بھارت میں ۲۰۱۴ء کی National crimes Records Bureau{NCRB} کی ایک رپورٹ کے مطابق اوسطاًہر دن ۹۲ خواتین جنسی زیادتی کا شکار بنائی جاتی ہیں،یہ صرف وہ اعداد وشمار ہیں جو سرکاری طور درج مقدمات پر مبنی ہیں ۔اس کے علاوہ جو واقعات سماجی وجوہ کی بنا پر رپورٹ ہی نہ ہوتے ہوں وہ کتنے ہوں گے آپ خود ہی اندازہ لگائیں ۔اس رپورٹ کے بعد یہی اندازہ ہم لگا سکتے ہیں کہ بھارت میں عورتوں کے ساتھ ریپ اور جنسی زیادتیا ں ایک عام سی بات بن گئی ہے۔ پھر کچھ کو تو خوش قسمتی سے انصاف مل جاتا ہے لیکن بہت سارے کیسز کو سماجی اورمذہبی رنگ دیا جاتا ہے اور کچھ سیاست کی نذر ہو جاتے ہیں ۔ آج ایسے ہی اُنائو اور کٹھوعہ کے عصمت دریوں کے معاملات ہمارے سامنے ہیں،جنہوں نے پورے بھارت کو ایک بار پھر پوری دنیا کے سامنے ننگا کیا ہے کہ ناری کا آدر صرف ایک ڈھکوسلہ ہے جب کہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ اول تو متاثرہ خواتین خود بدنامی کے ڈر سے اپنی بے عزتی کی رُوداد چھپاتی پھرتی ہیں ،دوم بہو بیٹیوں کے بارے میں اس حوالے سے کوئی حقیقت بیانی کر نے سے لوگ سہم جاتے ہیں کیونکہ اس سے سماج میں ان کی عزت کو بٹہ لگتا ہے ، سوم پولیس پر کوئی بھروسہ نہیں کہ وہ مجرم کو سزا دے بلکہ وہ اس سے روپیہ اینٹھ کر اپناچائے پانی چلاکر ایسا چکر چلائے کہ خود مظلوم شکست تسلیم کر نے پر مجبور ہو ، چہارم اگر مجرم کو سیا سی پشت پناہی حاصل ہو تو وہ متاثرہ خاتون کو کو از روئے قانون عدالت سے انصاف ملنا یا مجرم کو اپنے کئے کی سزادلوانا ماؤنٹ ایوریسٹ کو تن تنہا گرانے کے برابر ہے ، پنجم اگر سیاسی سپورٹ کے ساتھ ساتھ معاملہ کسی مذہبی یاسماجی اقلیت سے ہو تو اسے کوئی بھی رنگ دے کر قانون کو مذاق بنایا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے مینں روز بے شمار مثالیں ہماری نظروں کے سامنے بنتی ہیں ۔
آٹھ سالہ معصوم بچی آصفہ بانو کے ساتھ جنسی زیادتی ۱۰؍جنوری کو ہوئی اور اب تین مہینے کے بعد جب انٹرنیشنل میڈیا نے خبر چلائی تب جا کے نریندر مودی ،کچھ بالی ووڈ اداکاروں،سیاستدانوں اور کھلاڑیوں کوبھارت کی جگ ہنسائی کے بعد ضمیر جاگا یا انہیں مجبو ری لاحق ہوئی ،یہ وہیں جانے لیکن دیر آئے درست آئے کے مصداق اُن کی جاگرتی کا خیر مقدم ہے ۔ گردش زمانہ دیکھئے کہ وزیراعظم مودی نے کھٹوعہ کیس کے بارے میں چپ کاروزہ پچپن دن تک رکھا لیکن جب آصفہ کیس نے تکلف کاپردہ ذرا سا سرکایا تودنیا کو پتہ چلا کہ سب سے بڑا جمہوری ملک کہلانے والا ملک کس طرح صنف نازک کو غنڈوں موالیوں کے رحم وکرم پر چھوڑ کر فسطائیت کا کھلا ساتھ دے رہاہے تو ڈمیج کنٹرول کے لئے بھاجپا کے دو ریاستی وزیروں کو وزارت سے مستعفی ہونا پڑا ، مودی کو چار وناچار کہنا پڑا کہ قوم اور سماج کھٹوعہ اور اُناؤ واقعات پر شرم سار ہے( ان دونوںواقعات میں بی جے پی والے ملوث ہیں)اور یہ کہ ہم بیٹیوں کو انصاف دلائیں گے ، کسی مجرم کو بخشا نہ جائے گا ۔ یہاں تک کہ یہ انہونی بھی ہوئی کہ جس ہائی کورٹ بارایسوسی ایشن جموں نے آصفہ کیس کے ملزموں کیء حق میں بند کال دی تھی ،اس نے یوٹرن لے کر متاثرہ بکروال فیملی کو مالی ریلیف دینے اور آصفہ کی روح کی تسکیں کے لئے کینڈل جلوس کا اہتمام کیا۔ واہ رے سیاست !
