مصطفی جان ِ رحمت پہ لاکھوں سلام رحمتہ اللعالمین

 حافظ افتخاراحمدقادری

تاریخ ِ اسلام پر گہری نظر رکھنے والے اصحابِ فکر ونظر پر یہ امر بخوبی واضح اور نمایاں ہے کہ اسلام میں جبر و تشدد کی کہیں کوئی گنجائش نہیں۔ اسلام کے ابتدائی غزوات کی تاریخ کا باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد اس حقیقت سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ ابتدا مسلمانوں نے مخالفت و عداوت کے خلاف صلح بندی اور عدم تشدد کا راستہ اختیار کیا، لیکن جب اس امن پسندی کے جواب میں جبر و تشدد کے شعلوں کو مزید ہوا دی جانے لگی اور طاقت و قوت کے استعمال میں مخالفین مزید جری و بیباک ہوگئے تو پھر ایسے قیامت بردوش حالات کے سامنے امن پسندی راہ کو خیر باد کہہ کر طاقت کا جواب طاقت سے دیا جانے لگا۔ انسانی سماج میں کسی طبقے کو یہ حق کیوں کر حاصل ہوگا کہ وہ حق کو دبانے اور کچلنے کے لیے جبر وتشدد کی ساری حدوں سے گزر جائے اور اس کی انتہا پسندی کے جواب میں خاموش رہ کر حق کے خون ناحق کی ارزانی کا تماشا دیکھا جائے۔ ظاہر ہے کہ اپنے وجود اور تشخص کے قیام وبقا کے لیے اس طرح کے جبر وتشدد کے جواب میں طاقت کا استعمال مہذب دنیا کے قانون عدل وانصاف کے بھی خلاف قرار نہیں دیا جائے گا بلکہ اپنے وجود کے خلاف ہونے والی جارحیت کے دفاع میں بلند کی جانے والی ہر تحریک کو جائز اور مناسب کہا جائے گا۔۔

اسلام کی غیر مسلموں کے ساتھ جتنی بھی جنگیں ہوئیں ان کا تعلق اسی قسم سے تھا۔چنانچہ اسلام کے تعلق سے جہاں غیر مسلموں کا رویہ جارحانہ نہ ہو وہاں اسلام مسلمانوں کو امن پسندی عدم تشدد اور رواداری کی تلقین کرتا ہے۔ جنگ وجدل کے ماحول میں اسلام کی تبلیغی کاوشوں کا شجر سر سبز و شاداب بھی نہیں ہوسکتا اس لیے کہ امن و خیر سگالی کی فضا کا ہموار ہونا از بس ضروری ہے تاکہ اس خوبصورت اور خوشگوار ماحول میں اسلام کی تبلیغ اور اشاعت ِ دین کا فریضہ بحسن وخوبی انجام دیا جاسکے۔ چنانچہ محسن انسانیت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ اس بات کی کوششوں و کاوش فرمائی کہ ماحول پر امن و پر سکون رہے۔ اس پس منظر میں مشرکین ِ مکہ کے جور وستم کی تاریخ پر ایک نظر ڈالیے تو اس امر کی تصدیق ہوتی نظر آئے گی کہ آپ نے غیر مسلموں کی کھلم کھلا مخالفت اور جارحیت کے خلاف ہمیشہ رحمت و رافت کا رویہ اختیار فرمایا۔ہجرت کے بعد مدینہ منورہ تشریف فرما ہوئے ہی تھے کہ اہل مکہ قحط کے شکار ہو گئے، اہل مکہ کے مظالم کی داستان ابھی تروتازہ تھی لیکن اس موقع پر بھی جذبہ رحمتہ للعالمینی ابھر کر سامنے آیا اور آپؐ نے بارگاہِ خداوندی میں اہل مکہ سے قحط دور فرمانے کی درخواست پیش کی۔حضرت سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرکین ِ مکہ کے حق میں بد دعا کرنے کی درخواست پیش کی گئی تو آپ نے جواباً ارشاد فرمایا: میں لعنت بھیجنے کیلئے مبعوث نہیں ہوا ہوں، میں تو رحمتہ اللعالمین بنا کر بھیجا گیا ہوں۔