کسی بھی معاشرے کےزوال کی علامات میں عموماً بے انصافی، بدعنوانی، سماجی انتشار اور حکومتی ناکامی شامل ہوتی ہیں۔ جب کوئی معاشرہ ان علامات کا شکار ہوجاتاہے تو اس کی اجتماعی طاقت اور معاشرتی ہم آہنگی بُری طرح متاثر ہو جاتی ہےاور یہ عمل معاشرے یا قوم کی مجموعی صلاحیتوں اور قابلیتوں کو کمزور کر دیتا ہے، جس کا نتیجہ معاشرتی اور اقتصادی مشکلات کی صورت میں سامنے آتا ہے۔اخلاقی انحطاط بھی معاشرےکے زوال کی ایک بنیادی علامت ہوتی ہے۔ جب معاشرے کے افراد میں سچائی، دیانت، امانت اور انصاف جیسے اخلاقی اقدار کی جگہ جھوٹ، فریب، بے ایمانی اور بددیانتی لے لیتی ہے تو معاشرےکی سماجی، سیاسی اور معاشرتی بنیادیںخستہ ہوجاتی ہیںاورپھر معاشرے میں تنزل کی ایسی صورت حال پیدا ہوجاتی ہے،جس کا اثرمعاشرے کے ہر شعبۂ ہائے زندگی پر پڑتا ہے۔لوگوں کے درمیان اعتماد کا فقدان پیدا ہوتا ہے،یکجہتی معدوم ہوجاتی ہے،نفرتیں بڑھ جاتی ہیں، جھوٹ اور فریب کی بنا پر تعلقات کمزور ہو جاتے ہیں، معاشرتی ہم آہنگی ختم ہو جاتی ہےاور ملازمت ،تجارت اور دیگر بیشترمعاملات میں بھی خود غرضی، بددیانتی، دھوکہ دہی اور رشوت ستانی کا رُجحان بڑھ جاتا ہے۔ اسی طرح جب قائدین اور حکمران بددیانت ہوجاتےہیں تو حکومتی ڈھانچے نا اہل و ناکارہ بن جاتے ہیں،جس کے نتیجے میں عوام کا سرکاری نظام پر اعتماد ختم ہو جاتا ہے اور قوم افراتفری کا شکار ہو جاتی ہے۔ علم و تعلیم سے دوری بھی معاشرے کے لئےزوال کی ایک اور علامت ہوتی ہے۔ جب معاشرےکے افراد تعلیم کو اہمیت نہیں دیتےاور علم اور تحقیق کو اہمیت دینا چھوڑ دیتے ہیں تو وہ معاشرےفکری اور سماجی اعتبار سے پیچھے رہ جاتے ہیںاور نتیجتاً معاشرے میں جہالت، غلط فہمیاں اور تعصبات جنم لیتے ہیں۔گویاجب کسی معاشرے کے افراد جدید علوم، ٹیکنالوجی اور تحقیق سے دور ہو جائیں تو وہ ہر سطح پر ہر معاملے میں دوسروں کی بیساکیوں کے محتاج بن جاتےہیں۔ اُن کے پاس بہتر روزگار کے مواقع نہیں رہتے اور وہ غربت و پسماندگی کا شکار ہو جاتے ہیں، اُنہیں دوسروں پر انحصار کرنا پڑتاہے،یہاں تک کہ وہ خود کوئی فیصلے کرنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔جس کےنتیجے میںاُس معاشرے کے قائدین عام لوگوں کے بجائے اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے ہیںاور ایسے فیصلے لیتے رہتے ہیں جو قوم اور معاشرے کی بہتری اور خوشحالی کے بجائے زوال کا باعث بن جاتے ہیں۔ عوامی وسائل کا غلط استعمال ہوتا ہے، پورا سرکاری نظام بدعنوان بن کر رہ جاتا ہےاور ہر شعبۂ ہائےزندگی بُری طرح متاثر ہوکررہ نااہلی اور سُستی میں مبتلا ہوجاتی ہےاور اس طرح معاشرے کا سارا نظام خود غرضی،ذاتی منفعت پرستی،بے ایمانی اور بد دیانتی کی لپیٹ میں آجاتا ہے ۔ظاہر ہے کہ کسی بھی قوم یا معاشرے کی بقاء کی راہ میں بنیادی اصولوں، دُرست حکمتِ عملیوں اور مثبت معاشرتی رویوں کا اہم کردار ہوتا ہے۔جبکہ قوموں کی بقاء کی ایسی کئی مثالیں ہمیں تاریخ میں بھی ملتی ہیں جب وہ قومیں اپنے درپیش مشکلات کا سامنا کرکےاور جدوجہد کرتے ہوئے مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے کوشاں رہیںاوراس عمل میںباہمی ہم آہنگی، اتحاد، تعلیمی ترقی اور مناسب قیادت اُن کے لئے کلیدی کردار ادا کرتی رہیںتو وہ بحرانوں سے نکل کر استحکام اور ترقی کی راہ پر گامزن ہوتی رہیں۔مگر افسوس! ہمارے معاشرے کے زیادہ تر لوگوں میں اپنے معاشرے کی فلاح و بہبودی،ترقی و خوشحالی لانے کی کوئی جستجو ہی نہیں رہی ہےاور نہ ہی معاشرے کے افراد میںنئی سوچ اور بہتر خیالات پروان چڑھتے ہیں،جبکہ اس جدید دور میںبھی یہی دیکھنے میں آتا ہے کہ ہمارے معاشرےکے زیادہ تر افراد اُسی پُرانی روایتی سوچ اور دقیانوسی خیالات میں حالِ مست اور مالِ مست ہیں۔یہی صورت حال ہمارےدینی ،سماجی ، سیاسی رہنمائوں اور حکمرانوں کی بھی ہے۔اُن کے پاس کوئی ایسا کوئی ویژن بھی نظر نہیںآتا ،جس سے وہ معاشرے میں درپیش چیلنجز کا کھل کر مقابلہ کرسکیں۔جبکہ مؤثر اور دیانتدار قیادت کسی قوم یا معاشرے کی ترقی اور خوشحالی کے لیے نہایت ضروری ہوتی ہے۔ جب معاشرے کے رہنمااور لیڈران اپنے فرائض کو دیانتداری اور قابلیت کے ساتھ انجام دیتے ہیں تومعاشرے پر اس کے اچھے اور مثبت اثرات مرتب ہوجاتےہیںاور قوم ترقی کی راہ پر گامزن ہوتی ہے۔ لیکن جب قیادت ان چیزوں سے بیگانہ ہوتی ہے تو قوم اور معاشرے کا زوال پذیر ہونا یقینی ہوتاہے۔