کورونا وائرس جیسی مہلک وبا سے پوری دنیا جوجھ رہی ہے اور اب تک اس عالمی امراض کی کوئی دوا نہیں بن سکی ہے ۔نتیجہ ہے کہ ہر پل اس وبا سے متاثر ہونے والے اور جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد میں تبدیلی ہو رہی ہے ۔اس لئے اس کے اعداد و شمار کی کوئی حتمی شکل سامنے پیش نہیں آ رہی ہے ۔اب تک جاری رپورٹ کے مطابق سولہ لاکھ افراد عالمی سطح پر اس قدرتی آفات سے متاثر ہوئے ہیں اور سوا لاکھ انسانی جانیں قربان ہو چکی ہیں ۔البتہ اس بیماری سے نجات حاصل کرنے والے افراد کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے اور اب تک چار لاکھ متاثرہ افراد موت کے منھ سے باہر نکل آئے ہیں ۔اس قدرتی آفات نے انسان کی جانب سے کی گئی تمام سائنسی ایجادات پر پانی پھیر دیا ہے کہ اب تک اس کی اصل دوا ساز ی میں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے ۔دنیا بھر میں اپنی سائنسی تحقیق اور ایجادات کا ڈنکا پیٹنے والا اور انسانی وسائل کی بدولت دنیا کے انسانی معاشرے کو خوف زدہ کرنے والےامریکہ میں آج سب سے زائد شہری کو موت کی آغوش میں چلے گئے ہیںاب تک بیس ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور چار لاکھ پچاس ہزار افراد اس وقت کورونا کی زد میں ہے ۔اس طرح اٹلی ،اسپین ،جرمنی ، فرانس جیسے ترقی یافتہ ممالک میں بھی اس وقت مرنے والوں کی تعداد میں ہر دن اضافہ ہو رہا ہے ۔اب تک جنوبی کوریا ہی ایک ایسا ملک ہے جس نے بر وقت اپنے تمام شہری کی طبی معائنہ کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے اور اس وقت بھی انسانی وسائل کی حفاظت کیلئے کئی ٹھوس اقدامات کر رہے ہیں ۔
جہاں تک اپنے ملک ہندوستان کا تعلق ہے تو ہمارے یہاں اس مہلک مرض کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا اور قدرے تاخیر سے اس مہلک مرض سے مقابلہ کرنے کی جانب متوجہ ہوا ۔یاد رہے کہ اس وبا سے پوری دنیا بھر میں ایک خوف کا ماحول جنوری ماہ میں ہی پیدا ہو گیا تھا لیکن اپنے وطن عزیز میں تیرہ مارچ کو سرکاری بیان میں کہا گیا تھا کہ اس وقت کورونا کی بیماری سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے ۔اس کی کیا وجہ تھی اس پر ا ب کچھ کہنے کاکوئی فائدہ نہیں ۔البتہ افسوس ہے کہ اگر ہمارا ملک بھی جنوبی کوریا کی طرح ہوشیار اور تیار رہتا تو اس وقت جتنے مشکلات درپیش ہیں، شاید اتنے نہیں ہوتےاور نہ ہی ملک میں اس قدرتی آفات کو مذہبی لبادہ پہنانا پڑتا۔اگرچہ اب یہ حقیقت سامنے آ چکی ہے کہ اس وبا کو کیوں کر مذہبی جماعتوں سے جوڑا گیا ہےلیکن اب بھی زعفرانی میڈیا باز نہیں آتی اور ملک میں بدستور زہر پھیلا رہی ہے ۔قابل مبارک باد ہیں مولانا محمد ارشد مدنی جو میڈیا کی زہر افشانی کے خلاف سپریم کورٹ گئے ہیںاور دیگر ملی رہنماؤں نے بھی احتجاج کیا ہے اور ملک کے پرائم منسٹر کو عرضداشت پیش کیا ہے کہ جمہوری حکومت میں ایسا کرنا چاہئے ۔جب کہ حقیقت ظاہر ہے کہ اس کٹھ پتلی میڈیا کی ڈورکس کے کے ہاتھوں میں ہے ۔