بلا شبہ انسان کی زندگی میں تعلیم کی اہمیت و ضرورت ایک ایسی مسلمہ سچائی ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ زمانۂ قدیم سے دور ِحاضر تک ہر متمدن اور مہذب معاشرہ نے تعلیم کی افادیت کو محسوس کرتے ہوئے تحصیل علم کی طرف توجہ مرکوز رکھی اور اس کی تکمیل کے لیےہر ممکن کوششیں جاری رکھیں۔ اسلام نے بھی انسانی فطرت کے مطابق علم حاصل کرنے کی ہر لمحہ حوصلہ افزائی فرمائی ہےاورگود سے لے کر گور تک علم حاصل کرنے کا تصوردے کر تعلیم حاصل کرنا فرض قرار دیاہے۔تعلیم کی دو قسمیں ہیں ،ایک عصری تعلیم جس کو دنیاوی تعلیم اور جدید تعلیم بھی کہا جاتا ہے، دوسرا دینی تعلیم جس کو مذہبی تعلیم بھی کہتے ہیں، جو دنیا کے تمام تر علوم و معارف کا سرچشمہ اور منبع ہے۔دنیا کے تمام علوم اسی کے مرہون منت ہیں۔ظاہر ہے کہ تعلیم ہی کسی قوم کے لیے ترقی کا سب سے اہم اور بنیادی عنصر ہے ،جو قوم علم حاصل کرنے میں آگے بڑھتی ہیں اور اس کی روشنی سے استفادہ کرتی ہے، وہی قومیں سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کر کے دنیا پر حکمرانی کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔دور ِحاضر میں عصری تعلیم کے بے پناہ فوائد ہیں،زندگی کے ہر شعبوں میں آج عصری تعلیم کی رنگا رنگی نظر آتی ہے، قوموں کی قیادت،سیاست اور تدبیر منزل جیسے اوصاف عصری تعلیم کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتے۔سائنس اور ٹیکنالوجی کے برق رفتار عہد میں عصری تعلیم کے بغیر باوقار زندگی گزارنے کا تصور بھی محال سا نظر آتا ہے۔اس لئے ضروری ہے کہ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ ہمارے معاشرے کا نوجوان بھی عصری تعلیم سے آراستہ ہو،تبھی وہ دورِ حاضر کے مختلف مسائل اور چیلنجوں کا سامنا کرسکتا ہے۔عصری تعلیم سے روزگار اور آمدنی کے ذرائع بھی کشادہ ہوں گے، جس سے غربت، افلاس اور تنگ دستی جیسے مسائل سے نجات حاصل کرنے میں بھی مدد ملے گی۔یاد رہے کہ دور حاضر کے تقاضوں سے آگاہی کے بغیر ہمارا معاشرہ اپنا کاروانِ حیات کامیابی کے ساتھ آگے نہیں بڑھا سکتا اور اس کا شعور و ادراک دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم کے حصول سے ہی ممکن ہوگا۔ اس بات کو بھی ذہن نشیں رکھنا نہایت ضروری ہے کہ عصری تعلیم کے جہاں بے شمار فوائد ہیں وہی بہت سے نقصانات بھی ہیں ،اِسی بنیاد پر مسلم معاشرےمیں عصری تعلیم کو لے کر ہمیشہ بحث و تمحیص کا موضوع بنی رہی،آج بھی اس بارے مثبت اور منفی دونوں نظریات ہمارے معاشرے میں پائے جاتے ہیں ،جہاں ایک طبقہ عصری تعلیم کا زبردست حامی ہے، وہیں وہ طبقہ جس میں ہمارے بعض علمائے کرام بھی شامل ہیں، جدید اور عصری تعلیم کا مکمل طور پر انکار نہ کرتے ہوئے حتی الامکان عصری تعلیم سے دوری بنائے رکھنے کے قائل نظر آتے ہیں۔گویا دونوں طبقے اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ مسلمانوں کو بھی ڈاکٹر، سائنسداں، قانون داں اور ماہر ریاضی و فلسفہ بننے کی سخت ضرورت ہے۔شائدانہیں احساس ہوچکا ہے کہ عصری تعلیم کی فقدان کی وجہ سے ہی ہم زندگی کے اہم شعبہ جات میں دوسروں سے کافی پیچھے رہ گئے ہیں۔ معاشرت ،معیشت، ثقافت،سیاست،تجارت اور دیگر معاملات میں دوسروں کے غلام بن گئے ہیں۔ مسلمان جس کی تخلیق دنیا کی قیادت و رہنمائی کے لئے کی گئی ہے اور جس کے سر پر خلافت کا تاج زرین سجایا گیا ہے، وہ آج خود نشان منزل کھو بیٹھا ہے اور سرابِ سفر کو مقصود حقیقی سمجھ کر اسی پر قانع و شاکر ہے، اسی لیے ذِلت و نکبت کے دلدل میں دُھنستا چلا جا رہا ہے۔ہمیں اس بات کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ ہم شاندار ماضی اور عبرت ناک حال کو دیکھ کر روشن مستقبل کی عمارت کھڑی کرنے کے لیے منظم منصوبہ بندی کریں اور یہ دور ِحاضر میں عصری تعلیم کے حصول کے بغیر ممکن نہیں ہے۔اس لئے اپنےمعاشرے میں تعلیمی شعور کو پیدا کرنا، تعلیم کے فائدوں اور ترکِ تعلیم کے نقصانات سے آگاہ کرنا، اورتعلیم کے مواقع فراہم کرنا ہمارا فرض بنتا ہے۔معاشرےمیں بچوں کی ایک بڑی تعداد غربت و افلاس کے باعث اپنا تعلیمی سفر یا تو شروع نہیں کر پاتی یا اس کو جاری نہیں رکھ سکتی، ایسے بچوں کا محلہ جاتی سطح پر سروے کر کے ان کی تعلیمی کفالت کا بندوبست کرنابھی ہماری ذمہ داری ہے۔آج بھی ہمارے یہاں کئی مدارس ایسے ہیں جہاں کے منتظمین اپنےمحدود ذرائع کے تحت بچوں کو دینی تعلیم سے تو آراستہ کرتے ہیں لیکن عصری تعلیم سے بہرہ ور نہیں بنا سکتے ہیں،جوکہ ایک فکر مندامر ہے۔ گورنمنٹ کی طرف سے بہت ساری تعلیمی اسکیمیں اور طلباکے لیے وقفہ وقفہ سے رعایتیں جاری ہوتی رہتی ہیں۔عام طور سےہمارے معاشرے کا پسماندہ اورغریب طبقہ ان سے واقف نہیں رہتا یا اس سلسلے کی صحیح معلومات اور فائدہ اٹھانے کے طریقوں سے ان کو واقفیت نہیں ہوتی،تو اس پس منظر میں شخصی طور پر بھی اور تنظیمی طور پر بھی صلاحیت مند افراد کو آگے آنا چاہئےاور سرکاری رعایتوں سے ضرورت مندوں کو متعارف کروانا چاہیے۔تاکہ امت مسلمہ کی تعلیمی زبوں حالی دور ہو سکے اور ان کامستقبل تابناک ہوسکے۔،اس سے بھی منظم صورت یہ ہے کہ ہر محلہ یا علاقے میں ایسے اسکول قائم کرنا، جہاں مفت یا رعایتی فیس پر جدید تعلیم کا انتظام ہو، اہل ثروت اور اصحاب خیر حضرات اس کے لئے سبقت کریں اور آگے آئیں تو اپنےمعاشرےکے تئیں اُن کی یہ قابلِ فخر خدمت ہوگی۔