خطہ پیر پنچال کو وادی کشمیر کے ساتھ ملانے والی واحد شاہراہ مسلسل ٹریفک کیلئے بند ہے۔ایک طرف حکومت نے اس شاہراہ کے تئیں سنجیدگی ظاہر کرنے کیلئے اس کی دیکھ ریکھ کی خاطر محکمہ تعمیرات عامہ نے ایک الگ ڈویژن ’’مغل روڈ ڈویژن‘‘کے نام سے قائم کیا ہوا ہے تاہم دوسری جانب حالت یہ ہے کہ یہ شاہراہ ایک رابطہ سڑک تک محدود ہوکر رہ گئی ہے کیونکہ اس سڑک کی حالت انتہائی ناگفتہ بہہ ہے ۔یہ شاہراہ ، جس کا تخیئل مرحوم شیخ محمد عبد اللہ نے پیر پنچال خطہ کے لوگوں کو وادی کے ساتھ جوڑنے اور ان کی اقتصادی حالت میں بہتری لانے کی غرض سے دیا تھا ، اب یہاں کے لوگوں کی سب سے بڑی ضرورت بن چکی ہے تاہم سرما کے 4سے6ماہ کے دوران جب یہ بند ہو جاتی ہے تو خطہ کے لوگوں کا انحصار دوبارہ جموں۔ سرینگرقومی شاہراہ پر ہو جا تا ہے جس کے باعث اس کی افادیت پر کئی سوال کھڑے ہوتے ہیں۔ بفلیاز اور شوپیاں کے درمیان مغل شاہراہ 84کلو میٹر کے قریب ہے جس میں سے بیشتر حصہ کا فی اونچائی پر ہے جہاں موسم سرما کے دوران کافی برفباری ہوتی ہے۔ پیر کی گلی اس شاہراہ کا بلند ترین مقام ہے اور اس کی اونچائی سطح سمندر سے 3505 میٹر یعنی 11500 فٹ ہے۔سرینگر۔ لداخ قومی شاہراہ پر زوجیلا درہ کی اونچائی اس سے صرف 23میٹر زیادہ یعنی 3528میٹر جبکہ جموں۔ سرینگرقومی شاہراہ پر جواہر ٹنل کی اونچائی اس سے کافی کم 2832میٹر ہے۔ زوجیلا درہ سال میں4سے5ماہ بند رہتا ہے اور جموں۔ سرینگرقومی شاہراہ پر بھی برفباری کے دوران کئی کئی دن گاڑیوں کی آمد و رفت بند رہتی ہے۔ ایسے میں یہ توقع رکھنا کہ مغل روڈ پیر پنچال خطہ کے لئے متبادل شاہراہ کا کام دے گا ، عبث ہے۔ حالا نکہ 2005میں جب اس وقاری پروجیکٹ پر مرکز کی مالی اعانت سے کام شروع کیا گیا تھا ، تب اس کی تکمیل کی تاریخ مارچ 2007مقرر کی گئی تھی لیکن اس کے بعد اس میں کئی بار توسیع کی گئی ا ور آج بھی اس شاہراہ کو مکمل نہیں کہا جا سکتا ہے۔یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ اگر چہ دسمبر2009میں سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے اس سڑک پر شوپیاں سے پونچھ تک سفر کرکے باقاعدہ طور اس کے تیار ہونے کا اعلان کیا تاہم جب سے اب تک اس کا رسمی طور افتتاح نہیں ہوپا یا ہے ۔گوکہ عمر عبداللہ کے دور حکومت میں ہی سابق وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کے ہاتھوں سڑک کا افتتاح کرنے کا پروگرام بھی بنایا گیا تھا لیکن نامعلوم وجوہات کی بناء پر آخری لمحات میں یہ منصوبہ ترک کیاگیا ۔