سرینگر// میڈیا ایجوکیشن ریسرچ سنٹر (ایم ای آر سی) یونیورسٹی کشمیر نے ’عالمی ریڈیو دن‘ منایا۔یونیسکو کے رکن ممالک کے ذریعہ 2011 میں اعلان کردہ ، عالمی ریڈیو دن کو اقوام متحدہ کی اسمبلی نے 2012 میں ایک بین الاقوامی دن کے طور پر اپنایا تھا۔ یہ ہر سال عالمی سطح پر منایا جاتا ہے۔کلیدی اسپیکر اور تجربہ کار براڈکاسٹر فاروق نازکی نے کشمیر میں ریڈیو کے تاریخی پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا’’ریڈیو ایک ایسا نشریاتی عمل ہے جس نے دنیا بھر اور کشمیر میں مختلف سطحوں پر معاشرتی تبدیلی اور ترقی لانے میں ایک ناگزیر کردار ادا کیا‘‘۔ وادی کے کچھ مقبول ریڈیو پروگراموں ’زون ڈب‘ اور’یووا واانی‘ کے بارے میں یاد کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ کس طرح ریڈیو نے عوام کو سہولت فراہم کی ۔ڈاکٹر نثار احمد میر ، رجسٹرار ، جامعہ کشمیر اور مہمان خصوصی نے بھی اس بات پر زور دیا کہ ریڈیو کی اہمیت اب بھی برقرار ہے کیونکہ یہ باہر کی دنیا سے جڑتا ہے ، ڈھال دیتا ہے اور خود کو جدت بخشتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ٹیلی ویژن تک رسائی حاصل نہ کرنے کے قابل لوگوں کیلئے اطلاعات اور خبروں کا مرکزی ذریعہ ریڈیو ہے۔ ڈاکٹر میر نے کہا’’نوجوان نسل کے تخیل سے مطابقت پذیر ہونے کے لئے ریڈیو پروگراموں کو زیادہ سے زیادہ پرکشش اور تخلیقی بنانا ضروری ہے‘‘۔نامور ریڈیو شخصیت اور خصوصی مدعو نیلش مشرا نے آڈیو کی رسائی اور اثرات اور عصر حاضر میں اس کی جگہ اور اہمیت کے بارے میں بات کی۔ انہوں نے وکالت کی کہ ایک اچھے انسان ہونے کے لئے ، ایک اچھا سننے والا ہونا پڑے گا۔معروف براڈکاسٹر سید ہمایوں قیصر نے اپنے تجربات بانٹتے ہوئے ’’مواد بادشاہ ہے‘‘ پر زور دیتے ہوئے کہا کہ مواد اور اسکرپٹ لکھنا اب بھی اہم ہے۔انہوں نے کہا ’’اگر آپ ان آوازوں کو پیدا کرنے کے قابل ہو تو آواز کبھی مر نہیں جاتی ہے‘‘۔انہوں نے کہا کہ ریڈیو کشمیر (اب آل انڈیا ریڈیو سرینگر) لوگوں کی زندگی کا حصہ تھا اور اب بھی جاری ہے۔کشمیر کے ممتاز براڈکاسٹر طلحہ جہانگیر نے اپنی پیش کش میں اس بات پر زور دیا کہ دنیا کو پہلے سے کہیں زیادہ ریڈیو کی ضرورت ہے۔ ایم ای آر سی سربراہ ڈاکٹر عالیہ نے اپنی تقریر میں کہا کہ ریڈیو مواصلات کی ایک اہم شکل ہے اور اس نے ٹیکنالوجی اور سامعین کے معاملے میں اپنے آپ کو نئی شکل دی ہے۔پرفیسر ناصر مرزا نے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے عالمی یوم ریڈیو منانے کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ ریڈیو انسانیت کو جوڑتا ہے اور تنوع کو فروغ دیتا ہے۔اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر افسانہ رشید نے شکریہ ادا کیا۔