(مسلم شریف) آپ نے کبھی بھی اس بات کو پسند نہیں فرمایا کہ طاقت وقوت کے بل بوتے پر امن وامان کو درہم برہم کیا جائے یا بیجا طور پر لوگوں کو تختہ مشق ستم بنایا جائے اور ان کے مال واسباب ناجائز طریقے سے لوٹ لیے جائیں۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ دولت ِ اسلام سے مشرف ہونے سے قبل ایک غیر اسلامی قافلے کے ساتھ ہوگئے۔ پھر موقع پاکر قافلے والوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور ان کے مال واسباب پر ناجائز طور پر قبضہ کر کے مدینہ منورہ حاضر ہوئے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں آئے تو سرکار نے ان سے ارشاد فرمایا: تمہارا اسلام تو قبول کرتا ہوں لیکن اس مال سے بے زاری و لاتعلقی کا اظہار کرتا ہوں جو تم لوٹ کر لائے ہو۔ نیز یہ ضابطہ ارشاد فرمایا: جو کوئی کسی کو لوٹے وہ ہم میں سے نہیں۔ حضرت ثعلبہ بن حکم راوی ہیں کہ ایک غزوے میں لشکر اسلام کے بعض اصحاب نے دشمن قبیلے کی چند بکریاں لوٹ لیں اور انہیں ذبح کر کے ہانڈیاں چڑھا دیں، محسن انسانیت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس واقعے کی خبر ملتی ہے تو آپ نے یہ حکم ارشاد فرمایا کہ تمام ہانڈیاں الٹ دی جائیں، تعمیل حکم میں ایسا ہی کیا گیا۔ آپ ؐنے عالم غضب وجلال میں فرمایا:غارت گری حلال نہیں ہے۔یہودیوں کا یہ عقیدہ تھا کہ مشرکین ِ عرب ناپاک ہیں لہٰذا ان کا مال لوٹنا اور ان کی امامت میں خیانت کرنا جائز ہے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ناجائز قرار دیا اور دور یہودیت کے اس رویہ کی سخت الفاظ میں مذمت فرمائی۔ یمامہ کے حاکم حضرت ثمامہ مسلمان ہوئے تو انہوں نے مکہ کی ناکہ بندی کردی تاکہ غلہ وہاں نہ پہنچ سکے اس بندش سے قریش میں کہرام مچ گیا۔ اس عالم اضطراب وپریشانی میں اْنہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ سے رجوع فرمایا تو آپ نے فوراً حاکم یمامہ حضرت ثمامہ کو ناکہ بندی ختم کرنے کا حکم نامہ صادر فرمایا۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ میری والدہ مکہ سے مدینہ آئیں اور مالی مدد طلب کی، میں بارگاہِ نبویؐ میں حاضر ہوکر عرض گزار ہوئیں: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری والدہ مکہ سے آئی ہیں اسلام بیزار ہیں اور مجھ سے امداد کی خواہاں ہیں، کیا مجھے ان کی مدد کی اجازت ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا: ہاں ضرور مدد کرو۔ ام المومنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا ایک یہودی سردار حی بن اخطب کی صاحبزادی تھیں۔انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے اپنے ایک یہودی قرابت دار کے لیے ایک جائیداد وقف کی تھی۔(تواریخ حبیب اللہ)

اسلام کی رواداری کے بنیادی اصول ،لا اکرہ دی الدین، کا کھلا مظاہرہ دیکھنا ہو تو دیدہ عبرت سے اس واقعہ کو زیب نگاہ کیجیے۔ مدینے میں ایام جاہلیت کی ایک رسم یہ چلی آرہی تھی کہ جس عورت کا بچہ زندہ نہیں رہ پاتا تھا وہ نذر مانتی کہ اگر بچہ زندہ وسلامت رہا تو وہ اسے یہودی بنا دے گی۔ اس رسم ورواج کے زیر اثر بہت سارے بچے یہودیوں کے ہاتھ لگ گئے تھے۔