افلاطون نے اپنی مثالی ریاست سے شعراء کا جِلا وطن کیا جانا لازمی سمجھا تھا کیونکہ اُن کی نظر میں شعر گوئی کی بنیاد ہی جذباتیت اور حد سے تجاوز کرنے والے تخیل پر ہوا کرتی ہے حالانکہ وہ ’’مقدس دیوانگی‘‘ کے شکار ان لوگوں کو کبھی بھی بُرا سمجھتے اور کہتے نہیں تھے کیونکہ وہ خود بھی طبعاً ایک بیحد خوش بیان اور خوش مزاج انسان تھے۔ اُنکی نگارشات میں شعراء کے خلاف فتویٰ کے باوجود ایک زبردست ادبی چاشنی بھی ملتی ہے جبکہ شعراء کی جلا وطنی کے خلاف دلائل دینے والے ارسطو کی نگارشات میں نمایاں طور پر ایک خشکی سی نظر آتی ہے۔ لیکن ہر شاعر تو بہرحال حقیقی زندگی کی ترجمانی کے بجائے فرضی اور تخیلاتی باتوں کو ہی پیش نہیں کرتا بلکہ اپنے اسلوبِ بیان کو پُرتا ثیر بنانے کی حد تک ہی کسی قدر راست بیانی سے انحراف کرتا ہے۔ہمارے مرحوم مقبول ویرےؔ بھی کچھ اسی قسم کے شاعر تھے جو طلسماتی دُنیا میں محلات بنانے کی جگہ حقیقی زندگی کے ایک اچھے ترجمان اور نغمہ خواں تھے۔
مقبول ویرےؔ یوں تو پیشے کے اعتبار سے ایک صحافی تھے لہٰذا اُن کا کسی خاص نظریئے یا کسی سیاسی جماعت کی طرف جھکائو ہونا ہی چاہئے تھا لیکن عملاً ایسا تھا ہی نہیں۔ انہوں نے کبھی اپنے بارے میں بیحد اعتماد کے ساتھ کہا تھا کہ ’’مجھ میں کوئی بھی خوبی نہیں ہے بجز اس کے کہیں جھوٹ نہیں بولتا‘‘ اور بقولِ زاہدؔ مختار ’’یہ بات بالکل سچ بھی ہے کہ مقبول کا قلم سچے اشعار کا آبشار لئے قرطاس کی وادیوں میں نغمہ سرائی کرتا رہتا تھا‘‘۔ مقبول ویرےؔ جیسے شعراء کیلئے ہی شائد سیمابؔ اکبر آبادی نے کبھی لکھا تھا کہ
’’حقیقی شاعری وہی ہے جو ہماری روح کو جھنجوڑ کر رکھ دے۔ دل میں زندگی کی حرارت بھر دے۔ دماغ کو اپنے تاثرات سے متکیف کرکے سرخوشی و بے خودی کا اہل بنادے‘‘۔
مقبول ویرےؔ پُرامن اور خوشحالی زندگی کے طلبگار شاعر و صحافی تھے چنانچہ اسی خواہش کا پُرتاثیر اظہار اُن کے اشعار میں بھی جابجا ملتا ہے مثلاً اُن کی ایک نظم ’’لب پہ تالے یہاں، تلوار کی زندگی میں ہے قلم‘‘ سے لئے گئے یہ اشعار ملاحظہ کیجئے تو میرے دعوے کی تصدیق بھی ہوجائیگی۔ ؎
میری جنت کی فضا امن سے معمور ہو پھر
پھر پہلگام کی وادی پہ ہو رحمت کا نزول
میرے جہلم کے کناروں پہ کھلیں امن کے پھول
پھر مہک اُٹھیں مرے کوہ و دمن کی کلیاں
عشق کا درد ہو انسان کے جذبوں کا رسول
بیسویں صدی عیسوی کے آخری اور اکیسویں صدر کے ابتدائی دس پندرہ سال میں تِل تِل مر کے جینے اور کشمیر کے کربناک حالات سے گذرنے والے اس خوش مزاج اور حساس شاعر نے زندگی سے مخاطب ہوکر کچھ اس طرح سے بھی کہا تھا کہ ؎
حسین تُو ہے کسی کے پاس لیکن کب ٹھہرتی ہے
ہوا کے ایک جھونکے کی طرح آکر گذرتی ہے!
