مغرب اور مسلمان

مسلمانوں کی قلیل تعداد ہی امریکا منتقل ہوئی۔ یورپ سے بڑے پیمانے پر کی جانے والی نقل مکانی نے امریکا کے یورپی تشخص کو باضابطہ شکل دے دی۔
اگر ہم تاریخ کا جائزہ لیں تو ہمیں اسلامی ادیبات میں امریکا کا ذکر شاذ ہی ملتا ہے۔ جب امریکا نیا نیا دریافت ہوا تھا تب تو شاید مسلمانوں میں تجسس موجود تھا۔ اس کا اندازہ ہمیں کولمبس کے امریکی نقشے سے ملتا ہے، جو ترکی میں ترجمہ کیا گیا تھا اور آج بھی استنبول کے ایک عجائب گھر میں موجود ہے۔ اس کے بعد سولھویں صدی میں ترک زبان ہی میں کتاب ’’مغربی ہندوستان کی دریافت‘‘ لکھی گئی جو ایک ترکی جغرافیہ دان نے تحریر کی تھی۔ یہ ترکی میں شائع ہونے والی اولین کتب میں سے تھی۔ اس کے بعد دلچسپی ختم ہوتی چلی گئی اور ہمیں ترکی، عربی اور کسی بھی دوسری مسلم زبان میں امریکا کا کچھ خاص تذکرہ نہیں ملتا۔ اس کے بعد اٹھارویں صدی میں ہمیں ’’امریکی خانہ جنگی‘‘ کا احوال ملتا ہے جو یقیناً عربی زبان میں تحریر کیا گیا پہلا براہ راست مشاہدہ تھا کیونکہ مراکش کا سفیر امریکا میں موجود تھا۔ بعدازاں مراکش کے سلطان نے امریکا سے امن اور دوستی کا ایک معاہدہ بھی کیا تھا۔ اس کے بعد سے ہمیں امریکا اور دیگر مسلم ممالک کے روابط کا ذکر تواتر سے ملتا ہے۔ ان میں کچھ دوستانہ، کچھ جارحانہ اور کچھ تجارتی معاملات شامل ہیں۔امریکی خانہ جنگی کے نتیجے میں ابھرنے والی نئی ریاست کا مکمل ادراک اس دور میں کسی مسلم حکومت نے نہیں کیا یا پھر ان انقلابات کے نتیجے میں رونما ہونے والی تبدیلیاں، یعنی خود مسلم ریاستوں میں کبھی تاجر، کبھی سفیر اور کبھی استاد یا مبلغ کی حیثیت سے امریکیوں کی آمد عدم توجہ کے باعث مسلمانوں کی نظروں سے اوجھل رہی۔دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ اور جاپان بری طرح تباہ ہوچکے تھے اور عالمی منڈی میں امریکا کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئی نہیں تھا۔ اس دور میں امریکی مصنوعات دور افتادہ علاقوں تک پہنچ رہی تھیں۔ ساری دنیا کی طرح مسلم دنیا میں بھی امریکی مصنوعات کا استعمال بڑھنے لگا جس سے نہ صرف ان کی طرز زندگی میں غیر محسوس تبدیلی آنے لگی بلکہ عمومی مذاق بھی تبدیل ہونے لگا۔ اس کے نتیجے میں امریکی مصنوعات کی طلب میں اضافہ ہوا۔ اس پر مستزاد یہ کہ ٹیلی وژن ٹیکنالوجی اور سنیما نے تو گویا امریکی تہذیب کو پَر لگادیے۔ اب نت نئے فیشن کے ملبوسات، بڑی اور چمکدار گاڑیاں اوراس سے بڑھ کر خود امریکی طرزِ زندگی دنیا بھر میں پھیلتی جارہی تھی۔ کچھ لوگوں نے امریکا کو آزادی و انصاف کے مترادف قرار دیا جبکہ کچھ لوگوں کے لیے امریکا دولت، طاقت اور کامیابی کا مترادف تھا۔اسی دوران مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد بھی امریکا کا رخ کرنے لگی۔ پہلے پہل تعلیم کے حصول کی خاطر، پھر معلم کی حیثیت سے اور آخر کار وہاں سکونت اختیار کرنے کی غرض سے۔دوسری جنگ عظیم نے تو گویا پرانی دنیا کا نقشہ ہی تبدیل کردیا۔ گو امریکا اس جنگ میں آخر میں شریک ہوا تاہم سب سے زیادہ فائدے میں وہی رہا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد سے تیل کی دولت دریافت ہوچکی تھی اور اس پر تغلب و تسلط کے لیے امریکا اور برطانیہ مشرقِ وسطیٰ کی سیاسی بساط پر مہرے لڑارہے تھے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ بری طرح تباہ ہوا۔ لندن جیسا شہر بھی اچھا خاصا تاراج ہوچکا تھا۔ صنعتی نظام متاثر ہوا۔ بعد از جنگ از سر نو تعمیر و ترقی اس کی ترجیحات میں سرِفہرست تھی۔ اس کے مقابلے میں امریکی صنعتوں نے دن دگنی رات چوگنی کے مصداق ترقی کی۔ یہی سبب تھا کہ اسے مشرقِ وسطیٰ میں قدم جمانے کا موقع مل گیا۔ نئی بدلتی دنیا میں امریکی تہذیب، جسے عام طور پر غلط فہمی کی بنیاد پر یورپی یا مغربی تہذیب کہہ دیا جاتا ہے، پوری طرح دنیا پر چھارہی تھی … بالخصوص تیسری دنیا پر۔مسلم ممالک بھی اس تہذیبی یلغار سے بچ نہیں پائے تھے۔ ان کی قدیم روایات اور خاندانی و سماجی ڈھانچا بھی تبدیل ہو رہا تھا۔ سیاسی میدان میں بھی نئے خیالات جنم لے رہے تھے۔ دنیا سے خلافت کا خاتمہ ہوچکا تھا اور جمہوری طرزِ حکومت پروان چڑھ رہی تھی۔ امریکا لبرل جمہوریت کا سب سے بڑا علم بردار بن کر ابھر رہا تھا۔
مسلمانوں میں امریکا کے خلاف اس قدر اشتعال پنپنے کی وجوہ سمجھ میں آتی ہیں تاہم ہم عمومی تجزیوں سے ہٹ کر ذرا گہرائی سے جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ مغربی حکومتوں نے تیسری دنیا کے مسلم ممالک اور خاص طور پر مشرق وسطیٰ کے مسلم نوجوانوں میں اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کی خاطر کسی بھی حوالے سے غصہ بھڑکانے اور اُسے بروئے کار لانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل کے بعد مغرب نے اُس حکمت عملی کو یکسر ترک کردیا جس نے ان نوجوانوں کو آتش خُو بنا رکھا تھا۔ مغرب یہ بھول گیا کہ پالیسیوں کو اس طرح یکسر ترک کردینے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا کیونکہ اس کے مابعد اثرات تادیر قائم رہتے ہیں۔ حالیہ تاریخ سے اس کی مثال یوں لیں کہ فرانسیسیوں نے الجزائر، برطانویوں نے مصر سے انخلا کے وقت مستقبل کے حوالے سے کوئی باضابطہ منصوبہ (روڈ میپ) تیار نہ کیا۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ انخلا کے بعد ان علاقوں میں مغرب اور اُس کے اتحادیوں کے لیے نفرت میں اضافہ ہوا ہے۔یورپ سے بالعموم اور امریکا سے بالخصوص نفرت کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ یہ دونوں اسرائیل کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔ اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ محض اسرائیل کی حمایت اتنی شدید نفرت کی بنیاد نہیں بن سکتی، یہ بالائے فہم ہے۔ اپنے قیام کے ابتدائی دنوں میں اسرائیل اور امریکا میں ایک فاصلہ موجود تھا کیونکہ اسرائیل تو خالصتاً برطانوی حمایت کے نتیجے میں وجودمیں آیا تھا۔ امریکا کے مقابلے میں روس نے جس گرم جوشی کا مظاہرہ کیا تھا وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ یہودیوں کی ایک بہت بڑی تعداد روس میں آباد تھی جو اسرائیل کے قیام کے فوراً بعد نقل مکانی کرگئی۔ روس نے نہ صرف اسے تسلیم کیا بلکہ اپنے زیر اثر چیکوسلواکیہ کے ذریعے اس کی بھرپور مدد بھی کی۔ اسرائیل کو اس کے قیام کے ابتدائی دنوں میں بھرپور مدد فراہم کرکے روس نے عہدِ طفولیت ہی میں مرنے سے بچالیا تھا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مسلم دنیا میں روس کے خلاف بھی اتنی شدید نفرت کا اظہار نہیں ملتا۔ امریکا نے ۱۹۵۶ء میں عسکری اور سیاسی مداخلت کرتے ہوئے مصر سے اسرائیلی، برطانوی اور فرانسیسی افواج کا تسلط ختم کرایا تھا مگر پھر بھی اس کے لیے پسندیدگی، تشکر اور محبت کے جذبات پیدا نہ ہوسکے۔ ۱۹۵۰ء کے عشرے کے اواخر سے ۱۹۶۰ء کے عشرے کے اختتام تک بیشتر مسلم ممالک (بشمول عراق، شام اور مصر) روس سے اسلحہ خریدتے تھے۔ یہ مسلم ممالک اقوام متحدہ میں روسی بلاک کا حصہ بھی تھے۔
امریکا سے نفرت کا دوسرا بڑا سبب یہ ہے کہ امریکی ایوانِ صدر نے استبدادی قوتوں کی حمایت کی ہے۔ امریکا نے اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر ہمیشہ ان حکمرانوں کی حمایت کی جو عوام میں بے حد غیر مقبول تھے یا پھر غیر جمہوری راستوں سے مسندِ اقتدار تک پہنچے تھے۔ عوام سمجھتے تھے کہ اگر امریکی حمایت نہ ہو تو شاید یہ آمر ایک دن بھی اقتدار کی کرسی پر نہ بیٹھ سکیں کیونکہ ان خطوں میں اصلاح پسند ایسے حکمرانوں کو رجعت پسند، بد اطوار، بدعنوان اور جابر سمجھتے ہیں جو تبدیلی سے خائف ہیں اور مغربی مفادات کا تحفظ چاہتے ہیں۔مغرب پر بالعموم عائد کیے جانے والے الزامات میں جنسی تفریق، نسل پرستی، سامراجیت ، مردانہ حاکمیت، غلامی بحیثیت کاروبار، آمریت اور استحصال نمایاں ہیں۔ یقیناً یہ تمام الزامات ایسے ہیں جن کی بنیاد پر مغرب کو مجرم قرار دیا جاسکتا ہے۔ خیر، یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ ان تمام بُرائیوں اور خرابیوں کا مجموعہ محض یورپ نہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے بعض جرائم تو ایسے ہیں جن کے حوالے سے یورپ بہت پیچھے نظر آتا ہے۔یہ درست ہے کہ مغرب میں عمومی طور پر اور مسیحیت کے زیر اثر بادشاہت کے دور میں خواتین سے کبھی اچھا سلوک روا نہیں رکھا گیا، تاہم یہ صورتِ حال ان معاشروں سے بہتر نظر آتی ہے جہاں ایک سے زائد بیویاں اور لونڈیاں (باندیاں) رکھنے کا رواج تھا۔ یہ رواج مغرب کے سوا دیگر تما م خطوں اور معاشروں میں عام تھا۔آج غلامی کو ممنوعہ قرار دیا جاچکا ہے اور اس حوالے سے سخت قوانین بھی بنادیے گئے ہیں مگر غلامی کا دور ہمارے حافظے میں محفوظ ہے۔ اُس دور میں غلامی معاشرتی عمل کے طور پر رائج تھی اور اِسے سماجی ضرورت قرار دیتے ہوئے اس کے وجوب اور تحفظ کے لیے قوانین بھی وضع کیے گئے تھے۔ یہ درست ہے کہ مغرب نے افریقا اور دیگر خطوں سے لاتعداد افراد کو لاکر اپنی منڈیوں میں غلام کی حیثیت سے فروخت کیا۔ اِسے ایک باضابطہ کاروبار کی شکل دی گئی۔ مگر یہ بھی ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ سب سے پہلے مغرب ہی نے غلامی کا خاتمہ بھی کیا۔ فطری علوم و فنون کے نتیجے میں شعور و آگہی کے فروغ نے اہلِ یورپ کو تحریک دی کہ غلامی کی صرف مذمت نہ کریں بلکہ اِسے سرے سے ختم کردیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ استعماریت کے پھیلاؤ کا سرخیل یورپ رہا ہے۔ لیکن کیا ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ جب کوئی تہذیب یا قوت اپنی حدوں سے تجاوز کرتی ہوئی دور دراز کے خطوں تک پہنچی اور وہاں قدم جمائے؟ کیا کوئی یہ بتاسکتا ہے کہ اپنے استعماری پھیلاؤ کے عرصے میں یورپ سے ایسی اخلاقی لغزشیں سرزد ہوئیں جو اس سے قبل عربوں کی فتوحات، ترکوں کی خلافت یا پھر منگولوں کی یلغار کے دوران سرزد نہیں ہوئی تھیں اور وہ سب کے سب ان تمام خطاؤں اور اغلاط سے مبرّا و ماورا تھے؟ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ فتوحات کے دور میں ہر استعماری طاقت اس طرح کی تاریخی کوتاہیوں اور لغزشوں کی مرتکب ہوتی ہے۔
نسل پرستی، استعماریت اور اسی قبیل کی دیگر خامیاں دراصل انسانی نسل کی خامیاں ہیں اور مغرب بھی چونکہ انسانی نسل کا نمائندہ ہے لہٰذا وہ بھی ان خامیوں کو دہراتا رہا ہے۔ ایک بات کا سہرا البتہ مغرب کو جاتا ہے جو اُسے دیگر تہذیبوں سے ممتاز کرتا ہے … یہ کہ مغرب نے ان تاریخی امراض کی محض تشخیص نہیں کی بلکہ انسانیت کو ان سے نجات دلانے کے اقدامات بھی کیے۔جب یورپی استعمار دنیا بھر میں پھیل رہا تھا تب چونکہ اس کا مذہب مسیحیت تھا اس لیے استعماریت کی مذمت کے دوران تاریخ کے کسی موڑ پر اُسے مذہب سے بھی جوڑ دیا گیا۔ استعماری قوتیں طاقت کے ذریعے محکوم اقوام کے معاشرتی مقام کا تعین کرتی ہیں۔ اُسے چونکہ مذہبی رنگ دے دیا گیا تھا اس لیے یہ ناقابلِ برداشت تھا کہ کوئی ’’کافر‘‘ استعماری قوت سچے عقائد رکھنے والی قوم پر حکمرانی کرے۔ سچے عقائد کے حامل افراد کی کفار پر حکومت تو جائز اور فطری ہے کیونکہ اس طرح خدا کے قوانین کی بالا دستی اور حرمت برقرار رہتی ہے اور کفار کے راہِ راست پر آنے کے امکانات بھی توانا رہتے ہیں مگر کفار کی حاکمیت مذہب کی صریح توہین سمجھی جاتی ہے۔ ان وجوہ کی بنیاد پر بھارت کے زیر تصرف کشمیر، افریقا اور سنکیانگ میں پھیلی ہوئی بدامنی ہماری سمجھ میں آتی ہے۔
آیئے، آخر میں لادینیت یعنی سیکولر ازم کا جائزہ لیں۔ لادینیت کا آغاز ہمیں مسیحیت کے ابتدائی ادوار میں بھی مل سکتا ہے، جب مذہب اور ریاست کو الگ الگ حیثیت دی گئی۔ بعد میں مسیحیت کے اندرونی خلفشار اور تفرقہ بندی کے باعث دونوں ادارے ایک دوسرے سے دور ہوتے چلے گئے۔ مسلمانوں میں مذہبی فرقے ہیں مگر مسیحیوں اور کیتھولک اور پروٹیسٹنٹ کے درمیان عقائد و نظریات کی جنگ میں بہنے والی خون کی ندی سے مسلمانوں میں مسلکی اختلافات پر ہونے والا سر پُھٹول کوئی مماثلت نہیں رکھتا۔ یورپی تاریخ میں سولہویں اور سترہویں صدی کیتھولکس اور پروٹیسٹنٹس کے درمیان جنگ و جدل سے بھری ہوئی ہے۔ حالات اتنے بگڑے کہ تنگ آکر مسیحیت کو عیسائیت کو مذہب اور ریاست کی علیحدگی کا اعلان کرنا پڑا۔ مسلمانوں کو اس طرح کی ضرورت کبھی پیش نہیں آئی کہ جب وہ مذہب اور ریاست کو الگ کرنے کا اعلان کرتے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اسلام میں ’’ریاستی لادینیت‘‘ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اسلام میں تکثریت (pluralism) کا تصور بھی دیگر مذاہب سے مختلف ہے۔ اسلام میں کبھی دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو ان کے اپنے عقائد کی تبلیغ کی مکمل آزادی نہیں دی گئی، سوائے ان مذاہب کے ماننے والوں کے جو الہامی ہونے کے دعوے دار تھے۔ رواداری اور برداشت کا یہ عملی مظاہرہ مسیحیت کی تاریخ میں کہیں نہیں ملتا تاوقتِ کہ اٹھارہویں صدی کے اختتام تک سیکیولر ازم نے جڑیں مضبوط کرنا شروع نہیں کیں۔شروع میں تو مسلم دنیا کی جانب سے مغرب کی کاوشوں کو سراہا گیا اور اس کی پیروی کی کوشش بھی کی گئی۔ اسلامی دنیا میں پھیلی غربت، جہالت اور کمزوری شاید ایسی وجوہ تھیں جن کو مدنظر رکھتے ہوئے اس نے ترقی کرتے مغرب کی پیروی کرنے کی کوشش کی۔ مغرب اور اسلامی دنیا کے درمیان بڑھتے فاصلے کا احساس سب سے پہلے میدان جنگ میں ہوا، اور پھر فطری علوم و فنون میں بھی عیاں ہوگیا۔ مسلم مصنفین نے مغربی سائنس اور ٹیکنالوجی، اس سے حاصل ہونے والی دولت اور طاقت، مصنوعات اور طرزِ حکمرانی کا ذکر کیا اور مصلحین نے مغرب کی ان کاوشوں کو اپنانے اور انہیں اپنے اپنے خطے میں رائج کرنے کے لیے بھرپور جدوجہد کی تاکہ وہ مغرب کی ہمسری کرتے ہوئے اپنا اجتماعی وقار بحال کرسکیں۔ تبدیلی کا یہ عمل بہت سُست رفتار ہوتا ہے۔ مغرب کو بھی بدلنے میں صدیاں لگی تھیں۔ بہت کچھ قربان کرنا پڑا تھا۔ مسلمان شاید اب تک یہ بات قبول یا ہضم نہیں کرپائے ہیں کہ کل تک وہ جن لوگوں پر حکمرانی کیا کرتے تھے یا جن علاقوں پر ان کے گھوڑے دوڑتے تھے آج وہ لوگ دنیا پر حکمرانی کر رہے ہیں۔مسلم دانشوروں سے ایک بنیادی غلطی یہ سرزد ہوئی کہ انہوں نے داخلی طور پر تبدیلی لانے کے لیے کوئی عملی اور ٹھوس کام نہیں کیا۔ انہیں ایسا بہت کچھ کرنا چاہیے تھا، جس کی جڑیں ان کی اپنی تہذیب اور تعلیمات میں ہوں۔ مغربی ترقی کی ہمسری کرنے کی دوڑ میں یا کم از کم اپنے آپ کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کے لیے جو طریقے اور نظریات اپنائے گئے مسلم دنیا کے عوام کے لیے اجنبی تھے۔ ان نئے خیالات اور نظریات کی جڑیں خالصاً مغربی تھیں۔ یہی سبب ہے کہ مغربی معاشی نظام کو اپنانے کی صورت میں بھی مسلم ممالک بڑی معاشی قوت نہ بن سکے۔ مسلم ممالک میں مغربی سیاسی اداروں کا قیام بھی زیادہ مفید نہ رہا۔ ان ممالک میں ہمیں جابجا جابر اور آمرانہ حکومتیں اور بادشاہتیں نظر آتی ہیں۔ میدان جنگ میں مسلمانوں کی شکست کی وجہ یہ ہے کہ مغربی ہتھیار تو بے شک انہوں نے یورپ اور امریکا سے خرید لیے لیکن وہ ٹیکنالوجی اور جدید جنگی حکمتِ عملی نہ اپناسکے۔ پھر ہوا یوں کہ معاملات کی تہہ تک پہنچ کر انہیں سمجھنے کے بجائے مسلم دنیا سے آواز ابھرنے لگی کہ ’’رجعت الاولیٰ‘‘ یعنی ابتدا کی طرف لوٹ جانا چاہیے۔ مغرب نے سیاسی، معاشی، معاشرتی اور عسکری اداروں کی بنیاد جن اصولوں پر رکھی ہے انہیں بنانے، سنوارنے، تراشنے میں انہیں کئی صدیاں لگی ہیں۔ بیشتر مسائل اس حقیقت کو نہ سمجھنے سے پیدا ہوتے ہیں۔
  (ختم شد)
