معاشرے میں نوجوان کی قدرو اہمیت!

کسی بھی معاشرے کی ترقی و ترویج میں نو جوانوں کا بڑا کردار ہوتا ہے اور معاشرے کے مستقبل کے روشن یا تاریک ہونے کا دارو مدار جہاں اس کے نوجوانوں کے رویے اور طرزِ حیات پر ہوتا ہے،وہیںملت اور معاشرے کی بقا کی خاطر سب سے اہم کردار نوجوانوں کا ہی ہوتا ہے۔اگرملت و معاشرے کے بڑ ے،بزرگ اپنے نوجوانوں کی تربیت کرنے ، ان کی اعلیٰ تعلیم کا اہتمام کرنے ، اپنے معاشرتی نظریات اور مفادات کی حفاظت کرنے والے مقاصد و اہداف اُن تک منتقل کرنے سے غافل رہے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ اِس معاشرے و ملت کا مستقبل تاریک ہورہا ہے۔ مایوسی یا حالات کی تنگ دستی جب کسی معاشرے کا دامن پکڑ لیتی ہے تو ایسے دور میں کسی معجزے یا کرشمہ قدرت کا انتظار کرنے کے بجائے ہر کسی کی توجہ اور توقع نوجوانوں پر مرکوز ہوجانی چاہئے۔نوجوان کتنے ہی آگے کیوں نہ بڑھ جائیں ،اُن کی سمت کا تعین کرنے میں اُن کے بڑوں کا ہی کردار ہوتا ہے اور اس معاملے میں غفلت نقصان دہ ہوتی ہے۔ہمارے اسلاف نے قوم کی بقاء کے لئے، اس میں اتحاد، تنظیم اور یقین محکم جیسی خوبیوں کا ہونا لازمی قرار دیاہے اور واضح کرکے رکھا ہے کہ کسی بھی معاشرےکے قیامِ امن اور ترقی میں جو کردار نوجوان نسل ادا کرسکتی ہے، وہ کوئی اور نہیں نبھا سکتا۔

 

ان پہلوؤں سے اگر ہم اپنی معاشرے اور اس کے نوجوانوں کا جائزہ لیں، اپنے تعلیم و تربیت کے نظام اور اس کے مقاصد و اہداف کا تجزیہ کریں اور اپنے دانش وروں، مذہبی رہنماؤں اور سیاسی ناخداؤں کے افکار و خیالات اور کارکردگیوں پر نظر ڈالیں ، تو انتہائی دُکھ اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑ تا ہے کہ اُنہوں نے مستقبل کے اِن معماروں کی کوئی قدر نہیں کی ، ان کی تعلیم و تربیت کا کوئی اچھا نظام قائم کرنے کے لئے کوئی جدو جہد جاری نہیںرکھی اور نہ ہی اُنہیں معاشرتی نظریات اور قومی اہداف سے روشناس کرانا اور ان کے اندر وفاداری اور لگاؤ پیدا کرنا پیشِ نظر رکھا ۔ لہٰذا اُسی غفلت و کوتاہی کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارے زیادہ تر نوجوان ادنیٰ مقاصد و مفادات کے غلام بن کر جی رہے ہیں۔ اُنہیں معاشرےکے مستقبل اور اس کی عزت و وقارسے کوئی سروکار ہی نہیں رہا اور نہ اپنے ورثے اور اور اپنی تہذیبی خصوصیات سے کوئی لگاؤ ہے۔ وہ اپنے معاشرتی نظریات سے ناآشنا اور اُس کے اہداف و مقاصد سے بالکل نابلدنظر آرہے ہیں۔ اُن کے اندر اپنے معاشرے اور قوم کی فلاح و بہبود اور استحکام و خوشحالی کے لیے قربانی دینے کا کوئی جذبہ پایا نہیں جاتا، ان کے سامنے تو بس اپنی زندگی، اپنا کیرئیر اور اپنی فیملی کے لئےاچھے لائف اسٹائل کا حصول ہی بنیادی مقصد ہےاورمحض مادی آسائشات و لذات کو زیادہ سے زیادہ سمیٹ لینا اور زندگی کی رونقوں اور راحتوں کو پالینا چاہتے ہیں۔ معاشرے کے مسائل ومشکلات اور مصائب و آلام کا انہیں احساس ہی نہیں، ایسےمیں اُن سےکسی مشکل گھڑ ی میں معاشرے کے لیے فعال کردار ادا کرنے کے لئے کچھ کرکےدکھانے کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے۔ غور کرنے والی بات یہ ہےکہ کیا اس میں ہماری حکومت کی ناقص پالیسیوں کا دخل رہا ہے یا پھر والدین کی غیر ذمہ داری کا قصورہے۔ دورِ حاضر میں نوجوانوں میں خوبیاں بھی ہیں لیکن ترازو کے دونوں پلڑے برابر نظر نہیں آتے۔ معاشرتی ڈھانچے کو بھی نئی نسل کی کچھ خاص پروا نہیں اور والدین بھی بے نیازی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ان کی اُلجھنوں کے بارے میں نہیں سوچا جارہا ہے، اگر کچھ ہو بھی رہا ہے تو محض سرسری طور پر۔اب بھی وقت ہے کہ نوجوانوں کی اہمیت اور قدر کو پہچانا جائے، انہیں اعلیٰ تعلیم، اخلاقی تربیت اور ملک و معاشرے کی ترقی و بہبودا ور استحکام کے اہداف کا پاسبان بنانے کی کوشش و جستجو کی جائے۔ جب ہی عروج و ترقی کا سفر شروع ہوسکتا ہے کیوں کہ نئی نسل کو راہ نمائی بھی درکار ہے اور حوصلہ افزائی بھی۔ ذہنی طور پر انہیں توانا رکھنے کے لیے ناگزیر ہے کہ اُن کی صلاحیتوں سے بھرپور استفادہ کیا جائے،اُنہیں کچھ نہ کچھ کرنے کے معقول مواقع فراہم کئےجائیں۔ہماری نوجوان نسلکو بھی اپنے رویے تبدیل کرنے اورکامیابی کے اصولوں سے ہم آہنگ ہونے کے لئےحالات کے پیش نظر اپنی کیفیت اور اندازِفکر بدلنے کی ضرورت ہے۔