وادی کے مشہور و معروف ڈرامہ نگا ر، مصور ، کہہ مشق شاعر، افسانہ نگار اور جدید آر ٹ کے خالق سجود سیلانی 85 برسوں کی مایۂ ناز زندگی گزار کر 17؍ نومبر 2020ء کو اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔
مرحوم نہ صرف کشمیری تمدن، ثقافت ، آرٹ اور زبان کو فروغ دینے میں مصروف العمل رہے بلکہ اُنہوں نے تا حیات ڈرامہ نگاری سے وابستہ تنظیموں ، فن کے شائقین اور نئی نسل کا حوصلہ بڑھایا۔
کشمیری تھیٹر کو پنپنے اور تھیٹر کو ملکی و بین الاقوامی سطح پر مقبول بنانے میں سجود سیلانی نے انتھک کوشش کی۔
مرحوم ، جن کا اصلی نام غلام محمد وانی تھا، ادبی ، فنی اور ڈرامہ نگاری کے میدان میں سجود سیلانی کے نام سے مشہور ہوئے۔ان کی پیدائش سری نگر کے ڈل گیٹ علاقے میں ہوئی اور شہر سری نگر میں ہی پرورش پائی اور وفات بھی اپنے آبائی رہائش گاہ پر ہی ہوئی ۔مختلف سرکاری محکموں میں اُنہوں نے بحیثیت مصور، رنگ ساز اور سائن بورڈ رائٹر کام کیا۔ لیکن فنون لطیفہ سے اُنکی وابستگی کا یہ عالم تھا کہ انہیں ڈرامہ نگاری ، شاعری اور اس کے علاوہ مضمون نویسی کیساتھ ساتھ کارٹون بنانے کے فن میں بھی بھرپور مہارت حاصل کی اور یہی اُنکی پہچان بنی اور ان ہی اوصاف کی وجہ سے وہ معروف و مشہور ہوئے ۔
سجود سیلانی نے بے شمار ڈرامے لکھے، جوریڈیو ، ٹیلی ویژن اور سٹیج پر کھیلے گئے اور عام لوگوں میں بہت مقبول ہوئے ۔ اُنہوں نے بہت خوبصورت شاعری کی اور متعدد تنقیدی اور سبق آموز مضامین لکھے۔ وہ او پیرا فیچر بنانے میں بھی ماہر تھے اور ساتھ ہی مختلف اخبارات کے لئے کالم بھی قلم بند کئے ۔ چند اخباروں کے لئے وہ کارٹون بھی بناتے تھے، جن میں طنزو مزاح او ر سماجی معاملات و مشکلات خوبصورت انداز میں بیان کئے جاتے تھے۔
سیلانی صاحب اپنے دور میں مختلف ادبی ، سماجی او رتمدنی اداروں سے بھی وابستہ رہے ۔ سٹیٹ کلچرل اکادمی اُنہیں مختلف موقعوں پر بحیثیت ڈرامہ نویس ، جج ، ماہر استاد اور بطور تنقید نگار مدعو کرتی تھی ۔ کچھ عرصہ تک وہ ساہتیہ اکادمی کی مشاورتی کمیٹی کے ممبر بھی رہے ۔
مرحوم کی تصانیف کشمیری اورزبانوں اور بوجپوری میں انکے تراجم ہمارے ادب کے خزانوں کی زینت بنی ہوئی ہیں۔
جو مشہور کتابیں ان کی اب تک شائع ہو چکی ہیں ان میں مندرجہ ذیل کتابیں قابل ذکر ہیں۔
شہجار ، نوحہ گر، العطش ، شاہکار ، کج راتھ، کارٹون البم، جل ترنگ ، کشمیری زبان میں اسٹیج ڈراموں کی تفاصیل ، صحیفہ سجو د ۔ جلد ۱، صحیفہ سجود ۔جلد۲، نجاتھ ۔ طویل ڈرامہ ، نوحہ گوند ۔
جن ادبی کاموں کے لئے انہیں اعزازات عطا کئے گئے ۔ ان میں جموںوکشمیر ریاستی کلچرل ادکادمی کی طرف سے بڑا اعزاز ’’شہجار ‘‘کتاب کے مصنف کے طور پر دیا گیا۔ کشمیر تھیٹر فیڈریشن کی طرف سے اُنہیں بہترین ڈرامہ نویس ، ریاستی اکادمی کی طرف سے بہترین تھیٹر ساز ، سوم ناتھ سادھو میموریل ٹرافی، ریڈیو ڈرامے کے لئے آکاش وانی نیشنل ایوارڈ ، ’’کج راتھ‘‘ کتاب کے لئے ساہتیہ اکادمی ایوارڈ اور بہترین ڈرامہ نگار اور writer in residence سے نوازا گیا۔
ایک دفعہ چند ساتھیوں کے ساتھ گفتگو کر تے ہوئے انہوں نے کہا ’’ میں آل انڈیا ریڈیو کا ’’ہوا محل‘‘ پروگرام بہت شوق سے سنتا ہوں بلکہ سارے ڈرامے دیکھنے اور سننے اچھے لگتے ہیں مگر سوچتا رہا کہ کاش میں بھی ایک ڈرامہ نویس بن جاتا ۔‘‘
اُنہوں نے دسویں جماعت کی سطح پر ہی شوق پالیا ۔ اُن ہی دنوں اُنہو ں نے اپنا نام سجود سیلانی بھی رکھ لیاجبکہ اُن کا اصلی نام غلام محمد وانی تھا۔ ریڈیو کشمیر سری نگر کے اس وقت کے پروڈیو سر غلام حسن اعجاز نے پہلی بار انہیں دعوت دی اور سری نگر ریڈیو کے لئے ڈرامے کی ترغیب دی۔
بہت کم عرصے میں ان کے ڈرامے کج’’ راتھ ، گاشہ تارکھ اور روپیہ رود‘‘ معروف ومشہور ہوئے ۔ شہرت کے آسمان کو چھوتے ہوئے اُس زمانے کے مشہور مصور غلام رسول سنتوش اُن سے ملنے آئے اور اُن کے کام کو سراہا۔
معروف وانی آرٹ گیلر ی انہوں نے ہی قائم کی ہے۔
۷۰اور ۸۰ کی دہائی میں اُنہوں نے کشمیری جدید تھیٹر کے لئے یاد گار کام انجام دئیے ۔اُن میں ’’زَلر، تینٹ کور، فند باز، وتر بینل‘‘ قابل ذکر ہیں۔
۱۹۶۷ء میں اُنہوں نے سنگم تھیٹر قائم کیا جہاں اُنہوں نے ’’روپیہ رود‘‘ و دیگر مشہور ڈرامے سامعین کے سامنے پیش کئے ۔
مختصر یہ کہ ایک دسویں پاس شخص نے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کے صفوں میں جگہ بنائی اور آخر کار دار فانی کو کوچ کر گئے ۔ یقینا اُنہیں اُن کی عظیم کاوشوں کے لئے ہمیشہ یاد کیا جائے گا۔
���