظ سے اچھا انتظام کیا،پھل فروٹ سے اس کی خاطر تواضع کی لائے اور ہر ممکن حدتک ایک بیٹے کافرض نبھایا ۔ایساکرنے سے ان کی جسمانی حالت ہی یکسر بدل گئی ، ان کی صحت بھی اچھی ہوئی ، وہ آرام سے اٹھک بیٹھک کر نے اور چلنے پھر نے لگی۔کچھ عرصہ بعد بوڑھی ماں کے نام انشورنس کمپنی سے واجب الادا 5لاکھ روپے کی چھٹی آئی۔ خط ان کے گھرکے پتہ بھی آیا۔اسے دیکھ کربیٹااوربہو پریشان ہوئے کہ اب کیاجائے کیونکہ رقم توماں کو لینی تھی، اوروہ دوسرے کے گھرمیں رہ رہی ہے۔ بیٹے نے عدالت میں عرضی دی کہ ان کی ا ماں چل پھرنہیں سکتی، اس لئے یہ رقم میری ہاتھ ان کو دی جائے کیونکہ میں ان کا حقیقی بیٹاہوں۔ فاضل جج نے اپنا سرکاری کارندہ حقیقت حال معلوم کرنے کیلئے ان کے گھربھیجا ۔واپسی پرکارندے نے رپورٹ دی کہ بُڑھیاشمس الدین کے ہاں رہ رہی ہے ،پھروہ ان سے ملنے وہاں بھی گیا۔ وہاں صحیح صورت حال معلوم ہوئی کہ کس طرح اورکن حالات میں بوڑھی اندرا دیوی اپنے بیٹے روہت کمار کے بجائے شمس الدین کے ہاں رہ رہی تھی ، اس پرائے گھر میں وہ کتنی خوش وخرم تھی۔ عدالت کے کارندے نے دیکھا کہ کس طرح ایک غیر ہندو گھر انے میں بڑھیاماتاویشنودیوی کاجاگرن کر رہی تھی،جب کہ اس کا روگرادن بیٹا اور منہ پھٹ بہوزورزورسے ورد کررہے تھے:زورسے بولو جے ماتادی ۔شیراں والی ماتا کی جے۔زورسے بولو جے ماتادی ۔مل کربولو جے ماتادی ۔جج صاحب نے یہ اصل فسانہ سنا تو فیصلہ دیا :’’ بیمے کی یہ رقم بذات خود اندرادیوی کواداکردی جاتی ہے جو اس وقت کمرہ ٔعدالت میں حاضرہے‘‘۔ماتاجی نے ہاتھ میںرقم لی تو جج صاحب سے عرضداشت کی کہ یہ رقم امپھلاکے وردھ آشرم کے لئے دان کر تی ہوں تاکہ  بزرگوں کے کام آئے۔ اماں کی درخواست فوراً منظور ہوئی ۔میں نے بوڑھی اماں کو سہارادیتے ہوئے مزید کہا:’’ اماں جی کو اللہ نے پہلے ہی بہت کچھ دیا ہے۔اس کے لئے وہ ہی کافی ہے ‘‘۔ اس پرجج صاحب نے اپنے فیصلے میںیہ جملہ بڑھایا: اندرا دیوی کو شمس الدین نے بہ حیثیت ماں اپنے گھر میں مان سمان دے کر کر سیکولرازم کی بہترین مثال قائم کی ہے ۔دراصل یہی اصل انسانیت اور گنگا جمنی ہندوستان کی پہچان ہے۔
8825051001