مدینے کے لوگوں نے داخل اسلام ہونے کے بعد یہودیوں سے اپنے بچوں کا مطالبہ کیا تو مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان تنازعہ کی شکل اختیار کر گیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی رواداری کا زریں اور بیش بہا اصول پیش کرتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا: جہاں بچوں کی مرضی ہوگی انہیں وہیں رہنے کا حق دیا جائے گا۔ مذہب کے معاملات میں کسی کے اوپر جبر و تشدد نہیں۔ چنانچہ جو یہودی رہنا چاہتے تھے انہیں اس کی آزادی مل گئی اور جو مسلمان ہو کر زندگی گزارنا چاہتے تھے وہ اپنے والدین کے پاس لوٹ آئے۔عدل وانصاف اور رواداری کے تعلق سے اسلام کے غیر جانبدارانہ اور منصفانہ فیصلوں کے تو مخالفین بھی قائل ہیں۔ بارہا ایسا ہوا کہ غیر مسلم مسلمانوں کے خلاف مقدمہ لے کر بارگاہِ نبویؐ میں حاضر ہوئے اور عدل وانصاف کے پیغامبر نے بغیر کسی رو رعایت کے غیر جانبدارانہ اور منصفانہ فیصلہ صادر فرمایا۔ بسا اوقات تو مقدمات عظیم المرتبت اور جلیل القدر صحابیؓ رسولؐ کی ذات سے بھی متعلق ہوتے لیکن ان میں بھی کسی قسم کی جنبہ داری اور طرف داری کی دور دور تک کوئی مثال نہیں ملتی۔ حضرت عبد اللہ ابن ِ ابی حدر انصاری رضی اللہ عنہ ایک یہودی کے پانچ درہم کے مقروض تھے اور ان کی تنگ دستی کا یہ عالم تھا کہ تن ڈھانپنے کے کپڑے کے سوا کوئی شئے نہیں تھی۔ اس پانچ درہم کا مقدمہ بارگاہِ نبویؐ میں پیش ہوا اور مدعی نے مہلت دینے سے انکار کیا۔ فیصلہ یہودی قرض خواہ کے حق میں بارگاہِ نبویؐ سے صادر کر دیا گیا اور صحابی رسولؐ کو بغیر کسی مہلت کے پانچ درہم ادا کرنے کا حکم دیا گیا۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن ابی حدر نے تین درہم میں اپنا کپڑا فروخت کیا اور دو درہم کسی صحابی سے بطورِ قرض لے کر یہودی کے قرض سے نجات حاصل کی۔

میدان جنگ تو میدان جنگ ہی ہوتا ہے وہاں کسی قسم کی رو رعایت کی گنجائش کہاں ہوتی ہے لیکن حضور رحمتہ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کا جذبہ رحمت میدان جنگ میں بھی کار فرما نظر آتا ہے۔ چنانچہ بدر کے میدان میں جنگ شروع ہونے سے قبل مشرکین کی فوج اس حوض پر پانی پینے کی عرض سے آئی جو اسلامی لشکر کے قبضے میں تھا۔ انہوں نے یہ حوض اپنی ضرورت کے لئے تیار کیا تھا۔ چناچہ اصحابِ کرام نے غیر مسلموں کو پانی پینے سے روکنا چاہا تو سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پانی پینے سے منع نہ کرو پانی پینے دو، فتح مکہ کا دن تھا مسلمانوں کو فتح مندیوں اور کامرانیوں کے اظہار کا اعلیٰ ترین دن تھا، اگر کوئی دنیا دار کمانڈر اور جرنیل ہوتا تو اپنی فتح مندیوں کے نشے میں چور ہوتا اور نخوت و تکبر سے اس کا مغرور سر اٹھا ہوا ہوتا۔ وہ دنیاوی جاہ وجلال کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے دشمنوں کے ایک ایک ظلم کا چن چن کر بدلہ لیتا، بدلے کی بھاونا میں جلتے ہوئے احساسات کو سرد کھانے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی، لیکن ایسا تو وہ کرتا ہے جو دنیا دار اور جاہ پسند ہوتا ہے۔اقلیم نبوت کے تاجدار نے تواضع، انکسار، حلم و ایثار کا ایسا شاندار مظاہرہ فرمایا کہ دنیا کی تاریخ کے صفحات اس قسم کی مثال پیش کرنے سے عاجز ہیں۔حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ مکہ مکرمہ میں داخلے کی کیفیت اور احوال کے بیان میں یوں رقم طراز ہیں: ،،فوجی دستوں کو تین سمتوں میں متعین فرمانے کے بعد آپ نے غسل فرمایا، پھر اسلحہ زیب تن کرکے خاص اصحابِ کرام کے ساتھ اونٹوں پر سوار ہوئے، آپ کو اپنی ہجرت کا وہ نازک وقت یاد آیا جب اسی مکہ کی اسلام مخالف طاقتوں نے آپ کے قتل کی منصوبہ بند سازش کر کے رات بھر آپ کے مکان کا محاصرہ کر رکھا تھا اور آپ غار ثور کے اندر تھے، اب اس شہر میں اللہ رب العزت نے حاکمانہ اقتدار کے ساتھ داخلے کی صورت پیدا فرما دی تھی۔ اس احسانات پر جذبات تشکر سے مغلوب ہوکر سب سے پہلے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سر کو جھکا کر بیٹھے بیٹھے ہی سجدہ شکر ادا فرمایا۔ پھر سورہ فتح بآواز بلند تلاوت فرمائی۔
فتح مکہ کا دن مسلمانوں کے لیے کامیاب ترین دن تھا اور مشرکین مکہ کے لیے اس دن کی سختی و جانکاہی ناقابلِ بیان تھی۔ چنانچہ مشرکینِ عرب اس دن سخت ہراساں و پریشان تھے۔ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے ابوسفیان سے کہا آج کا دن قتل وغارت کا دن ہے۔ آج حرم میں خونریزی کی جائے گی۔ آج کے دن اللہ تعالیٰ قریش کو ذلیل ورسوا فرما دے گا۔ یہ دستہ گزرتا گیا یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ناقہ قصوا پر سوار ہو کر نمودار ہوئے۔ ابوسفیان کو اشارہ کرتے ہوئے حضرت عباسؓ نے فرمایا ابوسفیان یہ ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔ابوسفیان نے حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا! یارسول اللہؐ کیا آپ نے اپنی ہی قوم کے لوگوں کے لئے قتل وغارتگری کا حکم صادر فرمایا ہے؟ کیا آپ کو پتہ نہیں کہ سعد بن عبادہ نے کیا کہا؟ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ سعد نے کیا کہا؟ ابوسفیان نے جواب دیا کہ سعد نے کہا: کہ آج کا دن قتل و غارت کا دن ہے۔ آج حرم میں خوں ریزی کی جائے گی۔ آج کے دن اللہ تعالیٰ قریش کو ذلیل ورسوا فرما دے گا۔ یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہرگز نہیں۔ تم اطمینان رکھو، اور آپ نے فرمایا اے سفیان! سعد نے غلط کہا! آج کا دن رحمت کا دن ہے، آج کا دن وہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ کعبہ کی عظمت ظاہر فرمائے گا، آج کا دن وہ ہے جس میں کعبہ کو غلاف پہنایا جائے گا، آج کا دن وہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ قریش کی عزت کو چار چاند لگائے گا- (ضیاء النبی، جلد 04، صفحہ: 436)
ابوسفیان نے کہا میں آپ کو خدائے بزرگ و برتر کی قسم اور قریش کی قرابت کا واسطہ دے کر یہ درخواست کرتا ہوں کہ قریش کو معاف فرما دیجئے گا۔ کسی قسم کی انتقامی کارروائی نہ کیجئے گا۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہاں! ایسا ہی ہوگا۔ اس کے بعد حکم صادر فرمایا کہ سعد بن عبادہ (جو قبیلہ انصار کا پرچم بلند کئے فوج کو کمان کر رہے تھے) سے پرچم لے لیا جائے کیونکہ وہ انتقامی جذبات سے مغلوب ہیں۔ بدلے کی بھاونا میں جل رہے ہیں۔