طارق شبنم
کوتاہیاں نوجوان انشائیہ نگار ایس معشوق احمد کی تصنیف ہے ۔ایس معشوق احمد جموںو کشمیر کے ضلع کولگام سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ان کی اب تک تین کتابیں منظر عام پر آکر قارئین سے داد و تحسین حاصل کر چکی ہیں ۔ مجھ سے قسم لے لو جو ’’ کوتاہیاں ‘‘کے سوا ان کی کوئی اور تصنیف مجھے تحفتاً مل گئی ہو ۔ ہاں ان کی ایک کتاب ’’دبستان کشمیر کے درخشاں ستارے‘‘کے سر ورق اور مضامین کی فہرست کے دیدار سوشل میڈیا کے ذریعے ضرور ہوئے ہیں۔ معشوق مشہور ہوجائے تو نئے نئے عاشق اس کی ناز برداری کرتے ہیں اور وہ پرانے دوستوں سے رابطے محدود کر لیتا ہے۔ شکایت ایک طرف حقیقت یہ ہے کہ نوجوان پود کے حوالے سے معشوق کا شمار جموںو کشمیر کے نما ئندہ قلم کاروں میں ہوتا ہے۔انہوں نے اپنی محنت ، لگن اور صلاحیت سے بہت کم وقت میں ادبی حلقوں میں اپنی ایک الگ اور منفرد پہچان بنائی ہے ۔ان کی نگار شات خاص طور پر انشائیے ملک و بیرون ملک میں شایع ہونے والے موقر رسائل و جرائد میں تواتر سے شائع ہوتے ہیں۔سونے پہ سہاگہ معشوق تنقیدی صلاحیت بھی رکھتے ہیں اور مختلف نوعیت کی کتابوں پر لگاتار ماہرنہ انداز میں بصیرت افروز تبصرے رقم کرتے ہیں ۔
پیش نظر انشائیوں کے مجموعے ’ کوتاہیا ں‘ کی شروعات مصنف کے مختصر خاکے سے ہوتی ہے جس میں انہوں نے اپنے نام ، پسند اور ناپسند کے بارے میں اظہار خیال کیا ہے۔ اس مختصر خاکے کے بعد قاری کا سامنا پیش لفظ ’’عرض یوں ہے ‘‘سے ہوتا ہے۔ پیش لفظ میں مصنف نے انتہائی دلچسپ انداز میں مرزا ،جس کا حوالہ وہ اپنی اکثر تحریروں میں دیتے ہیں ،کے تعارف کے علاوہ کتاب کے حوالے سے بھی مختصر بات کی ہے ، لکھتے ہیں : ’’آپ سوچ رہے ہونگے کہ اس کتاب کا نام کوتاہیاں کیوں ہے؟اس لئے کہ اس دور میں وقت نکال کر کچھ لکھنا اور پھر کتابی صورت میں سامنے لانا کوتاہی کے سوا کچھ نہیں ۔بعض کوتاہیوں پر سوچنے سے پچھتاوا ہوتا ہے اور بعض پر انسان مسرت کا اظہار کرتا ہے ۔یہ کوتاہی ملے جلے احساسات کی ترجمانی کر رہی ہے ۔اس کا خیال آتے ہی مسرت ہوتی ہے ،پچھتاوا بھی ہوسکتاہے لیکن پڑھنے والوں کو، میں بھی خوش نہیں ہوں وفا کرکے کیوں کہ اپنے خرچے سے جو یہ کتاب چھاپنے جا رہا ہوں‘‘۔
یہ چند سطور پڑھ کر قارئین خود ہی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ مصنف نے کس قدر طنز کرتے ہوئے اپنے منفرد انداز میں کتنی گہری بات کہی ہے، جس پر سنجیدہ ہو کر سوچنے کی ضرورت ہے ۔اس کے بعد معشوق کے ادبی سفر، اسلوب ، زبان و بیان اور کتاب کے حوالے سے پروفیسر خورشید احمد،ڈاکٹر فریدہ تبسم،ڈاکٹر مظفر نازنین،وقار احمد ملک،شمع اختر انصاری اوراقراء یونس کے مضامین شامل کتاب ہیںجب کہ بیک کور پر پروفیسر غیا ث الرحمٰن کے تاثرات درج ہیں ۔ ان مضامین کے مطالعے سے معشوق احمدکے ادبی سفر خاص طور پر انشائیہ نگاری کے حوالے سے تفصیلی جانکاری ملتی ہے ۔شمع اختر انصاری اپنے مضمون ’’یوسفی ثانی ۔معشوق‘‘ میں رقم طراز ہیں : ’ ’ معشوق کی تحریروں میں جا بجا مشتاق یوسفی کا انداز نظر آتا ہے ۔کسی ماہر بازی گر کی طرح جو پہلے کسی دِکھتے مقام پر آنکس چھبوئے ا ور پھر درد کی شدت سے کلبلاتے وجود کو ٹھنڈے میٹھے شربت پیش کردے اور خود دور بیٹھ کر تماشا دیکھے ،بالکل کسی معشوق فریبی کی طرجو محبت کی طرف پیش قدمی بھی کرے اور محبت سے دامن بھی چھڑالے ‘‘۔(کوتاہیاںــــ۔ص33, )
