مغل شاہراہ…ہو نگاہ ِ کرم !

لیفٹنٹ گورنر منوج سنہا کی سربراہی والی انتظامی کونسل نے گزشتہ روز جموں صوبہ کے پیر پنچال خطہ کو وادی کشمیر سے جوڑنے والی تاریخی مغل شاہراہ کے بہتر رکھ رکھائو اور میکڈمائزیشن کیلئے47.41کروڑ روپے منظور کئے اور تجدید ومرمت کا یہ کام 84.11کلومیٹر پر کیاجائے گا۔انتظامی کونسل کا یہ فیصلہ بر وقت اور قابل ستائش ہے کیونکہ مغل روڈ کی حالت انتہائی ناگفتہ بہہ ہوچکی ہے اور بفلیاز سے شوپیاں تک اس شاہراہ پر سفر اگر چہ ناممکن نہیں لیکن مشکل ضرور بن چکا ہے کیونکہ اول تو سرما کے چھ ماہ دس فٹ برف تلے رہنے کی وجہ سے سارا تارکول اکھڑ چکا ہے اور دوم پسیاں گرآنے کی وجہ سے شاہراہ درجنوں مقامات پر انتہائی تنگ ہوچکی ہے جبکہ فی الوقت شاہراہ کی یہ صورتحال ہے کہ ہیرپورہ سے لیکر بفلیاز تک آپ کو کہیں کہیں ہی تارکول نظر آئے گا اور بیشتر حصہ میں آپ کا استقبال صرف خندقوں سے ہی ہوگا۔ایسے میں جو تقریباً ساڑھے سنتالیس کروڑ روپے منظور کئے گئے ہیں تو اگر فوری طور اس رقم کا صرفہ شروع ہوا ،شاہراہ قابل سفر بن سکتی ہے ۔
ویسے شاید لیفٹنٹ گورنر کو معلوم ہوگا کہ اس سال مغل شاہراہ مسلسل مسافر بردارٹریفک کی نقل و حمل کیلئے بندہے ۔گوکہ شاہراہ سرما کے بعد بحال کی گئی تھی تاہم کووڈ۔ 19کے پھیلائو کو دیکھتے ہوئے انتظامیہ نے شاہراہ کو کشمیر اور جموں کے مابین پبلک ٹرانسپورٹ کیلئے بند رہی رکھا اور فی الوقت شاہراہ پر صرف مال بردا ر خالی گاڑیوں کو ہی کشمیر سے جموں جانے کی اجازت ہے ۔گزشتہ کئی روز سے جموںسرینگر قومی شاہراہ مسلسل بند پڑی ہوئی ہے ،اگر مغل شاہراہ کا بہتر رکھ رکھائو کیاگیا ہوتا تو شاید اس کو اصل قومی شاہراہ کی مسدودیت کے وقت متبادل شاہراہ کے طور استعمال کیا جاسکتا تھا لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ عملی طور اس ضمن میں کچھ نہیں ہورہا ہے۔
سابق گورنر ستیہ پال ملک کے بعد سابق لیفٹنٹ گورنر جی سی مرمو نے بھی اس شاہراہ کے حوالے سے کئی اعلانا ت کئے ۔شاہراہ پر مواصلاتی سہولیات قائم کرنے کی باتیں ہوئیں ۔جیو مواصلاتی کمپنی کو یہ کام سونپا بھی گیا لیکن آج بھی اس شاہراہ پر مواصلاتی سہولیات کا فقدان ہے ۔شاہراہ کو ہمہ وقت قابل آمد ورفت بنانے کیلئے ٹنل بنانے کی باتیں ہوئیں۔ڈی پی آر تیار ہوئے لیکن ٹنل کے منصوبے کاغذات تک ہی محدود رہے اور عملی طور کچھ نہیں ہوا۔سابق ریاست کی آخری حکومت میں مغل شاہراہ کو قومی شاہراہ قرار دینے پر مرکزی وزارت زمینی ٹرانسپورٹ نے اصولی طور اتفاق بھی کیاتھا اور بات آگے بھی بڑی تھی لیکن پھر نہ کیاجانے کیا ہوا کہ سارامنصوبہ ہی کھٹائی میں پڑگیا اور نہ یہ قومی شاہراہ قرار پائی اور نہ ہی اس تاریخی شاہراہ کی حالت بدل گئی ۔المیہ تو یہ ہے کہ کہنے کو تو یہ شاہراہ بن گئی ہے لیکن آج تک اس کا رسمی افتتاح تک نہیں ہوسکا ہے ۔کئی وزرائے اعلیٰ اور وزارئے اعظم آئے گئے ،تاریخیں مقرر ہوئیں،خط و کتابت ہوئی لیکن شاہراہ کو رسمی طور کھولنا ابھی تک باقی ہے اور آج تک سرکاری ریکارڈ میں اس شاہراہ کا افتتاح نہیں ہوپایا ہے ۔