انتقامی کارروائی کر سکتے ہیں لہٰذا تعمیل حکم کرتے ہوئے پرچم ان سے لے لیا گیا اور کمان دوسرے صحابی رسول کے حوالے کر دی گئی۔ پھر یہ اعلان ہوتا ہے کہ جو کوئی ابوسفیان کے گھر میں پناہ لے گا۔وہ بھی امان میں ہے، جو اپنے گھر کا دروازہ بند کر لے گا وہ امان میں ہے۔جو اسلحے پھینک دے وہ امان میں ہے۔ یہی نہیں بلکہ خود مختاری اور حاکمیت کے سارے ساز وسامان مہیا ہونے کے باوجود آپ نے ایک بے گناہ جنید بن اکوع (جو مسلمانوں کے ہاتھوں غلطی سے مارے گئے تھے) کے وارثوں کو بطورِ دیت سو اونٹ بھیجے، اس دن سارے لوگ معافی کے حقدار قرار پائے بلکہ شہر میں جہاں قدم قدم پر آپ ؐاور آپ کے اصحاب ؓکو کفار ومشرکین کی حد درجہ مخالفتوں کے تاریک دور سے گزرنا پڑا ۔آج مسجد حرام کے دربار میں وہ سارے لوگ آپ کے روبرو موجود ہیں جنہوں نے آپ کو اور آپ کے اعوان و انصار کو تین سال تک شعب ابی طالب میں محصور کر کے آب و دانے تک کے لیے محتاج کردیا تھا۔ہاشمی بچے بھوک سے تڑپتے اور پیاس کی شدت سے بلبلا اٹھتے لیکن ان درندہ صفت اور وحشی خصلت کی سنگ دلی پر ان باتوں کا کوئی اثر نہ ہوتا بلکہ آہ وبکا سن کر یہ ہنسی مذاق کرتے اور جزبہ عداوت کی تسکین کا سامان بہم کرتے۔ج وہ لوگ بھی آپؐ کے سامنے تھے جو آپ پر ایمان لانے والوں کے ساتھ سختی کے ساتھ پیش آتے اور انتہائی سنگ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کو تپتی ہوئی ریت پر ڈال کر گھسیٹے۔ ایسے ظلم بردوش ماحول میں تیرہ سال زندگی گزارنے والوں کو آج اللہ تبارک وتعالیٰ نے خود مختاری وحاکمیت کے سارے ساز و سامان سے نوازا تھا۔لیکن ظالموں کے خلاف کسی قسم کی انتقامی کارروائی نہیں کی گئی بلکہ جانی دشمنوں کو عفو عام کا مژدہ سنایا گیا۔ امن کی تمام تر یقین دہانیوں کے باوصف مخالفین اسلام کے اپنے کانوں پر اعتماد و بھروسہ نہ ہوا کہ بھلا جن نفوس پر ہم نے عرصہ حیات تنگ کر رکھا تھا۔ ظلم و ستم کا وہ کون سا طریقہ تھا جو ہم نے ان کمزور اور نہتے مسلمانوں پر نہ آزمایا ہو، آج طاقت واقتدار کے باوجود وہ ہم سے کوئی انتقام نہ لیں گے، ہمیں ایذا رسانیوں اور جفاکاریوں کی یقینا قرار واقعی سزا ملے گی۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا مشرکینِ مکہ کے ساتھ جذبہ رحمتہ للعالمینی دیکھ کر بعض اصحابؓ آپس میں سرگوشیاں کرنے لگے کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی قوم کی محبت نے غلبہ کر لیا اور اب ہم لوگوں کو چھوڑ کر مکہ میں ہی اپنی قوم کے لوگوں کے ساتھ زندگی گذاریں گے۔ انصار کے اس خدشے کی اطلاع پاکر حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جمع فرما کر خطاب کیا:تم نے کیا کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی قوم کی الفت غالب آگئی ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اور اس کا رسولؐ، میں نے اللہ کے لیے تمہاری جانب ہجرت کی تھی اور یہ اطمینان خاطر رکھو کہ میرا جینا مرنا تمہارے ساتھ ہی ہے۔
رابطہ۔کریم گنج،پورن پور،پیلی بھیت،یوپی
ای میل۔[email protected]
(مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)