گوکہ2010سے اس سڑک پر گرمیوں کے6سے7ماہ کے دوران ٹریفک چلتی ہے تاہم کاغذی طور ابھی بھی یہ شاہراہ افتتاح کی منتظر ہے ۔اگر حکومت کے نزدیک یہ شاہراہ واقعی سرینگر جموں قومی شاہراہ کا ایک متبادل فراہم کرسکتی ہے تو پھر اس کے رسمی افتتاح میں کیوں مسلسل تاخیر کی جارہی ہے ۔ظاہر ہے کہ جب رسمی طور کسی پروجیکٹ کا افتتاح کیاجاتا ہے تو پھر اس کی دیکھ ریکھ کی ذمہ داری بھی حکومت پر عائد ہوتی ہے لیکن چونکہ اس شاہراہ کا افتتاح ہونا باقی ہے تو حکومت بھی اس حد تک جوابدہ نہیں ہے ۔فی الوقت جو حالت اس شاہراہ کی بنی ہوئی ہے ،ایسے میں اس کو ’’شاہراہ‘‘قراردینا قطعی طور جائز نہیں ہے بلکہ موجودہ حالت میں یہ ایک موسمی رابطہ سڑک تک محدود ہوکر رہ گئی ہے ۔اس سڑک کو پورا سال ٹریفک کی آمدورفت کیلئے کھلا رکھنے کیلئے پیر کی گلی کے مقام پر ٹنل کی تعمیر ناگزیر ہے اور اسی وجہ سے سابق پی ڈی پی ۔بھاجپا سرکار کے دوران باضابطہ طور اس مقام پر ٹنل کی تعمیر کا منصوبہ بنایا بھی گیا تھاتاہم نامعلوم غیبی طاقتوں کی ایماء پر وہ منصوبہ ترک کیاگیا اور آج تک ٹنل کی تعمیر کا خواب تشنہ تعبیر ہے ۔گوکہ 2014سیلاب کے بعد وزیراعظم نریندر مودی نے جموں وکشمیر کیلئے 80ہزار کروڑ روپے کے پیکیج کااعلان کیا اور اس میں بیشتر حصہ سڑک پروجیکٹوں کے لئے مختص رکھاگیاتاہم حیرانگی کا عالم یہ ہے کہ اس پیکیج میں بیشتر غیر اہم پروجیکٹوں کیلئے فنڈس مہیا رکھے گئے جبکہ مغل روڈ اور کشتواڑ سنتھن جیسی اہم شاہرائوں پر ٹنلوں کی تعمیر کیلئے کوئی پیسہ نہیں رکھاگیاجس سے یہ خدشات تقویت پانے لگے ہیں کہ کہیں حکومتی سطح پر ہی کچھ عناصر ان شاہرائوں کو ہمہ وقت ٹریفک کے لائق بنانے کے حق میں تو نہیں ہیں۔اگر سرکار واقعی ان شاہراہوں کی ہمہ وقت بحالی میں سنجیدہ ہے تو ٹنلوں کی تعمیر میں مزید وقت ضائع نہیں کیاجانا چاہئے تاہم اگر حسب روایت صرف اعلانات کئے جاتے رہے تو یہی سمجھا جائے گا کہ اصل میں حکومتیں ہی ان شاہرائوں کی ہمہ وقت بحالی کے حق میں نہیں ہیں جو عوام کے ساتھ سب سے بڑی ناانصافی ہوگی تاہم امید کی جانی چاہئے کہ موجودہ حکومت میں متبادل شاہرائوں کے قیام کا جو نعرہ دیا گیا ہے ،وہ کھوکھلا نہ ہوگا بلکہ اس پر عمل بھی ہوگا اور سرینگر جموںقومی شاہراہ کا متبادل فراہم کرنے کیلئے مغل روڈ اور کشتواڑ سنتھن سڑک کو ہمہ وقت ٹریفک کی روانی کے قابل بنانے کیلئے ان پر ٹنل تعمیر کئے جائیں گے تاکہ عوامی رابطے مستحکم ہونے کے علاوہ یہ شاہرائیں جموںوکشمیر کی ہمہ جہت ترقی میں بھی اپنا رول اداکرسکیں۔