آثار و قرائن بتارہے ہیں کہ کچھ لوگ اس شاہراہ کی توسیع کے حق میں نہیں ہیں حالانکہ یہ جموں اور کشمیر صوبوں کے درمیان بہترین متبادل شاہراہ بن سکتی ہے لیکن نہ جانے کیوں اُن لوگوں کو یہ منظور نہیں ہے ۔فقط ایک ٹنل اس شاہراہ کو ہمہ وقتی اور ہمہ موسمی بنا سکتی ہے اور ایسا بھی نہیں ہے کہ اس ٹنل کی تعمیر پر کھربوں روپے خرچ ہونگے ۔دیگر ٹنلوںکی طرح ہی یہ ٹنل بھی بنناتھا اور مرکزی وزارت زمینی ٹرانسپورٹ کیلئے یہ کوئی بڑا پروجیکٹ نہیں تھا لیکن نادیدہ قوتوں کی ایماء پر شاید اس منصوبہ کو مسلسل سرد خانے کی نذر کیاجارہا ہے ۔
اب جبکہ لیفٹنٹ گورنر کی انتظامی کونسل نے سڑک کی بہتری اور میکڈمائزیشن کیلئے ساڑھے سنتالیس کروڑ روپے واگزار کئے ہیں تو امید پیدا ہوگئی ہے کہ شاید آنے والے وقت میں اس شاہراہ کے حوالے سے ارباب بست و کشاد کی ترجیحات تبدیل ہوجائیں گی اور مغل شاہراہ کو وہ مقام مل جائے گا جس کی یہ مستحق ہے ۔لیفٹنٹ گورنر کو معلوم ہوگا کہ انہوںنے فی الوقت جو رقوم واگزار کی ہیں ،وہ خرچ تو ہونگیں لیکن اُن سے چند ماہ کے فائدے کے سوا کچھ حاصل نہیںہوگا۔آج شاہراہ کو اپ گریڈ کیاتو جائے گا ،میکڈم بھی بچھایا جائے گا لیکن نومبر دسمبر میں جب برف باری شروع ہوگی تو وہ تارکول کئی فٹ برف کے نیچے دب جائے گااور پشتے پہاڑی رسائو کی وجہ سے زمین برد ہوجائیں گے ۔اس رقم کا بہتر ین صرفہ صرف اسی صورت میں یقینی بنایا جاسکتا ہے جب اس شاہراہ کو ہمہ موسمی بنایا جائے کیونکہ جب انتہائی کٹھن موسمی حالات والے سیکٹر اُس سیکٹر میں ٹنل تعمیر کیاجائے گا تو پھر شاہراہ سال بھر کھلی رہ سکتی ہے اور جب شاہراہ کھلی رہے گی تو یوں ہر سال 47کروڑ روپے کی رقم تارکول بچھانے پر صرف نہیں کرنا پڑے گی ۔
امید ہے کہ موجودہ انتظامیہ معاملات کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس شاہراہ کو ہمہ موسمی بنانے پر زیادہ توجہ مرکوز کرے گی تاکہ سرکاری خزانہ کا ہر سال یوں زیاں نہ ہوتا رہے اور جموں سرینگر قومی شاہراہ کا بھی ایک قابل اعتبار متبادل ہمہ وقت تیار رہ سکے ،جس سے دونوں صوبوں کے درمیان نہ صرف رابطہ برقرار رکھنے میں مدد مل سکتی ہے بلکہ اشیائ کی دستیابی کا سلسلہ بھی برقرار رہ سکتا ہے اور یوں سرما کے ایام میں غذائی اجناس کی قلت کے حوالے سے ہاہاکار کی صورتحال سے بھی بچا جاسکتا ہے۔