کشمیری معاشرے میں اب یہ بات نمایاں طورپر نظر آرہی ہے کہ مادہ پرستی ، جاہ پرستی،اَنّا پرستی اور خودسَری نے سماجی رشتوں میں بڑی بڑی دراڑیںڈال دی ہیں۔ خود غرضی نے معاشرے کو جال میں پھنسا رکھا ہے اور بیشتر لوگ نام و نمود اور ترقی کی بھاگم دوڑ میں اپنے رشتوں کو فراموش کر تےجا رہے ہیں ۔ مادیت نے سوچ اس حد تک کم کردی ہے کہ اب ہم یہ تک سمجھ نہیں پاتےکہ خاندان محض ایک سماجی رواج نہیں ہے جو وقتی ضرورتوں کے تحت وجود میں آیا ہےاورجب چاہیں اِس سے چھٹکارا حاصل کیاجائے۔افسوس!ہمارے معاشرے میںیہ خامی اور خرابی پیدا ہوئی ہے ، جس نےپورے معاشرے کا احاطہ کررکھا ہے اور یہ معاملہ بڑی تیزی کے ساتھ م فروغ پارہا ہے۔معاشرتی تقاضوں کو پورا کرنے میںدلچسپی ہی نہیں رہی ہے۔ ہماری تہذیب و تمدن ،اقدار اور ہماری اسلامی روایات کی عکاسی تک معدوم ہوتی چلی جارہی ہے۔اگرچہ یہ طے ہے کہ صبر وتحمل اعلیٰ درجے کی اخلاقی صفت نمایاں ہوکر بروئے کار آتی ہے،لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ ہم اس صورت حال پر سنجیدہ غور وفکر کرنے کا شعور بھی کھوتے چلے جارہے ہیں اور ہمیں یہ دکھائی نہیں دیتا ہے کہ جس راستے پر ہمارامعاشرہ چل پڑا ہے،وہ کسی صورت میں معاشرتی اقدار کے حق میں نہیں جاتا بلکہ ہر صورت میں معاشرے کو زوال پذیر بنانے میں معاون و مددگار ثابت ہورہا ہے ۔ ظاہر ہے کہ جس معاشرہ میں صبر وبرداشت کی کمی اور ایک دوسرے کے تئیں احترام کی صفت نہیں رہتی ہے،وہ معاشرہ کسی دُوررس اور صائب فیصلے تک پہنچ نہیں سکتا ہے۔خاندان اور رشتوں کاجو نظام انسان کو حاصل ہے ،وہ نہ صرف انسانوں کا امتیاز ہے بلکہ انسانی شرف کی ایک علامت بھی ہے ۔ رشتوں کا یہ نظام حالات و ضروریات کے تحت انسانوں کی اپنی اختراع نہیں بلکہ زندگی کے دیگر امتیاز کی طرح یہ انسانی زندگی کی ضرورتوں کو پورا کر نے والا امتیازی نظام ہے جو انسانوں کو خصوصی طور پر عطا کیا گیا ہے ۔انسان کو قدم قدم پر رشتوں کی ضرورت ہو تی ہے ۔خرابی انسانوں کے اندر تو ہو سکتی ہے لیکن رشتوں میں کوئی ایسی خرابی نہیں پا ئی جا تی کہ کسی رشتے کو نفرت کا رشتہ قرار دیا جا ئے ۔در حقیقت ہمارے معاشرے کے زیادہ تر لوگوں کی سوچ شائد اتنی کمزور ہوگئی ہے کہ وہ سمجھ ہی نہیں پاتے کہ معاشرہ افراد کے مجموعہ کا نام ہے اور ہر فرد اس بات کا ذمہ دار ہے کہ وہ اپنے معاشرہ کو ہر طرح کی خرابیوں اور گند گیوں سے پاک وصاف رکھے ،ظاہری نجاست اور باطنی ہلاکت والی چیزوں کو معاشرہ سے نکالنے کی کوشش کریں۔حالانکہ اسلام نے مسلمانوں کو اس بات کی بطور خاص تعلیم دی ہے کہ وہ اپنے گردو پیش چیزوں کا جائزہ لیتے رہیں اور جو خرابیاںپیدا ہورہی ہیں، اُن کے سد باب کی فکر کریں۔کیونکہ جب معاشرہ کی اصلاح اور سدھار کی فکریں ہوں گی ،تبھی اس کے نتیجہ میں افراد بھی پاکیزہ سانچے میں ڈھلیں گے، نوجوان بے راہ روی سے بچیں گے، امانت داری کا خیال رکھیںگے، ‘ رزق حلال کمانے کی کوشش کریں گےاور ایک دوسرے کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آئیں گے۔ معاشرہ کی تشکیل اور خاندان کی تعمیر میں مرد وزن دونوں کی اہمیت اپنی جگہ اہم اور مسلم ہے مگر نسل ِ نو کی پر ورش کی نگہداشت اور ان کی تعلیم وتربیت سے لیکر اُن کی ذہن سازی تک خواتین جتنا نمایاں کردار ادا کریں گی ،وہ مردوں کے مقابلے زیادہ موثر اور دیر پا ثابت ہوگا۔اس وقت بھی ہمارے معاشرے میں قلیل تعدا د میں ہی سہی،مخلص لوگ موجود ہیںجو اپنے اردگرد کے لوگوں کے رویے سے متاثرنہیں ہوتے ہیں اور اپنے اصولوں پر ثابت قدم رہتے ہیں۔ اُنہیں چاہیے کہ وہ اپنی عزت نفس اور اخلاقی قوت کو برقرار رکھیں اور دوسروں کے غلط رویوں کو اپنی ذات پر اثرانداز نہ ہونے دیں،بلکہ وہ اپنے اعتماد کو مزیدمضبوط کریں اور اس بات کو یاد رکھیں کہ مخلص لوگ بالآخر اپنی نیک نیتی کا پھل پاتے ہیں۔اس لئےہم سب پر لازم ہےکہ بھٹکے ہوئے لوگوں کو ایسے کاموں سے روکیں،جن سے اللہ ناراض ہوتا ہے۔جبکہ اشد ضرورت اس بات کی ہے کہ وادی ٔ کشمیر کاہر ذی ہوش فرداپنےمعاشرےمیں پیدا ہورہی تبدیلیوں کو کا سنجیدہ نوٹس لیںاور معاشرے کو انفرادیت کے نقصانات اور اجتماعیت کے فوائد کا احسا س دلانے کے لئےیک جُٹ ہوجائیں تاکہ معاشرے کی تشکیل اور خاندان کی تعمیر کا نظام مضبوط بنیادوں پر قائم رہ سکے۔