یو این آئی
نئی دہلی//سپریم کورٹ نے معدنیات سے مالا مال ریاستوں کیلئے مالیاتی راحت کا فیصلہ سناتے ہوئے اپنی معدنیات سے مالا مال زمین پر مرکزی حکومت اور لیز ہولڈرز سے پر یکم اپریل 2005 سے واجب الادا رائلٹی اور ٹیکس وصول کرنے کی بدھ کو اجازت دے دی۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ اور جسٹس ہریشی کیش رائے، جسٹس ابھے ایس اوکا، جسٹس بی وی ناگرتنا، جسٹس جے بی پاردی والا، جسٹس منوج مشرا، جسٹس اجول بھویان، جسٹس ستیش چندر شرما اور جسٹس آگسٹین جارج مسیح پر مشتمل آئینی بنچ نے یہ اہم فیصلہ سنایا۔تاہم نو رکنی بنچ نے کہا کہ آنے والے 12 سالوں میں اس طرح کے واجبات مرحلہ وار طریقے سے وصول کیے جا سکتے ہیں۔ مزید برآں، بنچ نے یہ بھی واضح کیا کہ ریاست ماضی کے مطالبات پر جرمانہ یا ٹیکس نہیں لگا سکتی۔عدالت عظمیٰ نے کہا کہ ریاستوں کے پاس معدنیات سے مالا مال زمینوں پر ٹیکس عائد کرنے کی قانون سازی کی اہلیت دینے والا اس کا 25 جولائی 2024 کا فیصلہ سابق اثر سے لاگو ہوگا۔جسٹس چندر چوڑ کی سربراہی والی بنچ نے 31 جولائی کو اس مسئلہ پر اپنا حکم محفوظ رکھا تھا کہ آیا 1989 سے کانوں اور معدنیات سے مالا مال زمینوں پر مرکزی حکومت کی طرف سے عائد رائلٹی ریاستوں کو واپس کی جائے گی۔ مرکزی حکومت نے معدنیات سے مالا مال ریاستوں کی طرف سے 1989 سے کانوں اور معدنیات سے مالا مال زمینوں پر عائد رائلٹی واپس کرنے کی مانگ والی درخواست کی بار بار مخالفت کی تھی۔سپریم کورٹ نے ریاستوں کے ٹیکس لگانے کے حق کو برقرار رکھتے ہوئے 25 جولائی کو کہا تھا کہ کان کنی کے لیز ہولڈروں کی طرف سے مرکزی حکومت کو ادا کی جانے والی رائلٹی ٹیکس نہیں ہے۔ عدالت نے کہا تھا کہ مائنز اینڈ منرلز (ڈیولپمنٹ اینڈ ریگولیشن) ایکٹ 1957 ٹیکس لگانے کے ریاستوں کے حق کو محدود نہیں کرتا ہے۔جسٹس ناگارتھنا، تاہم، اکثریت کے خیال سے متفق نہیں تھے اور کہا کہ رائلٹی ٹیکس کی ہی نوعیت میں ہے۔ ان کا خیال تھا کہ ریاستوں کو ٹیکس لگانے کی اجازت دینے سے وفاقی نظام ہوجائے گا اورکان کنی کی سرگرمیوں میں مندی آئے گی۔ اس سے ریاستوں کے درمیان کان کنی کے لیز حاصل کرنے کے لیے غیر صحت مند مسابقت بھی بڑھے گی۔