معاشرے کی تعمیر میں ماں کا رول اہم

رئیس یاسین

بچوں کی پرورش میں ماں کا نمایاں کردار ہوتا ہے۔ ماں اپنے اولاد کے لیے کتنے مشکلات اور تکالیف برداشت کرتی ہےا س کی کوئی حد ہی نہیںہوتی ۔ ایک صالح اور دین دار ماں ہی معاشرے کو ایک نیک فرد دے سکتی ہے۔ اس لئے ایک مسلمان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ شادی کے انتخاب میں ایک صالح اور دین دار خاتون کا انتخاب کرے۔ تاکہ اُس کی زوجہ حرام چیزوں سے دور رہے۔ علامہ اقبال کی والدہ کی والدہ کی مثال ہمارے سامنے ہےکہ اُس کے خاوند یعنی علامہ اقبال کے والد اُس پیشے سے منسلک تھے، جو سود سے جُڑا ہوا تھا اور علامہ اقبال کی والدہ اسےبالکل پسند نہیں کرتی تھی۔ جب علامہ اقبال پیدا ہوئے تووالدہ نے اُنہیں اپنی چھاتی کا دودھ نہیں پلایا ،وہ چاہتی تھی کہ میرے بیٹے کی جسم میں حرام کمائی کا ایک بوندبھی نہ جائے۔ تو والدہ نے اپنے ذاتی زیورات بیچ کر ایک بکری خریدی اور اُسی بکری کے دودھ سے اپنے بیٹے کی پرورش کی۔پھر اللہ نے علامہ اقبال کا رتبہ بلند کیا۔آج بھی اگر امت مسلمہ کی ماؤں میں دینی فہم رائج ہو جائے تو معاشرہ میں پیدا شدہ اخلاقی بگاڑ کا خاتمہ ہوجائے گا۔گویا کسی بھی بچے کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ہی ہے،تو بچے کوابتدا سے ہی صالح بنانے میں ماں کا ہی اہم رول ہوتا ہے۔چنانچہ آجکل بدقسمتی سے چھوٹے بچوں کے ہاتھوں میں جس طرح سماٹ فون تھمائےجاتے ہیں، وہ ایک غلط طریقہ کارہے، جس سے بچوں پربُرا اثر پڑتا ہے۔ والدین اور خاص کر ماں کو چاہیے کہ بچوں کو سماٹ فون سے دور رکھے۔ ماں کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ جب اولاد بولنا شروع کرے تو اس کی زبان پر پہلے دینی اوراخلاقی بول چال کا سلیقہ سکھائیںاور پھر ابتدائی تعلیم اسی حوالے سے دی جائے۔ یاد رہے کہ عملی میدان میں جوطریقہ اور رویہ والدین دکھائیں گے،بچے وہی عمل اپنائیں گے۔ جب والدین نمازی ہو، سچ بولتے ہو، ایمان دار ہو، تو اس کے اثرات بچوں پر مرتب ہو تے رہیں گے، خاص کر ماں کے ۔عموماً بچے وہی کچھ کرتے رہتے ہیں جو وہ اپنی ماں کو کرتے ہوئے دیکھتےہیں۔بچوں کے ذہن میں بھی یہ باتیں سما جاتی ہیں،جو انہیں اپنے والدین سے ملتی ہیں۔ ایک بچے کو ابتدا سے ہی بہادر، ایماندار، دین دار، خدا پرست بنانا والدین پر ہی منحصر ہے۔روزانہ جب وہ سکول کے لئے نکلے تو اچھے ڈھنگ سے صاف ستھرا رکھنے کی تربیت بچپن سے ہی کی جائےاور بچے کو خود کام کرنے کی عادت ڈال دی جائے۔ سونے اور جاگنے کے اوقات، کھانے کے اوقات،نماز کے اوقات کی پابندی سمیت گھر کے چھوٹے موٹے کاموں میں بڑوں کے ساتھ شامل ہونے سے بچوں میں ڈسپلن پیدا ہوجائے گا اور زندگی کی دوڑ میں وہ ہر وقت متحرک رہیں گے۔ بچوں کو یہ چیزیں ماں ہی سے مل سکتی ہیں، ماں جو چاہے، اپنے بچے کو بناسکتی ہے۔ نپولین نے کہا تھا ’’مجھے اچھی مائیں دو اور میں تمہیں ایک عظیم قوم دوں گا۔‘‘گویاایک ماں کا ہی بچے کی کردار سازی میں اہم رول ہوتاہے۔ والدین کے پاس سب سے قیمتی سرمایہ یہی اولاد ہوتا ہے ۔ ماں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ زندگی کے ہر موڑ پر اپنے بچوں کی اچھی تربیت کرے۔ آجکل ہمارے معاشرے میں جہاں ہمارے نوجوان اخلاقی زوال کا شکار ہو چکے ہیں۔ وہاںمائووں کی ذمہ داریاں بھی بڑھ گئی ہیںکہ وہ ہر معاملے میں اپنے بچوں پر نظر رکھیں۔ ہمیں خالص سکولوں سے ہی اُمید نہیں رکھنی چاہئے کہ وہاں پر اُن کی ہر طرح کی تربیت ہو گی ۔ اخلاقی تعلیمات، زندگی گزارنے کا طریقہ کار ہمیں اپنے بچوں کو گھر میں ہی سکھانا ہو گا۔یہ تبھی ہوگا جب ماں اس کے لئے محنت و مشقت کرے گی،کیونکہ گھر کا تربیتی نظام ہی اولاد بگڑے ہوئے ماحول سے بچا سکتا ہے۔ ہمارے سامنے امت کی عظیم ماؤںکی کئی مثالیں ہیں۔ حضرت اسماعیل ؑکی والدہ ماجدہ حضرت ہاجرہؑ وہ عظیم حوصلہ و استقلال کہ ’’باپ اپنے بیٹے کو قربان کرنے اور بیٹا قربان ہونے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں‘‘۔ یہ ماں کی تربیت تھی جیسے اقبال نے کہا ’’یہ فیضان نظر تھا یا مکتب کی کرامت تھی۔‘‘ شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ ، جنہوں نے ماں کی تربیت سے ڈاکوؤں کے سردار کے سامنے سچ بول کر ڈاکوؤں کو بھی اللہ کے دربار میں توبہ کرنے کی توفیق دی۔ اس کو ماں نے تربیت کی تھی کہ بیٹا ہمیشہ سچ بولنا چاہیے ،حالات جو بھی ہو۔ افسوس ہم بوڑھے تو ہو رہے ہیں، پھر بھی اللہ سے جو اقرار کیا تھا ،اسے بھولے جارہے ہیں ۔
[email protected]