ارم فاطمہ
کسی بھی ملک کی معاشرت اور اس کی تہذیب کی عکاسی وہاں رہنے والے افراد کی زندگی ، ان کے اطوار ، ان کی سوچ اور ان کے رویوں سے ہوتی ہے۔جب معاشرہ اور تہذیب رو بہ زوال ہو اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو تو لازمی بات ہے اس معاشرے میں رہنے والے افراد کی زندگی اس سے لاتعلق کیسے رہ سکتی ہے۔
کہا جاتا ہے،نوجوانوں میں گمراہی اور بگاڑ تب پیدا ہوتا ہے جب وہ بلوغت اورنشوونما کی طرف گامزن ہوتے ہیں۔ہر لمحہ نئے تجربات اور تازہ احساسات ان کی سوچ اور فکر کی راہیں متعین کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں دوسری طرف جذبات کی شدت انہیں درست فیصلے کرنے نہیں دیتی یہی وہ موقع ہوتا ہے جب نوجوانوں کو رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر اس وقت انہیں ماں باپ بزرگوں اور اساتذہ کی توجہ نہ ملے تو ان کی شخصیت میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے۔
آج کل معاشرے کے بدلتے رجحانات کے باعث اکثر والدین اپنے بچوں کا مغرب زدہ ہونے پر فخر کرتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ نسلِ نو مغربی فکر وفلسفہ سے اتنی متاثر ہو چکی ہے کہ مادی دوڑ میں سب سے آگے بڑھ جانا چاہتی ہے یہ جانتے ہوئے بھی کہ مشرقی اور مغربی کی مذہبی، سماجی معاشرتی ضرورتیں اور اقدار اپنی الگ پہچان رکھتی ہیں، اس سے زیادہ نوجوان طبقہ اتنا متاثر ہوا کہ وہ نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے۔
نوجوانوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے پاس فراغت بہت ہے،کرنے کو کچھ نہیں کوئی تعمیری سوچ نہیں۔ تعلیمی مواقع کم ہیں۔ ان کی تعلیمی اور معاشی ناکامیاں انہیں مایوس اور نا امید کر دیتی ہیں۔وہ کم حوصلے سے بے عمل ہو جاتے ہیں۔ خواہشات اور شیطانی وسوسوں میں پڑ جاتے ہیں،یوں منفی سوچوں کے باعث اپنی ذمہ داریوں اور اسلام سے دور ہو جاتے ہیں۔اس کا حل یہ ہے کہ ان کو ان کی ذہنی صلاحیتوں کی بنا پر عملی طور پر مصروف رکھا جائے جس سے نہ صرف ان کے سوچ میں تبدیلی آئے بلکہ وہ معاشرے کے فعال رکن بن سکیں۔
ان کا دوسرا سب سے بڑا مسئلہ جو انہیں ان کی ذمہ داریوں سے برگشتہ کر کے منفیسر گر میوں میں مصروف رکھ ر رہا ہے، وہ ہے جنریشن گیپ،اس کی وجہ ماں باپ، اساتذہ اور بزرگوں کی بے جا تنقید ہے۔ ان کے بڑے انہیں اپنی سوچ اور اپنے زمانے کے حوالے سے دیکھتے ہیں پرکھتے ہیں انہیں اپنی بات کہنے اور منوانے کا موقعہ نہیں دیا جاتا، جس سے ان میں فرسٹریشن بڑھتی ہے اور وہ اپنے رشتوں سے دور ہوکر خود ہی اچھے برے فیصلے کرتے ہیں اور ساری عمر بھٹکتے رہتے ہیں۔
ہونا یہ چاہیے کہ، ایک دوسرے کی بات تحمل اور کشادہ دلی سے سنی جائے۔ نوجوانوں کو اپنی بات کہنے کا پورا موقعہ دیا جائے، تا کہ وہ اپنا نقطہ نظر بیان کر سکیں، مگر ہوتا یہ ہے کہ انہیں غیر ذمہ دار سمجھا جاتا ہے ان پر اعتبار اور بھروسہ نہیں کیا جاتا ،جس سے کہ نوجوانوں کی صلاحیتیں نکھر کر سامنے نہیں آتیں۔اس لئے بزرگوں کو چاہیے ان دوریوں کو مٹائیں اور ان کی اصلاح کے ساتھ ان کی حوصلہ افزائی بھی کریں۔
ملک میں جو افراد انٹرنیٹ کی سہولت رکھتے ہیں،اُن میں کثیر تعداد نوجوان نسل کی ہے، جو زیادہ تر سوشل نیٹ ورک سائیٹس پر اپنا قیمتی وقت صرف کرتے ہیں۔دنیا میں تقریباً چورانوے فیصد نوجوان فیس بک کا استعمال محض اپنے اردگرد کے لوگوں کے بارے میں کہ وہ کیسا محسوس کر رہے ہیں کس کے ساتھ ہیں ؟ کیا کر رہے ہیں؟ جاننے میں لگا دیتے ہیں۔سوشل میڈیا ایک ایسا نشہ بن چکا ہے، جس کے نہ ملنے پر آج کا نوجوان ڈپریشن اور پریشانی کا شکار ہو کر اپنی صحت تعلیم اپنے فرائض اور یہاں تک کہ اپنوں سے کٹ کر زندگی گذار رہا ہے۔یہ نشہ اسے تنہائی کا عادی بنا رہا ہے اور تنہائی اسے مختلف برائیوں کی طرف راغب کر رہی ہے۔
ہمیں چاہیے کہ ان مسائل کے حل کے لیے حکومتی اداروں کی طرف دیکھنا بند کریں کیونکہ آج کل کے مسائل کے انبار میں حکومت اور ا س کے اداروں کی چشم پوشی کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔
جبکہ معاشرے کا فرض اولین ہے کہ وہ اپنے گلشن کے پھولوں کی نرمی اور شگفتگی برقرار رکھنے کے کے لیے خود تازہ ہوا اور بہتر ماحول کا بندوبست کرنے کی کوشش کریں کیونکہ ان نوجوانوں سے ہی
ہماری کل کی پہچان اور مستقبل وابستہ ہے۔