ترے عاشق سبھی، کب تُو کسی سے پیار کرتی ہے
تجھے تو چاہنے والوں کو تڑپانے کی عادت ہے
مگر اے زندگی پھر بھی ہمیں تجھ سے محبت ہے
(نظم ’’ہمیں تجھ سے محبت ہے‘‘ سے ماخوذ)
میں ذاتی طور پر 2010ئ سے لیکر 2012تک اننت ناگ میں سرکاری ملازمت کے سلسلے میں تعینات رہنے سے قبل مقبول ویرے کی شعری تخلیقات کو کبھی کبھار ہی کسی ادبی رسالے میں پڑھتا یا مشاعرے وغیرہ میں شرکت کے باعث سُنا کرتا تھا اور اس بات پر حیران بھی رہتا تھا کہ ’’شب خون‘‘ جیسے معیاری رسالے میں چپھنے والے یہ شاعر کبھی کبھی ایسی غزلیں بھی کیوں سناتے ہیں جنکی نوک پلک سنوارنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ ریڈیو کشمیر کے ایک مشاعرے کی صدا بندی سے قبل متعلقہ پروڈسر محترمہ رخسانہ جبینؔ نے جب ایک بار اُنکی کسی ایسی ہی ایک اصلاح طلب غزل کی نوک پلک سنواری تو مقبول ویرے نے قطعاً بُرا نہیں مانا، بلکہ مسکراتے ہوئے شکریہ ادا کیا۔ یہ انکساری اور فراخدلی آجکل کے ہمارے اکثر معاصرین میں ناپید سی لگتی ہے۔ اننت ناگ میں جب میں نے ایک بار ایک صوبائی سطح کا اردو مشاعرہ منعقد کروایا تو اُس میں مقبول ویرےؔ اور انکے کچھ شناسائوں نے دل کو موہ لینے کی حد تک میری مدد کرلی۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے یہ تقریب کسی اور کی نہ ہو بلکہ خود مقبول ویرےؔ کے چہیتے بیٹے کی شادی والی ہو۔ میں اُن کے اس تعاون اور بے لوث ہمدردی کو زندگی بھر بُھلا نہیں سکتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ اُن کو اس خوش خوئی کا اجر مغفرت کی صورت میں عطا فرمائے۔آمین۔
مقبول ویرے کی شاعری میں بِلاشک کسی قاری اور نقاد کو بعض کمزور تخلیقات بھی مل سکتی ہیں لیکن بے حد مسرور اور محظوظ کرنے والا مواد بھی کوئی کم نہیں ہے۔ ہم اُن کوتاہیوں کے تمام ذمہ دار عوامل سے صرفِ نظر کرتے ہوئے صرف اُن کے خوب صورت اشعار اور انکے پسِ پشت لائقِ تحسین جذبات اور خلوص کے قدردان ہیں ۔ اُن کے کچھ پیارے غزلیہ اشعار کے ساتھ ہی رخصت چاہوں گا۔ ؎
جسم میرا کرائے کا گھر ہے اِسے
زندگی ایک دن چھوڑ کر جائیگی
راج نیتی کی اک شرط پرواز ہے
پراُڑوگے تو پھر بھی کُتر جائیگی
پھول کے گُن ہیں اس میں و، چندن بدن
دل کے جنگل کو خوشبو سے بھر جائیگی
وطن میں حکم ہے سوتیلی ماں کا
کہ ہم بن باس سے واپس نہ آئیں
ویرےؔ کا گھر بستی میں سلامت تو ہے ابھی
لیکن اُداس دل کی طرح خستہ حال ہے
آخری شعر میں جو عصری نظام حیات سے مترشح اونچ نیچ پر سوالیہ نشان لگایا ہے وہ شمیمؔ جے پوری کے ایک مشہور شعر کی برملا یاد دلاتا ہے کہ ؎
برابر سب کو مے ملتی تو پھر شورش ہی کیوں اُٹھتی
غلط بیحد غلط ہے میرے ساقی تیرا اندازہ
���
بمنہ سرینگر،کشمیر