یہ ایک اچھی بات ہے کہ چھتیس گڑھ کے وزیر اعلیٰ نے اس وبا کو مذہبی جماعتوں سے جوڑنے کی سازش کی مذمت کی ہے، اس سے قبل مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ نے بھی آفسوس ظاہر کیا تھا اور کئی ریاستو ں کی پولیس نے بھی میڈیا کے کردار کو ملک مخالف قرار دیا ہے مگر افسوس ہے کہ مرکزی حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہےاس لئےیہی کہا جاسکتا ہے کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے ۔
بہرکیف ۔اب پہلے مرحلے کی خود ساختہ بندی کی مدت ختم ہوچکی ہے اور اس وقت تک دوسرے مرحلے کی خود ساختہ بندی کا بھی فیصلہ لیا گیا ہے جبکہ کئی ریاستوں میں اس کو آگے بڑھانے کیلئے پہلے ہی تیار ی چل رہی تھی ۔کچھ وزرااعلیٰ نے اپنے اپنے ریاستوں میں ہاٹ اسپاٹ علاقوں کی نشاندہی کی ہے اور لاک ڈاؤن جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے ۔لیکن مرکز کے فیصلے اور اعلان کے لئے ملک کے عوام کو جس بے صبری کے ساتھ انتظار تھا،وہ بھی ختم ہوگیا ہے ۔جبکہ پورے ملک کی عوام طرح طرح کی پریشا نیوں سے دوچار ہیں۔جن کے لئے جینے کی تمام ترسہولیات فراہم ہیں اور جو تالی تھالی پیٹنے اور دِیا جلانے کے بعد ٹی وی چیلنوںکو دیکھ دیکھ کر وقت کاٹ رہے ہیں، ان کی جانب سے بھی لاک ڈاؤن کو ختم کرنے کی آواز بلند ہو نے لگی تھیں ۔شاید اس لئے محکمہ ریلوے نے پندرہ اپریل سے ٹکٹ فروخت کرنے کی جانب بھی قدم اٹھانے کا اشارہ دیا تھا اور ٹرین چلنے کی جواُمید پیدا ہوگئی تھی،وہ بھی فی الحال دم توڑ بیٹھی ہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اس دوسرے لاک ڈاؤن کی مدت کے بعد ملک میں کیسی فضا قائم ہوتی ہے کہ حکومت کے سامنے دو بڑے چیلنج ہیں ۔ایک کورونا پر قابو پانے کیلئے سماجی دوری کی روش جاری رکھنے کی کہ اب تک ہمارے اسپتالوں میں اس وباکی دوا نہیں ہے اور ڈاکٹر و دیگر طبی امداد فراہم کرنے والے افراد کو جو ضروری حفاظتی انتظامات کئے جانے چاہئے تھےوہ بھی پوری طرح نہیں ہو سکے ہیں۔ اس کی وجہ سے ہمارے ڈاکٹر وں کی جان بھی خطرے میں پڑے ہوئے ہیںجبکہ ایک کی موت ہو چکی ہے اور سینکڑوں کارکنوں کو علاحدگی اختیار کر نی پڑی ہے ۔سب سے بڑی مشکل تو اب ہوگی کیونکہ آج تک جانچ پڑتال اتنی کم ہوئی ہے کہ یہ کہنا مشکل ہے کہ کون اس سے متاثر ہے اور کون نہیں ۔ سچائی یہ بھی ہے کہ اس ملک میں طبی معائنہ کرنے کا بنیادی سہولتوں کے فقدان کی جانب کبھی بھی بھرپور توجہ نہیں دی گئی جس کے نتیجہ میں آج حکومت کی مجبوری بن گئی ہے کہ وہ لاک ڈاون کو جاری کھتے ہوئےعوام کو طرح طرح کے حربوں سے بہلا تے چلے جائیں ۔