پیش نظر کتاب میںمختلف موضوعات پر کل اکیس انشائیے شامل ہیںجن کے مطالعے سے قاری ایک نئی دنیا میں پہنچ جاتا ہے ۔مزاح سے بھر پور اور دلچسپ انداز بیان میں مصنف نے معاشرے کی حقیقتوں کو اُجاگر کرنے کی کوشش کی ہے کہ قاری کو مسکرانے کا بہانہ میسر آتا ہے ۔ ان دلچسپ انشائیوں کے مطالعے سے قاری کے ذہن میں بہت سے سوالات بھی کلبلانے لگتے ہیں اوروہ غور و فکر کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف کا مطالعہ اور مشاہدہ کتنا وسیع ہے ۔دیکھیں یہ اقتباس :’’ کچھ لوگ گوشہ نشین ہوتے ہیں ۔ان کی زندگی پر سکون اس لئے ہوتی ہے کہ انہیں کسی دوست کا ساتھ،دشمن کی ذات اور بیوی کی بات کا تجربہ نہیں ہوتا ہے ۔زندگی کے سرد وگرم سے آشنا شخص دنیا میں کوئی ایسا نہیں ہوگا جس کا ان تینوں سے واسطہ نہ رہا ہو۔بعض کی زندگی ان کے وجود سے جہنم سے بد تر ہو جاتی ہے ۔اچھا دوست اللہ کی خاص رحمت اور اچھی بیوی خاص عنایت ہے ،دشمن کا درجہ زحمت کا ہی رہتا ہے چاہیے اچھا ہو یا بد تر۔مرزا کہتے ہیں کہ دشمن کے بعد جانی دشمن صرف دو ہیںدوست اور بیوی۔یہ دونوں دشمنی کرنے پر آجائے تو بڑے بڑے دشمن کا مرتبہ اس سے چھین لیتے ہیں‘‘۔(انشائیہ، دوست دشمن اور بیوی، ص۔50)
اس انشائیے میں مصنف نے انسانی زندگی کے تین اہم کرداروں یعنی دوست ،دشمن اور بیوی کے منفی اور مثبت ذہنیت اور ان کے سبب سامنے آنے والے نتائیج کی بہترین انداز میں عکاسی کی ہے اور مزاحیہ انداز میں اس بات سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی ہے کہ دوست ،دشمن اور بیوی کا انسان کی زندگی کو کامیابیوں سے ہمکنار کرنے یا ناکامیوں کے اندھے کنویں میں دھکیلنے میں کتنا اہم رول ہوتا ہے ۔زیر نظر مجموعے میں ایک سے بڑھ کر ایک دلچسپ انشائیے موجودہیںجیسے عمر پوچھنا،ادھار اور گالی،بائیک خریدنے کاخواب، گائے بھی چوری ہوئی ،شادی شدہ اور کنوارے اور ماڈرن محبوب وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔ملاحظہ فرمائیں یہ اقتباس : ’’ماڈرن محبوب کی بہت ساری نشانیاں ہیںجن میں ایک بڑی نشانی یہ ہے کہ اس کے ایک ہاتھ میں بیگ اور دوسرے ہاتھ میں فون ہوگا ۔کانوں میں بالیوں کے بجائے آئر فون لگا ہوگا ۔راہ چلتے ہوئے وہ خاموش نہیں ہوگا بلکہ ایک عدد محبوب سے باتوں میں مشغو ل ہوگا ۔وفاداری بشرط استواری سے اس کا ایمان اٹھ گیا ہوگا۔اپنی تفریح اور دوسروں کی خوشی کے لئے اس کو جو بھی نمبر کی پرچی دے گا اس سے فون پر بات کرے گا ۔دوران فون اگر کسی اورعاشق کا فون آیا تو نئے محب کو فوراًبھائی کا درجہ دے گا ۔اس کا اصول ہوتا ہے ہم نے سیکھا نہیں ایک کا ہو کے رہنا ‘‘۔(انشائیہ،ماڈرن محبوب، ص۔124)
انشائیہ ماڈرن محبوب دور حاضر کے ایک سلگتے موضوع پر تحریر کیا گیا ہے جس میں بہترین اسلوب میں نوجوان پود میں پھیلی بے راہ روی اور حرص ولالچ جیسی لاعلاج بیماریوں کی نشاندہی کی گئی ہے جب کہ لطیف انداز میں معاشرے پر طنز کے تیر برسائے گئے ہیں ۔ الغر ض موجودہ دور میں جب انشائیے لکھنے کا رواج معدوم ہوتا جارہا ہے ،معشوق احمداس صنف کو اپنا کر اپنے انشائیوں کے ذریعے سماج کو ا ٓئینہ دکھاتے ہیں ۔فی زمانہ اکثر نوجوان افسانہ ،کہانی اور شعر و شاعری کی طرف راغب ہیں لیکن ایس معشوق احمد انشائیہ کے عاشق ہیں اور ان کے ا نشائیوں کی خاص بات اس کا شگفتہ اسلوب اور سادہ و سلیس انداز بیان ہے جو قاری کو اپنے ساتھ بہا کر لے جاتا ہے ۔کتاب کو جی این کے پبلیکیشنز نے عمدہ کاغذ اور بہترین ٹائیٹل کور کے ساتھ شایع کیا ہے ۔امید ہے کہ کتاب کو ادبی حلقوں میں خوب پذیرائی ملے گی۔ اس خوب صورت کتاب کی اشاعت کے لئے میں معشوق کو مبارک باد پیش کرتا ہوں، اس امید کے ساتھ کہ معشوق مستقبل میں صنف انشائیہ کی آبیاری کرتے رہیں گے اور ناقدین بھی ان کی انشائیہ نگاری کی طرف توجہ کریں گے تاکہ اس نوجوان کے حوصلے مزید بلند ہوں۔
[email protected]