آصفہ ریپ اور قتل کیس میں جموں کشمیر پولیس کی کرائم برانچ کی طرف سے ۱۵؍صفحات پر مشتمل چارج شیٹ کھٹوعہ کورٹ میں بصد مشکل داخل کیا گیا ۔اس جارج شیٹ کو پیش کرنے سے پہلے قانون دانوںاور قواعد کے نام نہاد محافظوں یعنی کھٹوعہ بار ایسوسی ایشن کے سنگھی وکلا ء نے کورٹ کے باہر زور دار احتجاج کیا اور پولیس کو چالان پیش کرنے روک دیا لیکن حکومت کی مداخلت سے یہ قانونی کارروائی رسماًپوری ہوئی۔ رپورٹس کے مطابق جارج شیٹ میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ بکروال طبقے کو کٹھوعہ سے نکال باہر کرنے کے لئے ہی آصفہ کے ساتھ وحشیانہ حرکت انجام دی گئی تھی۔ چارج شیٹ کے مطابق اس ساری ناقابل بیان واردات کا مرکزی ملزم ۶۰ سالہ سنجی رام ایک ریٹائرڈ ملازم ہے جس کے کہنے پر ایک پولیس کانسٹیبل دیپک کھجوریہ اور سنجی رام کے کم عمر بھانجے نے آصفہ کو اغواء کر کے مندر میں۔۔۔ جی ہاں مندر میںجہاں پر ہندو پوجا پاٹھ کے لیے جاتے ہیں، میں روپو ش کر گئے ۔اس مندر کی نگرانی سنجی رام ہی کرتا تھا ۔اس کے بعد لگاتار ۶؍ حیوانوں نے مل کر پانچ دن تک آصفہ کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔ان میں اغواء کاروںکے علاوہ دو پولیس کر مچاری دیپک کھجوریہ ،سریندر ورما ،پرمیش ورما،سنجی رام کا کم عمر بھانجہ اور اپنے بیٹے وشال جنگوترہ شامل ہیں۔ یہ سب اس وحشیانہ ،سفاک اور جرم عظیم کا حصہ بنے ۔ افسوس کہ جرم کے ارتکاب کے لئے سنجی رام کے بھانجے نے وشال کو میرٹھ سے گھر واپس بلایا تاکہ وہ اپنی ہوس پوری کر سکے۔ کسی کوراکھشس سنجی رام اور اس کے بھانجے کے اوپر شک وشبہ نہ ہو اس کے لئے یہ لوگ بھگوان کی پوجا بھی کرتے تھے۔ پولیس چالان کے مطابق جنسی زیادتی کے بعد سنجی رام کے بھانجے نے آصفہ کے سر پر دو پتھر مارے تاکہ انہیں اطمینان ہواس کی جان پوری طرح سیاس کے قفس ِ بدن سے نکل گئی ہے۔چارج شیٹ میں ان وحشیوں کے علاوہ ہیڈ کانسٹیبل تلک راج اور سب انسپکٹر آنند دتا کانام بھی شامل ہے،جنہوں نے سنجی رام سے مبلغ۴؍لاکھ روپے رشوت لے کے آصفہ ریپ اور قتل کیس کے سارے ثبوت و شواہد کو مٹانے کا کام کیا مگراس کا کیا کر تے کہ ان کی کرتوت کو دیکھنے والا خدا انہیں تاڑ رہاتھا۔
