مغل شاہراہ پر مریضوں اور ملازمین کیلئے سفرکرناممنوع

مینڈھر //مغل شاہراہ پرعام مسافروں یہاں تک کہ بیماروں،ضرورتمندوں اور ڈیوٹی یا تعلیم کیلئے جانے والے افراد کیلئے بھی سفر کرنا ناممکن بن گیاہے۔اگرچہ کورونا کی دوسرے لہر پورے ملک کی طرح جموں وکشمیر میں بھی تھم گئی ہے اور حکومت نے عائد کورونا پابندیاں کم کردی ہیں مگر مغل شاہراہ دنیا کی وہ واحد روڈ ہے جس پر سفر کرنا ممنوع ہے۔مغل شاہراہ کے ذریعہ وادی کے ہسپتالوں میں ریفر ہونے والے مریضوں نے الزام عائد کرتے ہوئے کہاکہ پوشانہ چیک پوسٹ ہراسانی کا ایک مرکز بن چکاہے جہاں مسافروں کو مبینہ طورپر گالیاں بھی دی جاتی ہیں ۔پولیس آفیسر کیساتھ ہوئی مار پٹائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مریضوں و مسافروں نے بتایا کہ اگر انسپکٹر سطح کے آفیسران کیساتھ مذکورہ نوعیت کی واردات رونما ہوسکتی ہے تو عام لوگوں کیساتھ پیش آنے والی صورتحال کا اندزہ لگایا جاسکتا ہے ۔حال ہی میں سرینگر میں تعینات ایک ملازمین نے مغل شاہراہ پر سفر کرنے کی اپنی روداد بیان کرتے ہوئے بتایا’’میرے گھر میں موت ہوگئی تھی اور مجھے ہر حال میں گھر جاناتھا،پہلے تو مجھے ہیر پور کے مقام پر روک لیاگیا کہ اجازت نامہ دکھائولیکن میں نے بتایاکہ ابھی شام کے وقت گھر میں موت ہوئی ہے لہٰذا میں کہاں سے اجازت نامہ نہیں لاسکا ۔انہوں نے کہاکہ ’منت سماجت کے بعد ہیر پور سے تو چھوڑ دیاگیالیکن پھر پوشانہ کے مقام پر گالم گلوچ کی گئی اور میری مجبوری کو بھی نہ سمجھاگیا،جب وہاں تعینات فوجی اہلکار کا غصہ تھم گیاتواس نے بتایاکہ آپ کی ہی ایڈمنسٹریشن ہمیں بتاتی ہے کہ کسی کو اس روڈ سے چلنے کی اجازت نہ دو‘‘۔انہوں نے مزید بتایاکہ جو گاڑی اسے لیکر پونچھ آئی تھی اسے دوسرے روز صبح سے لیکر شام نو بجے تک پوشانہ کراس نہیں ہونے دیاگیا اور پھر حکام سے باربار گزارشات کے بعد اسے آگے جانے کی اجازت دی گئی۔مینڈھر کے ایک بیمار کو سرینگر منتقل کررہے تیماردار نے بتایاکہ لیفٹنٹ گورنر نے اپنے ٹوئٹرہینڈل کے ذریعہ یہ حکم جاری کیاتھاکہ بیماروں کو منتقل کرنے کیلئے شاہراہ کو کھول دیاگیاہے اور لوگ ڈپٹی کمشنر کی اجازت کے ساتھ سفر کرسکتے ہیں لیکن جب ڈپٹی کمشنر دفتر سے رجوع کیاجاتاہے تو اجازت دینے سے انکار کردیاجاتاہے،انہیں مجبوراًبنا اجازت کے سفر کرناپڑتاہے۔انہوں نے بتایاکہ حالانکہ پوشانہ کے مقام پر پولیس اہلکار بھی تعینات ہوتے ہیں لیکن وہ بے بس دکھائی دیتے ہیں اورآگے بڑھنے کی اجازت مانگنے پر ان کا جواب ہوتاہے کہ’’ہم کچھ نہیں کرسکتے،آرمی والوں سے کہو‘‘۔محکمہ صحت کے ایک اہلکار نے اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایاکہ اگر کسی بیمار کو اس کی یا اس کے تیمارداروں کی اپیل پر سرینگر ریفر کیاجاتاہے توفوری طور پر ضلعی حکام کی طرف سے یہ فون آجاتاہے کہ اس بیمار کو کیوں سرینگر ریفر کیاہے۔مقامی لوگوں کاکہناہے کہ یہ روڈ کورونا نہیں بلکہ کسی دوسرے مقصد کیلئے بند رکھی گئی ہے،اگر حکومت کو کورونا کی اتنی زیادہ فکر ہوتی تو یقیناپوشانہ یا کسی دوسرے مقام پر محکمہ صحت کی ایک ٹیم تعینات رکھی جاتی جو لوگوں کی طبی جانچ کے بعد انہیں آگے جانے کی اجازت دی مگر ایسا ہر گز نہیں اور محکمہ صحت کی ٹیم کے بجائے پوشانہ چیک پوائنٹ کو تنگ کرنے کیلئے کام پر لگایاگیاہے۔ان کاکہناہے کہ راجوری اور پونچھ کے ہزاروں ملازم کشمیر تعینات ہیں اور ہزاروں طلاب وادی کے مختلف تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہیں جنہیں بہر صورت سفر کرناہوتاہے لیکن انہیں چار گھنٹے کے سفر کے بجائے براستہ جموں دو دن کا سفر کرنے کی ترغیب دی جارہی ہے جو کسی بھی طور پر انصاف پسندانہ سوچ نہیں ہے۔ان کاکہناہے کہ اگر یہی سلسلہ چلتارہاتو خطہ پیر پنچال کے لوگ احتجاج کاراستہ اختیار کرنے پر مجبور ہوں گے اور شائد انتظامیہ ایسا ہی چاہتی ہے جوبغیر کسی ٹھوس وجہ کے شاہراہ پر ناکہ بندیاں عائد کی گئی ہیں۔ضلع ترقیاتی کونسل چیئر مین پونچھ نے بتایاکہ اس سلسلہ میں لیفٹیننٹ گورنر سے بھی رابطہ قائم کیا گیا ہے تاہم وہ جلد ہی پونچھ آسکتے ہیں جہاں پر مذکورہ معاملہ کو دوبارہ سے اجاگر کیا جائے گا ۔