ہم سب اس حقیقت سے واقف ہو گئے ہیں کہ اچانک پہلی مدت لاک ڈاؤن کےشروع ہونے کی وجہ سے کتنے مسائل پیدا ہو گئے ہیں ۔خاص طور پر یومیہ اجرت میں زندگی بسر کررہے مزدوروں کی حالت تشویشناک ہے ۔ لاکھوں مزدور ملک کے مختلف مقامات سے پیدل سفر کرنے کو مجبور ہوئے ہیں اور اب بھی اپنے گھروں کو نہیں پہنچے ہیں اور جو پہنچ گئے ہیں وہ فاقہ کشی کے شکار ہیں ۔ ان کو سرکاری ذرائع سے امداد بھی نہیں مل سکے گی کہ ان کے پاس کوئی مطلوبہ دستاویز نہیں ہے ۔واضح رہے کہ سب سے زائد ہجرت کرنے والے مزدور بہار اور اتر پردیش کے ہیں اور ان میں تو ہزاروں افراد ایسے ہیں جو دس بیس سالوں کے بعد اپنے گاؤں لوٹے ہیں اور ان کے ساتھ اپنوںاور دیگر لوگوں کی طرف سے جو سلوک ہو رہا ہے وہ بھی افسوس ناک ہے ۔ہزاروں خاندان اپنے گاؤں کے باہر اسکولوں میں پناہ گزین کیمپوں میں ہیں اور طرح طرح کی مشکلات جھیل رہے ہیں ۔در حقیقت ہم نے تالی تھالی پیٹ کر اور دِیا روشن کرکے یہ فیصلہ کر لیا ہےکہ ہم بالکونی والوں کی طرح، سڑکوں پر لاٹھی چارج کے شکار افراد بھی بھگتی میں مست ہیں ۔جب کہ اپنے ملک عزیز میں سرکاری رپورٹ کے مطابق سات کروڑ لوگ یومیہ اُجرت پر زندگی بسر کرنے والے ہیں اور دو کروڑ خانہ بدوش ہیں، جن کا اپنا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں ہے ،وہ دہلی ،ممبئی ،کولکتا ،احمد آباد اور جے پور و دیگر بڑے شہروں میں فٹ پاتھوں اور گندی جھنگی جھونپڑیوں میں رہتے ہیں اور سورج کی روشنی ہی اس کی رفتار تیز رکھتی ہے وہ دِیا جلانے کی حقیقت کیا جانے؟ ۔آسام اور مغربی بنگال کے چا بگان میں پندرہ لاکھ سے زائد یومیہ اُجرت پر کام کرنے والے مزدور بھک مری کے شکار ہیں کہ بگان مالکان نے ان کو ہفتہ وار راشن دینے سے انکار کردیا ہے کہ اس وقت اس کو بگان سے چائےکی فصل کی کٹائی سے جو آمدنی ہونی چاہئے تھی وہ نہیں ہو سکی ہے ۔واضح رہے کہ چائے مزدوروں کو یومیہ اجرت ایک سو اسی روپئے ملتے ہیں اور ہر ہفتے بگان مالک کی جانب سے راشن ملتا ہے ۔
اس کے علاوہ چھوٹے بڑے شہروں میں گھریلو استعمال کی چیزوں کے صنعت کاروں کے یہاں کام کرنے والے مزدوروں کی حالت بھی خستہ ہے ان کا کام کاج بھی بند پڑا ہوا ہےاور انہیں اور کوئی کام نہیں مل رہا ہے۔ پٹریوں پر ریڑی لگانے والے ،چائے پان کے علاوہ ،پھل ،سبزیاں فروخت کرنے والے افراد کو بھی پریشان ہیں ۔ لاک ڈاؤن نے سب کی کمر توڑ دی ہے ۔اس لئے لاک ڈاؤن کی مدت ختم ہو کہ جزوی طور پر راحت دی جائے،اس بات کا اعلان مرکزی سرکار نے کردیا کہ فی الحال لاک ڈاون برقرا ر رہے گا اور اس کی مدت اگلے ماہ کی تین تاریخ تک مقرر کی گئی ۔ظاہر ہے کہ اس فیصلے کے بعد اب مشکل کا دور شروع ہونے والا ہے کیونکہ صرف جن دھن بینک کھاتے میں پانچ سو روپے ڈالنے یا پھر ایک دو ہفتے تک راحت کاری کیمپ جاری رکھنے سے مشکلات کم نہیں ہونے والے ہیں ۔اس پر حکومت کو غور و فکر کرنے کے ساتھ ساتھ کئی ٹھوس اقدامات بھی کرنے اٹھانے ہونگے۔ اگر اِن یومیہ اُجرت میں زندگی بسر کرنے والے افراد کے مسلوں کی اَندیکھی کی گئی تو کورونا وبا سے زائد افراد بھوک مری سے جان گنوا بیٹھیںگے ،یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔اپنے ملک میں پیتالس فیصد مزدوروں کی زندگی کا انحصار مختلف علاقوں میں یومیہ اُجرت پر ہی ہیں، ایسے وقت میں نہ صرف مركزی حکومت بلکہ ریاستی حکومتوں کو بھی ٹھوس اقدامات کرنے ہونگے ۔
میل ۔[email protected]
موبائل ۔9431414586