انڈین ایکسپرس کی رپورٹ کے مطابق آصفہ کے والد کا کہنا تھا کہ سنجی رام ان کے بھیڑ بکریوں کے جھنڈ کو اپنے گائوں کی سڑک سے گزرنے بھی نہیں دیتا تھا ،کچھ وقت سے یہ درندہ صفت انسان بکروال طبقے کی تنگ طلبیاں بھی کرتا تھا ،دو بار تو اس نے بکروالوں سے ان کے مویشیوں کو اس کے کنویں سے پانی پینے پر جرمانہ بھی وصول کیا۔آصفہ کے والد کا مزید کہنا تھا کہ میں نے سوچابھی نہیں تھا کہ ایسے گھناؤنے کام کو مندر میں انجا م دیا جائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ ہم ہر روز مندر سے گزرتے تھے جہاں دیپک کھجوریہ دروازے پر نظر بنائے ہوئے کھڑاارہتا تھا ۔ایک بار انہوں نے سنجی رام سے جب آصفہ کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا وہ کسی ہمسائے کے ہاں گئی ہو گی۔سنجی رام کے بیٹے کو میرٹھ سے گرفتار کرنے کے بعد سنجی نے ۲۰ مارچ کو بالآخر سرینڈر کیا ۔۱۵؍ صفحات پر مشتمل چارج شیٹ میں صاف بتایا گیا ہے کہ کیسے دو پولیس افسروں نے سنگین کرائم سے متعلق شواہد کو مٹانے کے لئے آصفہ کے خون آلودہ کپڑے دھودئے۔ آصفہ کو بلّی چڑھانے کے پیچھے سنجی رام کی یہ سازش تھی کہ بکروال رسنا اور دمہال کے علاقوں میں رہنا سہنا چھوڑ دیں ،وہ اس کے خلاف تھا اور کچھ عرصے سے ہندوئوں کو مسلم بکروالوں کے خلاف کھلے عام بھڑکاتا تھا ۔بکروال طبقے کو خوف وہراس میں ڈال کر وہانہیں کھٹوعہ بدر کر نے کا پلان رکھتا تھا۔ان کو اپنے علاقے سے نکالنے کے لئے یہ سنجی رام نے یہ سارا شرمناک اور روح فرسا جرم انجام د لوایا ۔اس غیر انسانی فعل کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے لیکن اس سازش کو جموں میں کیسے مذہبی ،فرقہ وارانہ لبادہ اوڑھ دیا گیا، اس سے لوگوں کوخدشہ لاحق ہے کہ اپنی ووٹ بنک سیاست کے لئے سنگھ پریوار کہیں جموں کی سرزمین کو ایک اور گجرات بنانے کے فراق میں تو نہیں ہے ۔ دوسری طرف بی جے پی اور کا نگریس ایک دوسرے پر بازی مار نے کے لئے کھٹوعہ کے المیہ پر صوبائی اور مذہبی تعصب کا رنگ چڑھا نے میں پیچھے نہ رہے۔’’انڈین ایکسپرس ‘‘کی رپورٹ کے مطابق یکم مارچ کو ہندو ایکتامنچ کی طرف سے بلائے گئے ترنگا بردار احتجاجی مارچ میں وزیر جنگلات لال سنگھ اور انڈسٹریز منسٹر چندر پرکاش گنگا کے ساتھ ساتھ بی جے پی ایم ایل ایز راجیو جسروٹیا اور کلدیپ راج پیش پیش تھے۔یہ جانتے ہو ئے بھی کہ ر ریاست میں پی ڈی پی کے ساتھ انہی کی سرکار ہے تو ان جگادریوں کااحتجاج میں شامل ہوناصاف دکھا رہاتھا کہ بھاجپا ایجنڈا کیا ہے اور اس کیس سے کس طرح کے سیا سی فائدے حاصل کر نامطلوب ہیں ۔ ان کی تدیبر الٹی پڑگئی اس لئے۱۳؍اپریل کی شام کو ان دونوں وزرا نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دیا ۔ اُدھر کا نگریس کے ریاستی صدر جی ایم میرجہاں بی جے پی کے وزرا ء کو تنقید کا نشانہ بنا تے ہوئے آصفہ کو انصاف دینے کی بات کرتے رہے ، وہیں جموں کے کانگریس لیڈر کنٹ کمار اور ہندو ایکتا منچ کے سیکٹری ،رومی شرما اور پنکج شرما جو ہیرا نگر اور کھٹوعہ کے یوتھ صدر ہیں، اس احتجاج کا حصہ بنے تھے۔یہ حال ہے لٹیرے سیاسی بازی گروں کی منافقت اور ان کے دوغلے پن کا۔اس کے ساتھ شیطان صفت مجرموں کو بچانے والے قانون کے محافظ کہلانے و الے ڈسٹرکٹ بار کھٹوعہ کا اصل روپ سامنے آگیا۔آصفہ کا کیس لڑنے والی وکیل دیپکا سنگھ راجوت نے جموں بار ایسوسی ایشن پر الزام لگایا کہ بار صدر نے ۴؍اپریل کو انہیں دھمکی دی کہ وہ کورٹ میں نہ آئیں ،ورنہ برے نتائج بھگتنے کے لئے تیار رہیں ۔اس کا انکشاف انہوں نے ANI ایجنسی سے بات کرنے کے دوران ہوا۔
یہ ہے حالت نام نہاد جمہوری ملک بھارت کی جہاں ایک وکیل کو اپنے ہی وکلاء برادری سے کیس کو لڑنے کے لئے دھمکیاں مل رہی ہیں تو ایک عام آدمی ان کالے کوٹ والوں سے کیا انصاف کی توقع کر سکتا۔
انائو اترپردیش میں بھی عصمت دری اور قتل کا المیہ بھاجپا کی اصلیت ظاہر کرتاہے ۔یہاں ایک بھاجپا ممبر اسمبلی کلدیپ سنگھ سینگر نے ایک ۱۶ سالہ ہندو لڑکی کو عصمت دری کا نشانہ بنایا ۔یہ شرم ناک واقعہ ۸؍اپریل کو تب سرخیوں میں آیا جب متاثرہ لڑکی نے انصاف کے لئے در در کی ٹھوکریں کھانے کے بعد اُتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی ادیتہ ناتھ کے گھر کے سامنے اپنی خود سوزی کی کوشش کی۔ یہ جون ۲۰۱۷ ء کی بات ہے جب اس لڑکی نے بی جے پی ایم ایل اے کلدیپ سنگھ سینگر پرعصمت دری کا الزام لگایا ۔لڑکی کے گھروالوں نے یہ الزام بھی لگایا کہ جب وہ FIR درج کرنے کے لئے گئے تو پولیس نے اسے درج کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ ۳؍اپریل ۲۰۱۸ء کو اس کم نصیب لڑکی کے والد کی ایم ایل اے کے بھائی بلدیو سنگھ نے خوب مار پٹائی کی ۔اس کے بعد اندھے قانون کی لاٹھی اٹھی ، بجائے اس کے کہ پولیس غنڈوں کو گرفتار کرتی اُلٹا لڑکی کے پتا جی کو ہی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا اور تھانے میں اس کی اس قدر مار پیٹ کی۹ ؍اپریل کو وہ اُسی اسپتال میں دم توڑ بیٹھا جہاں اسے پولیس لے گئی تھی۔ ۱۰؍ اپریل کو پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بتایاگیا کہ متوفیٰ کے جسم پر ۱۴؍ زخموں کے نشان پائے گئے۔اس واقعہ پر شور شرابہ ہوا تو سرکار نے اس کیس کو CBIکے حوالے کیا جس کے فوراً بعد غنڈہ گردی میں ۱۲؍اپریل کو CBIنے ریپ کے الزام میں کلدیپ کو گرفتار کر لیا ۔ آگے کیا ہوگا وہ کہنا قبل از وقت ہوگا ۔
یہ دونوں سرگزشتیں ــ’’بیٹی بچائو بیٹی پڑھائو ‘‘کے مودی میڈ نعرے کی قلعی بھی کھولتی ہیں اور بقول کپل سبل ’’بیٹی چھپاؤ‘‘ کا سجھاؤ بھی دیتی ہیں۔ دیر ہی سہی بالی وڈ سے لے کر سپورٹس شعبے کے نامور کھلاڑیوںنے یک زبان ہو کے آصفہ اور انائو عصمت دری کیس کی مذمت کی ہے اور ان کے مجرموں کو کڑی سزا دینے کی مانگ بھی کی ہے۔ وزیراعظم کو چاہیے کہ اپنے سیاسی سدھ بدھ کا اظہار کر تے ہوئے نہ صرف کھٹوعہ اور ناؤ کے اشک بار متاثرہ گھرانوںمیں قدم رکھ کر ان کو ذاتی طور دلاسہ دیں بلکہ ۱۷ ۲۰ میںAssociation for Democratic Reforms کی ایک رپورٹ پر بھی غور فرمائیں جس میں انکشاف ہوا ہے کہ بھارت میں جن۴۸؍ اسمبلی ممبر ان اور ۳ ارکان کے خلاف خواتین کے ساتھ جنسی زیادتیوں اور اغوا ء اکاریوں کے مقدمات درج ہیں ،ان کو اس وقت تک اپنی نشستوں سے برخواست کریں ۔ جب تک مجاز عدالتیں انہیں بری نہیں کر تیں ۔ نیز ریپ کی سزائے صرف سزائے موت مقرر کی جائے۔ ایک بات طے ہے کہ یہ جنتا نے ہی زیادہ تران نمائندوں ( لٹیروں )کو ووٹ ڈال کے جتوایا جس کے سر سنگین جرائم ہیں اور جو اپنے جرائم کی سز اسے بچنے کے لئے چور مچائے شور کے مترادف دین دھرم کے نام پر مجرمانہ حرکتیں کر تے اورکرواتے ہیں ، دنگے فساد کو شہ دیتے ہیں اور ان کو قانون کی گرفت سے بچانے کی کوشش میں سب پارٹیاں ووٹ بٹورنے کی نیت سے ہلہ شری کر تے ہیں ۔جس دیش میں سیاست کا یہ گھٹیا معیار قائم ہووہاں آصفہ اور اُنائو کی بیٹی کی عزت ریزی اور قتل ناحق ہونا کوئی حیران کن امر نہیں ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارتیہ جنتا آئندہ انتخابات میں گدھوں کو نہیں بلکہ ایسے لیڈروں کو اپنی پسند اور مرضی کاترجمان بنادیں جن کے ریکارڈ دُرست ہو ، جو کردار میں کھرے ہوں اور جو گھناؤنے جرائم کا پشتارا کاندھوں ڈھوتے ہوئے ایوانوں میں نہ بیٹھیں اور جو اپنا فرض مذہب ، ذات ، نسل ،زبان ، علاقہ کی بنیاد پر بنانے سے پر طہیز کر تے ہوئے انسانیت کے خدمت گزار ہوں ۔
Contact:8082629636